تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 680

فوج، سیاستدان اور ملکی بحران

بھارت جس طرح پاکستان کے خلاف گھیرا تنگ کررہا ہے اس کو دنیا بھر میں تنہا کرنے کی سازشوں میں سرگرداں ہے اس کی مکمل پشت پناہی اب امریکہ کھلم کھلا کررہا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کے وہ دوست ممالک جو ہمیشہ سے پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے نظر آتے تھے وہ بھی اس طرح کھل کر ساتھ دینے سے قاصر نظر آتے ہیں جیسا کہ پاکستان کو اس بین الاقوامی ادارے TTFF میں جس میں تقریباً 35 ممالک شامل ہیں جو دولت کی ناجائز ترسیل کی منی لانڈرنگ کی روک تھام کا ذمہ دار ہے اس میں بھی چین اور سعودی عرب پاکستان کو گرے لسٹ سے بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور امریکہ اور بھارت کی سرکردگی میں برطانیہ، فرانس، جرمنی کی ایما پر پاکستان پر پابندی لگوا دی گئیں۔ ان کا مقصد پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچا کر نہ صرف پاکستان کو بلکہ پاکستان کی فوج کو کمزور بنا کر اپنے تابع کرنا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغان پالیسی کے حوالے سے دیئے ہوئے بیان کے مطابق جس میں امریکی صدر نے براہ راست پاکستان کو دھمکی دیکر ایک طرح سے اعلان جنگ کردیا تھا اس کا براہ راست نشانہ پاکستان کی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی ”آئی ایس آئی“ تھی، امریکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ”ہاتھی کے پاﺅں میں سب کا پاﺅں“۔ تمام مغربی مماک کے ساتھ دنیا بھر کے امریکی اتحادی بھی امریکہ کے ساتھ کھڑے پاکستان کے خلاف سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان کی معاشی صورت حال کے مدنظر TTFF، IMF اور ورلڈ بینک بھی امریکی پالیسیوں کے تابع ہوتا ہے۔ صورت حال یہ بنتی ہے کہ
ساری دنیا میری مخالف ہے
تم نے کیا کہہ دیا زمانے سے
اس امریکہ نے پاکستان کے متعلق اپنے مخالفانہ بیان سے یہ تک کہہ دیا کہ پاکستان کو بے پناہ نقصانات برداشت کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے، ٹرمپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان میں سیاسی نظام غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے بنیادی فیصلے فوج کی جانب سے ہی ہو رہے ہیں۔ اس لئے وہ براہ راست فوج کو ہی نشانہ بنا رہا ہے، اس سے پہلے کہ وہ کبھی فوجی جرنلوں کو سیاستدانوں کے خلاف استعمال کرتا اور ان سیاستدانوں کو سزاوار بناتا جو اس کے فیصلوں سے انکار کرتے، ابتدائی دور کے سیاسی حکمرانوں کے خلاف سازشوں میں امریکہ براہ راست شریک ہو کر ان کی حکومتوں کو فوجی حکمرانوں کے ذریعہ غیر مستحکم کروا کر ان سیاستدانوں کو اپنے راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہو جاتا جیسا کہ اس نے ضیاءالحق کے ذریعہ بھٹو کو اپنے راستے سے ہٹایا اور اس کو پھانسی کے پھندے تک پہنچا دیا۔ اس ہی طرح جب NRO کے موقع پر بے نظیر بھٹو سے مشرف کو NRO کروانے پر مجبور کیا۔ پھر جب بے نظییر نے پاکستان واپس آکر این آر او کے خلاف ہو گئی تو اس اپنے راستہ سے ہٹا کر الزام فوجی حکمرانوں پر لگوا دیا۔ تاریخ بتاتی ہے امریکہ نے کبھی فوجی حکمرانوں کے خلاف سیاستدانوں کو استعمال کرکے اپنے مقاصد پورے کرکے فوجی حکمرانوں کو اپنے راستہ سے ہٹایا جیسا کہ جنرل مشرف پر الزام لگا کہ اس نے امریکہ سے ڈبل گیم کیا ہے تو اس کو افتخار چوہدری کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کو ملا کر اپنے راستے سے ہٹانے کی کامیابی حاصل ہوئی کیونکہ امریکہ کا خیال یہ تھا کہ مشرف امریکہ کے مفاد کے مقابلہ میں ”پاکستان پہلے“ کا اصول اپنائے ہوئے ہے اور امریکی مفاد پورے نہیں کررہا ہے۔ اس لئے امریکہ نے کبھی فوجی حکمرانوں کو سیاستدانوں کے خلاف استعمال کیا اور مقاصد اپنے پورے کئے اب فوج اور سیاستدانوں کو مل کر یہ سوچنا چاہئے کہ وہ ملکی مفاد کو مقدم رکھیں اور امریکی مفاد کو فوقیت نہ دیں اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہوں اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنائیں۔ موجودہ آرمی چیف ہر پچھلے دور کے فوجی حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا جو بوجھ آن پڑا ہے اور وہ جس طرح اس بوجھ کو اٹھا کر ایک نئی راہ کا تعین کررہے ہیں اس کے لئے تمام قوم کو پچھلے فوجی حکمرانوں کی بدعملیوں کو فراموش کرکے موجودہ آرمی چیف کا کھل کر مکمل ساتھ دینا چاہئے کیونکہ ان پر تاریخ نے ایک ایسا وقت ڈال دیا کہ وہ بھی اس صورت حال سے تنہا نبردآزما نہیں ہو سکتے۔ جن تاریخی غلطیوں کا آغاز ایوب خان سے ہوا وہ یحییٰ خان سے ہوتا ہوا ضیاءالحق تک اس کا تسلسل قائم رہا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان غلطیوں میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ اس کے برخلاف ابتدائی زمانے کے سویلین حکمرانوں کی پالیسیوں کے ثمرات موجودہ دور کے سیاسی حکمراں اٹھا رہے ہیں جو کہ پرانے زمانے کے حکمرانوں کے مقابلہ بدعنوان ہیں یعنی ابتدائی دور کے بد اعمال فوجی حکمرانوں کا خمیازہ عوام کے ساتھ موجودہ دور کے آرمی حکمرانوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیاءالحق کے بعد ان کی پالیسیوں سے انحراف مرزا سلم بیگ سے ہوتا ہوا جہانگیر کرامت تک جاری رہا پھر ان کی پالیسیوں سے یوٹرن کا آغاز پرویز مشرف سے ہوتا ہوا راحیل شریف تک جاری رہا مگر وقت اور حالات نے اس پالیسیوں میں مزید تبدیلیوں کا بوجھ موجودہ آرمی چیف کے کاندھوں پر ڈال دیا۔
آج صورت حال یہ ہے کہ باقی دنیا بھی تبدیل ہو گئی ہے، امریکہ سمیت دیگر ممالک بھی پاکستان کو ہر معاملے میں مود الزام قرار دے رہے ہیں اور اس کا ذمہ دار بھی فوجی عناصر کو گردانتے ہیں۔ انہوں نے شروع میں فوجی حکمرانوں کو اکسا کر اقتدار پر قبضہ پر آمادہ کیا اور اپنی مرضی کے فیصلوں کے ذریعہ پاکستان کے مسائل میں اضافہ کا باعث بنے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں