ہم نے اس تحریر کا عنوان با دلِ ناخواستہ اور مجبوراً چنا ہے۔ یہ تحریر بھی اسی مجبوری کا نتیجہ ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہمیں اردو کے ایک اہم اور ممتاز شاعر کے فیس بک پر کسی ہرزہ گو کی جانب سے یہ تبصرہ پڑھنے کا موقع ملا، ”۔۔۔ قادیانی شاعر ہے۔ پلیز اگنور کریں“۔ یا اس قادیانی شاعر سے اجتناب کریں۔ ہمارے ہاں کسی بھی شخص پر الزام تراشی اور بہتان طرازی، کی یہ رسم عام ہے کہ جس کسی کو بھی چاہیں کافر، احمدی ( ہم احمدیوں کو احمدی کہتے ہیں قادیانی نہیں کہتے)، وطن دشمن ، یا غدار دے دیں۔ پاکستان میں ، ایسی کسی بھی ہرزہ گوئی کے نتیجہ میں موردِ الزام شخص سخت مشکلات میں گھر جاتا ہے۔ اس کی جان بھی جا سکتی ہے، اور نانصافی پر مبنی قید و بند تو خیر عام ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ بیہودہ گوئی کسی ایک فرد تک محدود نہیں ہے۔ ہمارا سارا معاشرہ مختلف رکیک تعصبات کا شکار ہے اور یہ رسم عام ہے۔ اور کئی مذاہب کی طرح ہمارے مذہب میں بھی یہ رواج راسخ ہے۔ اس ہرزہ گو کہ اس ایک جملہ کے بعد گویا ایک سیلابِ بد گوئی اور بدمزاجی امڈ آیا۔ بعضوں نے ’نفیس شاعر ‘ سے یہ مطالبہ شروع کیا کہ آپ اس الزام کی تردید کریں بلکہ یہ ثابت کریں کہ آپ مسلمان ہیں۔
سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ کوئی خود کو مسلمان کیسے ثابت کرے۔ کیا صرف کلمہ اول کا یا کلمہ شہادت پڑھ کر یہ ثابت کیا جاسکتا ہے۔ سنی بھی یہی کلمہ پڑھتے ہیں، شیعہ بھی یہی کلمہ پڑھتے ہیں، اور احمدی بھی۔ اب کوئی کیا کرے گا۔ سو پاکستان میں مسلمانی کی یہ نئی شرط لگائی گئی، کہ آپ احمدی مذہبی رہنما کے جھوٹا نبی ہونے کا اعلان کریں۔ گویا کلمہ میں جو رسول کا عطا کردہ ہے اس میں بھی تحریف کر دی گئی۔ اب کفر کا مرتکب کون ہوا۔ احمد یا کلمہ میں تحریف کرنے والے۔
کہتے ہیں کہ تقسیمِ ہند کے فسادات کے وقت فسادی فساد کا شکار ہونے وانے والے شخص سے کہتے تھے کہ پاجامہ اتار کر دکھاﺅ کہ تمہاری ختنہ ہوئی ہے کہ نہیں۔ اگر نہیں تو تمہارا پیٹ چاک۔ان جاہلوں کو کیا پتہ کہ ہندوستا ن میں تو عیسائی بھی بستے تھے اور یہودی بھی۔ ان کے کپڑے پھاڑے جایئں گے تو وہ بھی ختنہ شدہ نکلیں گے۔ اب آپ کہیں گہ کہ کلمہ پڑھنے کے ساتھ ختنہ دکھانا بھی ضرور ی ہے۔ گویا آپ نے اب کلمہ میں شدید تر تحریف کر دی۔ اب مسلمان ہونے کے لیئے ختنہ دکھانا بھی لازم ہو گیا۔ فاعتبرو، یا اولیٰ الابصار۔
اس جاہلانہ بیہودہ عمل کا قصہ صرف فسادات کا یا منٹو کے افسانوں کا قصہ نہیں ہے۔ پاکستان کے اہم رہنما ذوالقار علی بھٹو کے پھانسی کے ذریعہ عدالتی قتل پر کیا ہوا ، اس کی ایک روایت یہ بھی ہے۔ ہم اسے دروغ بر گردنِ راوی کی پناہ لیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ، ”اس زمانے میں راولپنڈی سنٹرل جیل میں کام کرنے والے خفیہ اہلکار کرنل رفیع اپنی کتاب ’بھٹو کے آخری دن‘ میں لکھتے ہیں، ’تھوڑی دیر بعد خفیہ ایجنسی کے ایک فوٹو گرافر نے آکر بھٹو کے پرایﺅیٹ پارٹس کی فوٹو اتاری۔ حکومت اس بات کی تصدیق کرنا چاہتی تھی کہ آیا بھٹو کے اسلامی طریقہ سے ختنے بھی ہوئے تھے کہ نہیں۔ تصویر اتارنے کے کے بعد اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ بھٹو کے ختنے ہوئے تھے۔۔۔بعد میں شیام بھاٹیہ نے اپنی کتاب ’گڈ بائی شہزادی‘ ، میں لکھا تھا کہ بے نظیر نے انہیں خود بتایا تھا کہ بھٹو کو موت کے بعد بھی اس بے عزتی سے گزرنا پڑا تھا۔
اس واقعہ میں جو ظالمانہ تاریخی ستم ظریفی مضمر ہے وہ یہ کہ ، یہ خود ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے اپنا اقتدار بچانے کی خاطر احمدیو ں کو غیر مسلم قرار دے کر ہمیشہ کہ لیئے زندہ درگور کر دیا تھا۔ پھر شاید انہیں مکافاتِ عمل کے تحت خود پر کفر کا شک کیئے جانے کی تہمت اٹھانی پڑی۔
”ممتازشاعر“ کو یا کسی کو بھی یک طرفہ طور پر احمدی قرار دینے کے بعد ان سے خود کو مسلمان ثابت کرنے کامطالبہ بہت ہی عجیب ہے۔ وہ یوں کہ اسلامیانِ پاکستان کی فکر کو شدید تر بنانے والے شاعر ، علامہ اقبالؒ سے تو ایسا کوئی سوال نہیں کیا گیا۔ اقبالؒ نے تو باقاعدہ بیعتِ احمدیہ لی تھی۔ بعد میں وہ شاید غیر اعلانیہ طور اپنی بیعت سے منحرف ہو گئے تھے۔ ان پر ان کے ایک زمانے میں احمدی ہوتے ہوئے بھی کسی نے ان سے مذہب کے بارے میں نہیں پوچھا۔ نہ ان کے مبینہ انحراف کے بعد کسی نے اس کی تصدیق کا سوال نہیں اٹھاےا۔ ہاں ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ اسلامیانِ ہند کو شمشیر و سناں کے سبق دینے والے شاعر اقبالؒ کا، احمدی آج بھی دم بھرتے ہیں۔حالانکہ اقبال نے مبینہ طور پر منحرف ہونے کے بعد کہتے ہیں کہ احمدیوں کو سخت سست بھی کہا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم من حیث القوم چاہے ،ہم احمدی ہوں یا دیوبندی، یا وہابی، سب کے سب ایک منافقت کا شکار ہیں۔
نفسِ موضوع کی طرف رجوع کرتے ہوئے ہم صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ ہرزہ گو اور بدکلام جو بھی الزام تراشی ، بہتان طرازی کرتے ہیں، کرتے رہیں۔ اچھی شاعر ی سے اور اچھے شاعر سے کوئی بھی مسلک و مذہب کی بنیاد پر اجتناب نہیں کر سکتا۔ اگر کرے گا تو وہ صاحب عقل انسان نہیں ہے کوئی وحشی النسل ہے۔ اگر اس اجتناب کی رسم چلی ہوتی تو کیا آج کوئی جوش، میر انیس، میر تقی میر ، غالب، شیکسپیئر ، کیٹس ، ملٹن ، جون ایلیا کو نہیں پڑھ رہا ہوتا۔ کیونکہ میں ان میں کئی غیر مسلم بھی تھے اور عام مسلم مسلک سے مختلف بھی تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ انہیں کسی اجتناب کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اسی طرح سے آج ہمارے عزیز شاعرکو بھی ایسی فروعات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
بڑی شاعر تو خوشبو ، رنگ، اور بادِ صبا کی طرح پھیلتی ہے اور وسعت پذیر ہوتی جاتی ہے۔ اگر ہرزہ گو یہ سمجھ پاتا تو وہ ہر قسم کی بیہودہ گوئی سے توبہ کرتے ہوئے عزیز شاعر کے آہنگ کے سحر کے ارتعاش میں جھوم رہا ہوتا اور بے حال ہو رہا ہوتا۔ اور اگر مصرعہ کی سمجھ ہوتی تو کہتا کہ:حال یہ ہے کہ خواہشِ پرسشِ حال بھی نہیں۔
532