تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 606

محبت رسیدہ لوگ

احمد شاہ پطرس بخاری اردو ادب میں اپنی خوبصورت اور شائستہ تحریروں سے پہچانے جاتے ہیں۔ اسلوب میں ان کا مقام بہت اہم ہے۔ مزاح کے حوالے سے اردو ادب کی تمام کتابوں میں پطرس اپنی شگفتہ اور پُر مزاح تحریروں سے پہچانے جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ میں اپنی لیاقت، صلاحیت کی وجہ سے ایک نمایاں مقام کے حامل ہیں ان کو انگریزی دانی پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی ذوالفقار علی بخاری کا میڈیا میں بہت بڑا مقام ہے۔ وہ روزنامہ حریت کے اجراءکے وقت سے ہی اس میں اپنی آپ بیتی تحریر کرتے رہے۔ ریڈیو پاکستان کے معروف براڈ کاسٹر رہے وہ اپنی ذات میں براڈ کاسٹنگ کا ایک ادارہ تھے اس ادارے نے پاکستان میں بہت بڑے بڑے فنکار پیدا کرکے دیئے۔ چھوٹے بخاری نے بعد میں پاکستان میں ٹیلی ویژن کی بنیاد رکھی۔ یعنی پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا کے حوالے سے بابائے میڈیا بھی کہے جاتے ہیں۔
میر انیس کے مرثیوں کو ریڈیو، ٹی وی پر منفرد انداز میں تحت اللفظ ادائیگی کے باعث ان کا ثانی کوئی نہیں تھا مگر حضرت صبا اکبر آبادی کے تحت اللفظ مرثیوں کے گرویدہ تھے۔ علم، ادب اور فنون لطیفہ کے چاہنے والے کچھ طبقہ چھوٹے بخاری کو بڑے بخاری کی وجہ سے اہمیت دیتے، کچھ بڑے بخاری کو چھوٹے بخاری کی وجہ سے جانتے ہیں ہم تو دونوں بخاری صاحبان کو صحیح سمجھتے ہیں۔ ایک واقعہ اردو ادب میں اس حوالے سے بہت مشہور ہوا، نظموں کے مشہور شاعر کرنل مجید ان کے بے تکلف دوستوں میں تھے۔ اکثر ان میں چھیڑ چھاڑ ہوتی رہتی، ایک بار مجید امجد نے بڑے بخاری کو چھیڑا کہ اگر آپ اپنے مضامین کا مجموعہ چھپوائیں تو اس کا نام ”صحیح بخاری“ رکھیں۔ پطرس نے جواب میں کہا کہ میں آپ کو یہ رائے نہیں دوں گا کہ آپ اپنی نظموں کے مجموعہ کا نام ”کلام مجید“ رکھیں۔
پطرس بخاری اپنی شگفتہ تحریروں کی وجہ سے ہی نہیں اپنی شگفتہ شخصیت کی وجہ سے بہت پسند کئے جاتے تھے۔ وہ کتابوں میں محفوظ تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی میڈیا کی وجہ سے زیادہ لوگوں میں جانے جاتے تھے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک بار ایک محفل میں فیض احمد فیض اپنا کلام سنا رہے تھے تو ایک فرمائش آئی کہ مہدی حسن والی غزل سنا دیں جو ریڈیو، ٹی وی پر بہت مقبول ہے یعنی اس محفل میں فیض صاحب مہدی حسن کی غزل کی گائیکی کی وجہ سے پہنچانے گئے۔ بڑے بخاری کی خوش نصیبی یہ تھی کہ وہ میڈیا میں اپنے بھائی کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ مگر ہم تو دونوں بھائیوں کو ان کی الگ الگ حیثیتوں سے نہ صرف پہچانتے ہیں بلکہ دونوں بخاری برادران کے قدردان بھی ہیں کیونکہ ہمارے خانوادے کا تعلق میڈیا سے بھی ہے اور علم و ادب سے بھی ہے۔ اس وقت تو ہم بڑے بخاری یعنی احمد شاہ کی یادیں تازہ کریں گے۔ کیونکہ ہمیں ان کی ایک کتاب سے رہنمائی حاصل ہوئی ہے۔ اس کتاب اور رہنمائی کا ذکر تو بعد میں ہوگا۔ ان کا یک اور واقعہ یاد آیا۔
بڑے بخاری کے ایک دوست سالک کا ادب میں بہت اہم مقام تھا۔ سالک صاحب جس مکان میں رہتے تھے اس میں پانی کی قلت رہتی، وہ جگن ناتھ آزاد کو بتانے لگے کہ قلت تو بہت ہے مگر بخاری صاحب ہمارے گھر میں اپنی کار میں پانی کے کنٹینر بھر کے لادیتے ہیں ان کی وجہ سے کافی بہتری رہتی ہے اس ہی دوران بخاری صاحب اپنے ڈرائیور کے ساتھ پانی لے کر پہنچے تو سالک نے بخاری صاحب کو چھیڑا دیکھا جگن ناتھ تم نے دیکھا کہ اُردو کے اتنے بڑے ادیب اتنے بڑے افسر ہمارے سامنے پانی بھرتے ہیں۔ بخاری صاحب نے فوراً جواب دیا ”جگن ناتھ آزاد ذرا ان کی تہذیب دیکھ اس کے باوجود شرم سے پانی پانی نہیں ہوتے“۔ سالک کو اتنے بڑے ادیب سے پانی بھرواتے ہوئے شرم آئی ہو یا نہ آئی ہو ہم نے تو پطرس پر احسان کرنے کی کوشش کی۔
ہمارا ارادہ تھا کہ ہم جغرافیہ لکھ کر ٹورانٹو شہر سے اپنی وابستگی کا مظاہرہ کریں اس ہی دوران اپنی رہنمائی کے لئے کچھ کتابوں کی تلاش میں لگے رہے پھر ہمارے دوست سید زادے نے ایک کتاب دی ”لاہور کا جغرافیہ“ کا اس میں ایک مضمون ہمارے مطلب کا تھا، کتاب کا نام تھا ”پطرس کے مضامین“ اس کی دباچہ میں پطرس صاحب نے تحریر کیا کہ
یہ کتاب اگر آپ کو مفت ملی ہے تو مجھ پر احسان ہے کیونکہ یہ کتاب مفت میں ملی تھی اس لئے پطرس صاحب کا احسان تھا مگر آگے پطرس فرماتے ہیں کہ اگر آپ نے یہ کتاب کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی تعریف کروں گا اور اگر آپ نے اپنے پیسے خرچ کئے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔
نہ ہی ہم پطرس کے معیار کے مطابق باذوق ہیں نہ ہی ان کی ہمدردی کے مستحق کیونکہ اس کتاب سے ہمارے ذہن پر خوشگوار اثرات مرتب ہوئے اور ہمارے اگلے کالج کے لئے رہنمائی ملی۔ یعنی اس کتاب سے ہمارے دونوں مقاصد کی تکمیل ہوئی جس طرح پطرس کے ساتھ ہوا کہ ایک بار پطرس کے کسی عزیز کی شادی کا نکاح پڑھوانے کے لئے کسی قاضی کی ضرورت پڑی، بڑی تلاش کے بعد ایک دبلے پتلے سے مولوی صاحب ہاتھ آئے تو پطرس نے کہا کہ شادی میں نکاح کے بعد چھواروں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ان مولوی صاحب سے ہمارے دونوں مقاصد کی تکمیل ہو جاتی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بڑی بخاری صاحب کے تو دونوں مقاصد کی تو تکمیل ہوئی مگر ہمارے مقاصد بھی پورے ہوئے؟ ہم تو ٹورانٹو کے جغرافیہ کے بارے میں کالم لکھنے کے لئے کتابوں کی تلاش کرتے کرتے پطرس کے مضامین تک جا پہنچے، ہواں پر لاہور کے جغرافیہ سے فیض یاب ہوئے اور بڑے پطرس کا ذکرت کرتے کرتے چھوٹے پطرس کے تحت اللفظ تک جا پہنچے۔ وہاں تک پہنچتے پہنچتے ٹورانٹو کے جغرافیہ کی زمین کے لئے جگہ ختم ہو گئی اب ہمارے پاس دو طریقے تھے کہ دوسرے کی زمین پر ناجائز تجاوزات قائم کریں یا اس جغرافیہ کی زمین کا الگ سے بندوبست کریں۔ ہماری طبعیت ہمیشہ سے کسی کی حلقی تلفی کے خلاف رہی ہے۔ ناجائز تجاوزات کرنی تھیں تو پاکستان اور کراچی تو ہمارے لئے بہت تھے ان ہی گورکھ دھندوں سے بھاگ کر ہم ٹورانٹو کی راہ لی۔ اس کے ہم متحمل بھی نہیں ہو سکتے تھے اور ٹورانٹو والے اس کو برداشت بھی نہیں کریں گے اس لئے ٹورانٹو کا جغرافیہ بعد میں اب ان صحیح بخاری برادران کے ذکر پر ہی اکتفا کریں گے۔ ان کو اب ٹورانٹو والوں سے متعارف کروانے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
ملتے کہاں ہیں ایسے محبت رسیدہ لوگ
کرتے رہو ان کی زیارت کبھی کبھی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں