کل، اکیس اکتوبر کو گزشتہ چھ ہفتہ ہفتوں سے جاری انتخابی مہم اختتام کو پہنچی۔ جس کے غیر حتمی نتیجہ میں کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنی اکثریت گنوادی، اور اب انہیں ایک اقلیتی حکومت بنانا پڑے گی۔ یہ نہیں لگتا کہ وہ کسی اور سیاسی جماعت کے ساتھ مخلوط انتظامات کریں گے۔ اس نتیجے کے اشارے گزشتہ دو تین ہفتہ سے مل رہے تھے۔ ہر پیش گوئی پوری نہ ہوئی۔ ہاں یہ اہم بات ضروری ہوئی کہ ٹروڈو کی لبرل پارٹی , ایک سو ستاون نشستیں حاصل کرنے کے باوجود صرف، تینتیس اعشاریہ ایک فی صد ک±ل ووٹ حاصل کر سکی۔
کینیڈا کی قدامت کنزرویٹوپارٹی نے اپنے رہنما شییئر کی قیاد ت میں ایک سو اکیس نشستیں جیتیں، اور دوسرے نمبر پر رہی لیکن، اس نے چونتیس اعشاریہ چار فی صد ووٹ حاصل کیئے۔ کسی بھی جماعت کو اکثریتی حکومت بنانے کے لیے ایک سو ستّر نشستوں کی ضرورت تھی۔
تیسرے نمبر پر کینیڈا کے فرانسیسی نژاد، اور فرانسیسی گو، صوبہ کی جماعت بلاک کوبکوا نے بتیس نشتیں حاصل کیں۔ گزشتہ انتخابات میں اس کے پاس صرف دس نشستیں تھیں۔ اس نے اس بار اپنی نشستوں میں اضافہ لبرل اور، این ڈی پی پارٹی کی نشستیں چھین کر کیا۔ یہ ایک قوم پرست جماعت ہے، اور اپنے صوبہ میں صوبہ کی اقدار، اور زبان کے بارے میں سخت گیر ہے۔ یہ جماعت فرانسیسی سیکولر نظام کی پرچارک ہے۔ اس نظام میں ریاست اور مذہب میں مکمل علیحدگی ہوتی ہے، اور کوئی بھی مذہب کی بنیاد پر انتخاب جیتنے کی کوشش نہیں کر سکتا۔
حال ہی میں اس صوبہ نے اپنے علاقہ کے سرکاری ملازمین کو واضح مذہبی علامات استعمال کرنے سے روک دیا ہے۔ ان میں سکھوں کی پگڑی، حجاب، یہودی ٹوپی، اور واضح صلیبیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جب تک یہ کیینڈا کا حصہ ہے، وفاق کو صوبہ کی اقدار، اور زبان کی حمایت، اور کوبک کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کا پابند کرتا ہے۔ حال ہی میں اس صوبہ کے باشندو ں نے اپنے علاقہ سے تیل کی کسی بھی پائپ لائن گزرنے کی ممانعت کا اعلا ن کیا ہے۔
چوتھے نمبر پر کینیڈا میں بائیں کی جماعت این ڈی پی ہے۔ اس نے صرف چوبیس نشستیں حاصل کیں، اور تقریباً سولہ نشستیں گنوائیں۔ گزشتہ ہفتوں میں یہ غلغلہ تھا کہ شاید اس جماعت کو پہلے سے بھی زیادہ نشتیں ملیں گی۔ ایسا نہیں ہوا۔ اس نے سب سے زیادہ نشستیں کوبک میں گنوایئں۔ اس کی ایک اہم وجہ تو اس جماعت کا مالی طور پر کمزور ہونا ہے، پھر اس کی ممکنہ ٹیکس پالیسیوں کی مخالفت میں بھی ووٹ پڑے۔ یہ امیر ترین افراد اور کاروباروں پر ٹیکس کی بڑھوتی کی حامی تھی۔
کینیڈا فطرتاً ایک سرمایہ دار اور مادہ پرست ملک ہے، اور یہاں کے عوام کی اکثریت ٹیکسوں میں اضافہ کے خلاف ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے کوبک میں مذہبی علامتوں کی حمایت کرکے، اور بااالخصوص مسلم خواتین کے حجاب کی حمایت کرکے نہ صرف کوبک میں اپنی حمایت کھوئی، بلکہ خود اپنی جماعت کے سیکولر عناصر کو بھی نالاں کیا۔ یہاں یہ بتانا ضرور ی ہے کہ یہ جماعت سب سے زیادہ عوام دوست ، مزدور دوست، اور پسماندہ طبقات کی حمایتی ہے۔اس کے سر پر کینیڈا کے مثالی نظامِ صحت کے قیام کا بھی سہرا ہے۔ اس سب کے باوجود مذہبی عناصر باالخصوص مسلمان اس کو ووٹ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ عناصر باقاعدگی سے قدامت پرستوں کی حمایت کرتے ہیں۔
پانچویں نمبر پر کینیڈا کی ، گرین پارٹی ہے، جس نے اپنی نشستیں ایک سے بڑھا کر تین کردی ہیں ، اور عوامی ووٹ بھی زیادہ تعداد میں حاصل کیئے۔ یہ حکومت پر زیادہ اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ لیکن اقلیتی حکومت کو ماحول کی حفاظت کے لیئے مجبور کر سکتی ہے۔ کینیڈا کی نئی ترین جماعت پیپلز پارٹی بری طرح سے شکست کھا گئی، اور خود اس کے بانی اور رہنما، مکسیم برنیئر، نے اپنی روایتی نشست بھی گنوا دی۔ یہ انتہائی قدامت پرست اقدار کا چرچا کرتی۔ اس پر نسل پرستی، اور امیگریشن مخالفت کے الزامات کا سامنا تھا۔ شاید کینیڈا کے عوام نے یہ جتایا کہ ہم مکمل نسل پرست نہیں ہیں، اور نہ ہی انتہائی قدامت پرستی پر یقین کرتے ہیں۔
ان انتخابات میں اس حقیقت کا اعادہ ہوا ہے کہ کینیڈا جو دس صوبوں اور تین علاقوں کا مثالی وفاق ہے، صوبائی تعصبات کا شکار ہے۔ ا ن انتخابات میں لبرل جماعت ، اٹلانٹک صوبہ جات (نیو فِن لینڈ،نیو برنزوک ،پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ ، اور نووا سکوشیا ا)جن کی ک±ل آبادی دو اعشاریہ تین ملین ہے، جو کینیڈا کی ک±ل آبادی کا صرف چھ فی صد ہے ، اور اونٹاریو اور برٹش کولمبیا میں قدم جما پائی ہے۔ ۔ باقی صوبے اس کے عمومی مخالف ہیں۔ لبرل پارٹی کا سب سے بڑا مخالف صوبہ البرٹا ہے، جہاں تیل کی بڑی پیداوار ہوتی ہے۔
لبرل پارٹی کو اس منقسم ملک میں نہایت مہارت سے حکومت کرنا ہوگی۔ یہاں یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ لبرل پارٹی نے اپنی اکثریت کیوں گنوائی۔ ہمارے خیال میں وزیرِ اعظم نے کینیڈا کے اولین باشندوں سے وعدے پور ے نہیں کیئے۔ صوبہ کوبک کی ایک بدعنوا ن کمپنی کی انتہائی حمایت کی۔ بھارت کے دورے پر بھارتی لباس پہن کر عوامی مقبولیت کی کوشش کی۔ بھارت کے ایک سرکاری دورے میں ان کے ساتھ سکھ شدت پرستوں کو دیکھا گیا۔ کوبک سے وعدے پورے نہیں کیے۔ ان کی بعض ایسی تصاویر منطرِ عام پر آئیں جنہیں انتہائی نسل پرست کہا جاسکتا تھا۔ وہ صوبہ کوبک کے سیکولر قانون کی مخالف کرتے رہے۔ مغربی صوبوں کو تیل کی پیداوار کے بارے میں متنازعہ پالیسیاں پیش کیں۔ یہ عوامل ان کے اچھے کاموں کو پیچھے کر گئے۔ پھر بھی عوام نے انہیں ایک موقع اور دیا ہے۔ یہی جمہوری فیصلہ ہے۔
