اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ جب ایک خطبہ کے دوران کسی اعرابی نے خلیفہ دوئم حضرت عمر بن خطابؓ سے سوال پوچھا کہ امیر المومنین بیت المال سے ہمیں ایک چادر ملی ہے اور آپؓ کے پاس دو چادریں ہیں، دوسری چادر کہاں سے آئی ہے؟ تو اس اعرابی کے سوال کو آپؓ نے بڑی خندہ پیشانی سے سنا اور جواب دیا کہ دوسری چادر میرے بیٹے کو ملی تھی اور اس نے مجھے دی ہے جس پر تمام اہل محفل مطمئن ہو گئے اور آپؓ کی خلیفہ ہونے کے باوجود اس بات کو بُرا نہ منانا تاریخ کا حصہ بن گیا۔
دوسرے واقعہ میں ایک جنگ کے دوران جب حضرت علیؓ پر دشمن نے تھوک دیا (معاذ اللہ) تو آپؓ اس کی چھاتی پر بیٹھے ہوئے تھے اور قریب تھا کہ اس کی گردن اڑا دیتے لیکن آپؓ نے کہا کہ اس نے یہ حرکت کرکے میری انا کو ٹھیس پہنچائی ہے اس لئے میں اس کو معاف کرتا ہوں کہ اب اگر میں اس کی گردن اڑا دیتا تو وہ اللہ کی رضا کے لئے نہ ہوتی بلکہ ذاتی رنجش کے نتیجہ میں ہوتا۔
خلفائے راشدین کے یہ دونوں واقعات ہر شخص کے علم میں ہیں۔ جس سے ان کی صفات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ ہر کام اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھتے تھے نہ کہ ذاتی رنجش اور غصہ۔ اس کی تازہ مثال مملکت خدادا کے وزیر اعظم عمران خان نے کل ہی قائم کی ہے جب وہ کرونا وائرس اور اس کے نتیجے میں ہونے والے معاشی اثرات پر صحافیوں کو بریفنگ دے رہے تھے اس میں تقریباً بارہ سو ارب روپے کا معاشی پیکیج کا اعلان کیا گیا جس کا فائدہ عام آدمی سے لے کر کاروباری حضرات تک کو پہنچایا گیا ہے۔ پاکستان کے معروضی معاشی حالات کے پیش نظر یہ پیکیج بڑا حوصلہ افزا ہے لیکن یہ پہلے قدم کے طور پر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کرونا وائرس کے حوالے سے بریفنگ دی گئی اس سلسلے میں ہونے والے اقدامات کی تفصیلات سے قوم کو براہ راست نشریات سے آگاہ کیا جارہا تھا۔ اس بریفنگ میں مشیر خزانہ، وزیر خوراک، این ڈی ایم اے کے چیئرمین، مشیر صحت، وزیر اطلاعات اور دوسرے متعلقہ حکام موجود تھے۔ بریفنگ کا سلسلہ ختم ہوا تو صحافیوں نے سوالات کرنے شروع کر دیئے جس کے جوابات وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کے لوگ بڑی تحمل مزاجی کے ساتھ دے رہے تھے اور اب تک ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کررہے تھے جو کہ ان کی ڈیوٹی ہے۔ آزادی صحافت کا عملی مظاہرہ اس بریفنگ میں دیکھنے کو ملا جب رﺅف کلاسرا نے سوال کیا اور کہا کہ ہمیں سخت سوال کرنے پر ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور پھر غیر ضروری طور پر میر شکیل الرحمن کی گرفتاری پر بات کرنی چاہی جو کہ موضوع سے ہٹ کر تھی۔ اسی دوران صحافی نے وزیر اعظم عمران خان سے بے تکے سوالات شروع کر دیئے جو کہ ہم دیکھنے والوں کے بلڈ پریشر کو بڑھا رہے تھے۔ ایسے لگ رہا تھا کہ وزیر اعظم نہ ہو کوئی بہت کم مرتبہ والا بندہ ان کے سامنے بیٹھا ہے اور وہ اسے گِرل کررہے ہیں۔ تاثر یہ جارہا تھا کہ یہ عقل کل ہیں اور وزیر اعظم کی پوری ٹیم بے خبر اور بے وقوف ہے۔ ان کے آزادی صحافت کو پامال کرتے ہوئے سوالات جاری تھے کہ اسی دوران ارشاد بھٹی نے مداخلت کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں ایک مرتبہ پھر شکیل الرحمن کا ذکر شروع کردیا جس پر وزیر اعظم نے کہا کہ اگر آپ نے موضوع سے ہٹ کر میڈیا پر بات کرنی ہے تو پھر یہ بریفنک یہیں ختم کردیتے ہیں۔ ان سب کے سوالات انتہائی جارحانہ اور صحافتی اصولوں کے خلاف تھے ان کا لہجہ انتہائی بدتمیزی اور بدتہذیبی سے بھرپور تھا۔ جس کا وزیر اعظم نے بڑے تحمل مزاجی سے جواب دیا۔ ایسے معلوم ہو رہا تھا کہ عمران خان کسی تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہیں۔ ماحول میں اس وقت شدید تناﺅ پیدا ہو گیا جب محمد مالک نے انتہائی بے شرمی، بے غیرتی اور بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم سے کہا کہ دو ماہ بعد اگر معاشی حالات اس طرح نہ ہوئے تو میں کس کا گریبان پکڑوں آپ کا یا رضا باقر ”گورنر اسٹیٹ بینک“ کا؟ اتنے ذاتی حملے کے بعد بھی وزیر اعظم نے ذرّہ برابر بھی غصّہ اور جذبات کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے مکمل جواب دیا۔ اس ذاتی حملہ کے بعد پوری دُنیا میں عمران خان کے چاہنے والوں میں غم و غصّہ کی لہر دوڑ گئی اور پھر محمد مالک کو سوشل میڈیا پر ایسی ایسی مغلظات کا سامنا ہے کہ اس کو چھٹی کا دودھ یاد آگیا۔
وزیر اعظم نے حاکم وقت ہونے کے باوجود اس ذاتی نوعیت کے شدید سوال پر صبر کیا جس پر پوری دنیا ان کو سراہ رہی ہے اور مالک کو گالیاں دے رہی ہے۔ شاباش عمران خان آج تم نے جو کیا اور اپنی تقریروں میں حضرت عمرؓ کا حوالہ دیا اس کا عملاً مظاہرہ کرکے دکھا دیا۔ آج نام نہاد صحافیوں کی صفوں میں ماتم ہو رہا ہے کہ عمران خان کسی بھی طرح ان کے ہاتھ نہیں لگ رہا اور جاہل مطلق صحافیوں تمہیں ابھی تک یہ پتہ نہیں چلا کہ عمران خان کے ساتھ اللہ کی نصرت و حمایت شامل ہے اس کے علاوہ پاکستان کے عوام کی طاقت و حمایت بھی شامل ہے۔ اسی لئے عمران خان ہر محاذ پر کامیابیاں حاصل کررہا ہے کیوں کہ وہ ایک انتہائی محنتی اور دیانتدار شخص ہے۔ اس کا خواب ہے کہ پاکستان ایک عظیم ملک بنے اور اس کے غریب عوام کو غربت سے نکال کر اچھی زندگی دی جائے۔
موجودہ حکومت غریب نواز ہے۔ ہر شعبہ کو جدید تقاضوں کے مطابق آہنگ کررہی ہے۔ چالیس سال سے تباہ شدہ معاشی اور اندرونی ڈھانچہ کو دوبارہ تعمیر کیا جارہا ہے جس کو جان بوجھ کر سابقہ حکمرانوں نے آگے بڑھنے نہیں دیا اور عوام کو صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا گیا۔ قوم کو شعور نہیں دیا گیا، جدید سائنس و ٹیکنالوجی سے بے بہرہ رکھا گیا۔ آج پاکستان ساﺅتھ ایشیا میں ہر اعتبار سے پسماندہ ملک ہے۔
آئیے اب کچھ ذکر ”محمد مالک“ کا کرتے ہیں اس نام نہاد صحافی نے انگریزی اخبار دی نیوز، دی مسلم اور ایم ڈی پی ٹی وی رہا اور اب ”ہم ٹی وی“ کے ہیڈ کے طور پر کام کررہا ہے۔ موصوف نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، شاہد خاقان عباسی اور آصف زرداری کے ادوار میں ایکٹو صحافت میں رہا ہے۔ اس سے پوچھا جائے کہ اس نے پچھلے وزرائے اعظم سے ان کے گریبان پکڑنے کا سوال کتنی بار کیا ہے؟ یقیناً نہیں کیا۔ کیوں کہ انہوں نے سوالات شروع کرنے سے پہلے ہی ان کی جیبیں گرم کر دی ہوتی تھیں اور ان بے ضمیر نام نہاد صحافیوں کو جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ ان سے ایسے سوالات اور انتہائی بدتمیزانہ لہجے میں کریں۔ میڈیا کی بے لگام آزادی نے ان کو اتنا اندھا کر دیا ہے کہ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سپریم کورٹ سے نا اہل اور سزا یافتہ نواز شریف، سپریم کورٹ سے نا اہل یوسف رضا گیلانی اور کرپشن کا بادشاہ آصف زرداری اور سپریم کورٹ سے سند یافتہ صادق اور امین عمران خان میں کیا فرق ہے؟ ان کے دماغ اور اعصاب مفلوج ہو چکے ہیں۔ ان کی حرام کی کمائیاں بند ہو چکی ہیں۔ ان کی حکومتی اداروں میں فون کرکے اپنے من مرضی کے کام کروانے میں رکاوٹیں آچکی ہیں۔ یہ بے وقعت ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں جنرل، جج، سیاست دان، بیوروکریٹ، بزنس مین اور پراپرٹی ڈویلپرز کا احتساب تو ہوتا رہتا ہے لیکن ان صحافتی حلقوں میں کالی بھیڑوں کو کوئی حکومت نہیں ہاتھ ڈالتی۔ سمجھ سے بالا ہے کہ عمران خان جیسا بے داغ اور نڈر شخص بھی ابھی تک ان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے سے قاصر ہے۔
میں بطور ایک ادنہ صحافی ہونے کے عمران خان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ خصوص بالخصوص پچھلے تیس سال میں پلانٹ کئے گئے صحافیوں کا احتساب کیا جائے، ان کے اثاچہ جات کو چیک کیا جائے، اور میں سو فیصد یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ان میں سے بہت بڑی تعداد ناجائز ذرائع سے حاصل ہونے والی کرپشن کے نتیجے میں امیر ہوئے ہیں۔ ان کے میڈیا مالکان کو بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، جن کا ریکارڈ ہے کہ وہ حکومتوں کو بلیک میل کرکے اربوں روپے کے اشتہارات اور نیوز پرنٹ کے ناجائز کوٹے لے کر اوپن مارکیٹ میں بلیک کرنے میں ملوث رہے ہیں اور ان کے گاڈ فادر میر شکیل الرحمن کو صحیح معنوں میں احتساب کے عمل سے گزارا جائے۔ شکیل الرحمن مافیا ڈان نہ کہ صحافی ہے اس کے لگائے ہوئے تمام پودے جوان تناور درخت بن چکے ہیں۔ سب کی چیخیں نکل رہی ہیں ایک مضحکہ خیز بیان میں شہباز شریف نے کہا ہے کہ اگر کرونا پر قابو پانا ہے تو شکیل الرحمن کو فوری رہا کردیا جائے۔ شہباز شریف بتائے کہ کیا شکیل الرحمن کسی ویکسین کا نام ہے کہ جس کے لگانے سے مریض ٹھیک ہو جائے گا۔ کرپٹ سیاست دان اور صحافی بے بس ہو چکے ہیں۔ لیکن ان کو کیفر کردار تک پہنچانا بھی باقی ہے۔
