پاکستان میں روز اول سے ہی عوام کو مختلف درجات میں بانٹ دیا گیا، کہیں فوجی افسران اور بلڈی سویلین کے فرق نے ہمارے فوجی افسران کو اس بخار میں مبتلا کردیا کہ وہ کوئی آسمانی مخلوق ہیں اور برسوں پیدا کیا گیا یہ فرق آج تک اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ دوسرا فرق عوام اور حکمراں طبقہ کے درمیان پیدا ہوا اور عوام کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہ سمجھنے والے یہ جاہل سیاستدان، ممبران سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلی یا پھر بیوروکریٹ عوام کو آج تک جوتے کی نوک پر رکھتے آئے ہیں۔ یہی گھمنڈ اور تکبر ہے کہ جو ہمارے حکمرانوں کے ذہنوں میں مضبوطی اختیار کر چکا ہے کہ وہ جو چاہیں کرلیں۔ پاکستان کی عدالتیں اور پاکستان کا قانون ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ اس کی تازہ مثال اسلام آباد میں ہونے والا وہ حادثہ ہے جس کے نتیجہ میں ملازمت کا ٹیسٹ دینے کے لئے آنے والے چار نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کا قصور کیا تھا؟ یہی نہ کہ وہ گرین بتی پر بلا خوف خطر کراس کررہے تھے، انہیں کیا معلوم تھا کہ اسمبلیوں میں قانون بنانے والوں کے نزدیک قانون ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ پولیس اور تھانے ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں اور ملکی عدالتوں میں جج صاحبان طاقت کا توازن دیکھ کر فیصلہ صادر فرماتے ہیں۔ جبھی تو چاروں نوجوانوں کو طاقت کے زوم میں لال بتی توڑتے ہوئے کچلنے والا نوجوان جو کہ کشمالہ طارق کا بیٹا ہے صرف 50 ہزار کی ضمانت پر رہا ہو کر فرار ہوگیا اور اب لاپتہ ہے یعنی اسمبلیوں میں بیٹھے قانون پاس کروانے والوں کی اولادیں خود قانون کی پاسداری سے نابلد ہیں گویا کہ پورا ملک اور یہاں کا قانون اور یہاں کے ادارے ان کے گھر کی لونڈی ہیں۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو اس میں صداقت ہی نظر آئے گی کیونکہ اگر قانون کا عمل دخل ہوتا تو پھر ایک غریب پولیس والے کو موٹر وے پر ایک ایم پی اے نشہ کی حالت میں اپنی اعلیٰ نسل کی گاڑی میں روندتا ہوا نہ گزر جاتا اور پھر عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد فتح کا نشان بناتے ہوئے نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے میڈیا پر تصوریں شائع نہ کرواتا۔ ہاں اگر قانون کی پاسداری ہوتی تو ننھی زینب کیعزت تار تار کرکے اسے کوڑے کے ڈھیر پر پھینکنے والا اور پھر اس کے والد کی پریس کانفرنس میں صوبہ کا وزیر اعلیٰ اس کا مائیک بند نہ کر دیتا، نہ ہی گوجرانوالہ جانے والی خاتون کو سر راہ بے عزت کیا جاتا اور ہمارے پولیس کے اعلیٰ حکام اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے خاتون پر تنقید کرتے دکھائی نہ دیتے کہ اکیلی عورت نے رات کے وقت سفر کرنے کی غلطی کیوں کی؟ ہمارے عدالتوں میں بیٹھے جج صاحبان وہی تو ہیں جو شام کی کلاسز میں گریجویشن کے بعد قانون کی ڈگری پاس کر لیتے ہیں اور پھر جھوٹ کی دن رات پریکٹس کرنے کے بعد سفارش کے ذریعہ عدالتوں کے جج بن بیٹھتے ہیں۔ یوں ہماری عدالتوں کے تقدسکو ان سفارشی ٹٹوﺅں نے ملیا میٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ رنگیلے جج صاحبان حکمرانوں کی ڈگڈگی پر ناچتے رہتے ہیں اور یقیناً ان جج صاحبان میں اور ان طوائفوں میں کوئی فرق نہیں جو ہر شب کو اپنے جسم کی بولی لگاتی دکھائی دیتی ہیں۔ رہا سوال ہمارے حکمرانوں کا تو جہاں کھلے عام اسمبلیوں میں گالم گلوچ ہو رہی ہو۔ اخلاق سے گری حرکتیں ہر روز کا معمول ہوں، اسمبلیاں مچھلی بازار ہوں اور یہاں بیٹھے ممبران کی اوقات مچھروں سے زیادہ نہ ہو، وہ کیا اس ملک کی تقدیر بدلیں گے؟ یہاں تو احتساب کے نام پر انتقام کی عدالت بہت پرانی ہے مگر ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی یہ خوبصورتی ہے کہ یہاں ہر شہ کچھ عرصہ بعد اپنی شکل بدل کر دوبارہ عوام کے سروں پر مسلط ہو جاتی ہے یا کردی جاتی ہے اور عوام ہر معاملہ کو ایک فن کے طور پر لے کر اور کمبل اوڑھ کر سو جاتی ہے۔ نہ ان کی زندگی میں نئی صبح ہوتی ہے اور نہ ہی رات کا اندھیرا ان کی جان چھوڑتا ہے۔ فیض احمد فیض نے تاریخی کلمات کہتے تھے کہ ”مجھے ڈر ہے کہ پاکستان کہیںیوں ہی نہ چلتا رہے“ تو کاش فیض احمد فیض لوٹ آئیں اور دیکھیں کہ ان کا تجزیہ کتنا درست تھا؟
