اب سے کچھ روز پہلے کراچی میں فنونِ لطیفہ کا دوسرا بڑا عالمی میلہ لگا۔ یہ کئی میلہ گاہوں میں پھیلا ہوا تھا جس میں کراچی کا معروف فریئر ہال اور باغِ قاسم جیسے عوامی مقامات شامل تھے۔ اس میلے کا کئی ماہ سے چرچا تھا، جس میں دنیا بھر کے مصور اور فن کاروں نے شرکت کی۔ اس میلے میں فن کاروں کے شہپارے اور فن کے مختلف نمونے پیش کیئے گئے تھے۔ میلے کے منتظمین نے اس نصب العین کا دعویٰ کیا تھا کہ وہ فنکاروں، فن پاروں، اور عوام کو قریب کرنا چاہتے ہی، عوام تک فن کی رسائی کو آسان بنانا چاہتے ہیں، اور آزادی اظہار عام کرنا چاہتے ہیں۔
فریئر ہال والی نمائش گاہ کے باہر ایک خطہ پر پاکستان کی معروف فن کارہ اور فنونِ لطیفہ کی استاد، ’ عدیلہ سلیمان‘ نے اک فن پارہ سجایا تھا جس میں چار سو چالیس سنگ، مزار ایستادہ تھے اور مزاروں کی لوحوں پر دھات کے مرجھائے ہو ئے پھول لگے تھے۔ وہ اس فن پارہ کے ذریعہ ایک شقی القلب پولس افسر راﺅ انور کے ظلم یاد کروانا چاہتی تھیں ، جس کے بارے میں ایک پولس انکوائیری نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اس افسر نے کم از کم چار سو چالیس مظلوموں کا یا ملزمین کا قتل کیا تھا۔ ایک سینیر پولس افسر نے تو رازداری میں یہ بھی کہا کہ راﺅ انور، قتل کی ایک مشین یا Killing Machine تھا۔ یہ بھی قیاس آرائی کی گئی کہ اسے پاکستان کے خفیہ اداروں کی پشت پناہی حاصل تھی۔
اس کے خلاف ایک شکایت سپریم کورٹ میں بھی کی گئی ، جہاں عدالت کے بار بار طلب کیئے جانے کے باجود، وہ حاضر نہ ہو کر توہینِ عدالت کا مرتکب ہوتا رہا۔ اس دوران اس پر ملک سے باہر جانے پر پابندی لگی ، لیکن اس نے عدالت اور قانون کو منہ چڑاتے ہوئے پاکستان سے فرار ہونے کی بھی کوشش کی۔
اس کے ظلم کا پردہ جب فاش ہوا جب اسے نے ایک خوبصورت پشتون نڑاد نوجوان، نقیب اللہ محسود ، کو ایک جھوٹے الزام میں گرفتار کر کے ایک ویران جگہ پر غیر قانونی طور پر قتل کردیا۔ ظالم انور راﺅ کا یہ گناہ بھی چھپ جاتا لیکن مرحوم نقیب اللہ کے والد، محمد خان، تمام تر مشکلات کے باوجود انصاف طلب کرتے رہے اورعدالتوں کی گھنٹیاں بجاتے رہے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور راﺅ انور کا مقدمہ لاکھوں مقدما ت کی طرح مکمل نہیں ہوا۔ عمران خان کے نئے پاکستان میں بھی نہیں۔
بہت ممکن تھا کہ نقیب اللہ کے ساتھ ان چار سو چالیس مظلوموں کی کہانی بھی اسی طرح فراموش کر دی جاتی جیسے کراچی اور پاکستان میں لاکھوں ماروائے عدالت قتل کی کہانیاں بھلا دی گئی ہیں۔لیکن پاکستانی فنکارہ عدیلہ سلیمان نے اس ظلم کی یاد تازہ رکھنے لیئے ، فن کے اس عالمی میلے میں،ان مظلوموں کی یاد میں چار سو چالیس علامتی قبریں پیش کر دیں، تاکہ عوام اس ظلم کی نشانیا ں کھلے عام دیکھ سکھیں ، اور ان مظلوموں کو یاد رکھیں جن اپنا کوئی سنگ ِ مزار تک نہیں ہے۔ اس موقع پر انہوں نے نقیب اللہ کے والد کو کردار بنا کر ایک مختصر خاموش فلم بھی پیش کی جو صرف خاموش اور غمگین نگاہوں سے سمند ر کو تکتے ہوئے دور افق اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے انصاف کے منتظر ہیں۔
ابھی اس نمائش کو شروع ہوئے دو گھنٹے بھی نہیں ہو ئے تھے کہ ساد ہ لباس میں چند افراد نے آکر منتظمین سے کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی پانچویں کور کے افسروں کے حکم پر آئے ہیں کہ فلم کی نمائش روکی جائے اور قبروں کی نمائش بند کی جائے۔ جب عدیلہ سلمان نے یہ بات ماننے سے انکار کیا تو ان کی فلم کو جبری طور پر بند کروایا گیا اور دون دن کے اندر سب قبروں کی نشانیا ں بھی مسمار کردی گئیں۔ اس پر ظلم یہ کی نمائش بھی کہ، نمائش کی انتظامیہ نے کھلم کھلا اپنی فن کار سے بے اعتنائی دکھاتے ہوئے ان سے تعلق توڑلیا۔
اس پر انسانی حقوق کے معروف عمل پرست جبران ناصر اور دیگر حق دوستو ں نے سخت احتجاج شروع کر دیا۔ جبران ناصر کی اس ضمن مین ایک تقریر کا ویڈیو بھی سرعت سے پھیلا۔ اس احتجاج کے بعد نمائش کے اہم منتظم، ذی شان نے اعترا ف کیا کہ یہ فن پارہ ان کا منتخب کردہ تھا اور اسے انتظامیہ کی تایئد حاصل تھی۔ اس سارے قضیہ اور ہاہا کار کے نتیجہ میں دنیا بھر میں یہ بات پھیل گئی کہ پاکستان میں فن او ر فن کار زیرِ عتاب اور پابندی ہیں۔اور پاکستان میں اظہار کی پابندی قطعی طور پر معتوب ہے۔ اور اس ضمن میں سرکار کا یہ اصرار کہ پاکستان میں فن، فنکار، اور میڈیا آزاد ہے کھلا جھوٹ ہے۔ ایک طرف تو پاکستان میں اعلیٰ فن کو اس طرح سے دبایا جارہا تھا وہیں اطلاعت عامہ کے فوجی ادارے کی سرپرستی میں ’کاف کنگنا ‘ نام کی فلم جاری کی گئی جو باکس آفس پر فیل ہو گئی۔ جس میں ایک پاکستانی اداکارہ انتہائی لچر بولوں پر مبنی ایک گانے پر رقص کر رہی ہیں، جو اس طرح سے ہیں ِ: ”خوابوں میں جب میں پاکستان گئی رے۔ انڈیا میںبولے ساڈی جان گئی رے۔۔ لڑکی بھٹندے کی جوان گئی رے۔۔ پہلی جو رات تھی لاہور میںرہی۔۔منڈے لاہور یم جھےروکروککے۔کرتے تھے پیار چھاتی ٹھوک ٹھوک کے۔۔اک تو کمینہ مجھے گھر لے گیا۔۔گھر میں گئی تو وہاں کوئی نہیں تھا۔۔ باتوں میں آکے بات مان گئی رے۔۔“ جب اس بات پر اعتراض اٹھا کہ پاکستانی فوجی ادارہ ایسی فلمیں کیوں بنار رہا ہے تو ادارے کے ڈائرکٹر جنرل نے بس یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یہ گانا تو فلم کے کردار کے مطابق تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ ایک طرف تو فوجی ادارے ایسی ناکام فلموں کی سرپرستی کر رہے ہیں ، دوسری جانب ان کے مبینہ احکامات پر فن پارے اجاڑے جارہے ہیں اور سنجیدہ فلموں کی نمائش کو روکا جارہے۔ اب عدیلہ سلمان کی چار سو علامتی قبروں میں آپ فن اور آزادی اظہار کی قبر بھی شامل کر دیں۔
