اس تحریر کی تحریک ہمیں ایک عزیز دوست ’ڈاکٹر خالد سہیل ‘ سے آج صبح مزاج پرسی کے دوران ہوئی۔ وہ درویشِ خدا مست شاید ہوں یا نہ ہوں، ایک انسان دوست درویش تو ضرور ہیں۔ آپ ان کی مسکراتی ہوئی تصویر دیکھیں گے تو ان کی دراز زلفوں اور گھنی ریش کو دیکھ کر ہی ان کے قائل ہو جایئں گے۔ قیل و قال سے پہلے ہی۔ ایں سعادت بذورِ بازو نیست ۔ مزاج پرسی کے دوران بات نکلی تو ہم نے ان سے کہا کہ اس کورونا دور میں آپ کی زلفیں اور دراز ہونے سے اور داڑھی بڑھنے سے آپ کا تو رعب اور بھی زیادہ بڑھے گا۔خدا کے ہم جیسے سادہ دل بندے اور بندیاں کہاں جایئں ،کہ جنہیں آج کل نہ تو حجام دستیاب ہیں اور نہ کوئی مشاطہ۔ اس پر بہت زور سے ہنسے اور کہا کہ چلیں آج اسی موضوع پر کچھ لکھ دیں۔اس پر یہ بھی یاد آیا کہ ’کورونا ‘ کے ایک معنی ایک نورانی حلقہ کے بھی ہیںجو سورج اور چاند کو ہالہ میں لیے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سہیل کی تصویر میں بھی ایک ایسا ہی ہالہ، ان کے نیاز مندوں کو نظر آتا ہوگا۔
ہماری روایتوں میں زلفیں اور داڑھی بڑھانا، سادھوﺅں اور صوفی سنتوں کا شیوہ رہا ہے۔ لیکن علامہ اقبال نے تو اس روایت کو توڑتے ہوئے کہا کہ، ’بیا بمجلسِ اقبال یک دو ساغر کش۔۔اگر چہ سر نہ تراشد قلندری دانَد۔ (تو آ کے بزم میں اقبال کی ہو ساغر نوش۔۔ وہ سر کو ،گو نہ تراشے ، قلندری جانے)۔۔ یعنی کہ چند لمحہ کو اقبال کی محفل میں شراب کے ایک دو گھونٹ لے۔ وہ صوفیوں کی طرح پٹّے تو نہیں تراشتا لیکن قلندری کے رازتو جانتا ہے۔۔ جس غزل کا یہ مقطع ہے وہ پیامِ مشرق میں ہے اور اس میں اس موضوع پر اور بھی بہت کچھ ہے۔ کچھ یہاں پیش کرتے ہیں۔۔ اتفاق سے علامہ کی فارسی کتاب، پیامِ مشرق، کا مکمل منظوم ترجمہ روحِ مشرق کے عنوان سے شایع ہوا ہے جو عبدالرحمان طارق نے کیا ہے اور اب سے تقریباً ستّر سال پہلے منظرِ عام پر آیا تھا۔
اس غزل میں درویشی اور قلندری پر بہت فکر انگیز باتیں کی گئی ہیں۔ یہ کیا ضرور ہے جو پیشِ بت کرے سجدہ۔۔صنم پرستی و آدابِ کافری جانے۔۔ یعنی ضروری نہیں ہے کہ آپ لاکھ سجدہ گزار ہوں، آپ کو بندگی کے اصول و شرائط کا بھی علم کوہو۔۔ جہانِ عشق نہ میری نہ سروری جانے۔ یہی بہت ہے کہ آدابِ چاکری جانے۔۔۔ عالمِ عشق کو مسخر کرنے کے کے لیئے سردار یا بادشاہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ ضروری یہ ہے کہ آپ کو معشوق کی خدمت کے ڈھنگ آتے ہوں۔ آگے کہا ہے کہ، نگاہِ عشق میں ممتاز ہے سکندر سے۔۔ وہ ایک گد ا جو مالِ سکندر جانے۔۔۔ یعنی عالم ِ عشق میں وہ فقیر یا مسکین کہیں زیادہ مقبول و ممتاز ہے، جو سکندرِ اعظم کے انجام سے واقف ہو اور اس سے سبق لے۔ اسی بات کو میر تقی میر نے یوں بتایا کہ، ”اتنے منعم جہان میں گزرے۔وقت رحلت کے، کِس کَنے زر تھا۔۔۔صاحبِ جاہ و شوکت و اقبال۔۔اک ازاں جملہ اب سکندر تھا۔۔لعل ویاقوت ، ہم زرو گوہر،۔۔چاہیئے جس قدر میسر تھا۔۔۔ آخرِ کار جب جہاں سے گیا۔۔ ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا۔۔۔خوش رہا جب تلک رہا جیتا۔۔۔ میر معلوم ہے قلندر تھا۔
اقبال نے تو اس موضوع پر جانے کیا کیا لکھا ہے اور زندیق و ملّا کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ کہتے ہیں۔۔احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسّر، تاویل سے قرآں کو بناسکتے ہیں پازند۔۔۔ درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی۔۔ ملک اس کا نہ دلّی نہ بخارا ، نہ سمرقند۔۔۔ چپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبال۔۔ کرتا کوئی اس بندہگستاخ کا منہ بند۔
اس تحریر کا بنیادی مقصد آج کل کے پراگندہ حالات میں ان کو بھی مخاطب کرناہے کہ جو روز چلتی ہوئی ہوا میں اہلِ تصوف یا اہلِ طریقت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یا جو رومی اور اقبال کو قوالی اور حال کی نذر کرنے کے بعد، رقصِ رومی کو درویشی کی صفت جان کر رقص کرتے ہوئے شاید مشرف بہ اسلام ہو جاتے ہوں گے۔ یہ کتنا مشکل کام ہے، اس کے لیئے صرف مثنوی پر سر دھننے سے یا کشف المحجوب کو طاق پر سجانے سے کام نہیں چلتے۔ اس کے لیئے بڑا جگِرا چاہیے۔
ہم نے اب سے پہلے میر کی بات کی تھی، سو ان کا ایک اور شعر سنیے: میر کے دین و مذہب کی تم پوچھے کیا ہو ان نے تو۔ قشقہ کھینچا ،دَیر میں بیٹھا ، کب کا ترک اسلام کیا۔۔ جب ہمارے احباب میر جیسی بات کہنے کی جرات پایئں گے، وہ قلندری اور درویشی بھی جان لیں گے۔ اور یہ بھی سمجھ پایئں گے کہ انسان دوست درویش کون ہوتاہے۔ کورونا کی وبا کے دوران زلفیں دراز ہونے اور داڑھی بڑھنے سے درویشی کو کوئی سروکار نہیں۔
