گزشتہ کئی ہفتہ سے ہم کئی وجہوں سے بی بی سی کی معروضیت کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ لیکن کل بی بی سی کے اردو پروگرام ، سیر بین کے بند ہونے پر ممتاز پاکستانی صحافی وسعت اللہ خان کی تحریر پڑھ کر ہمارا تجسس اور بڑھ گیا۔ انہوں نے اپنے مضمون میں بی بی سی کی اردو سروس کے گ±ن گائے ہیں۔ بی بی سی ایک عرصہ تک ان کا آجر رہا ہے، اور وہ اب بھی اس کے لیئے وقتاً وقتاً لکھتے ہیں، ہمارے قیاس میں اس کا اجر بھی ملتا ہو گا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہمیں ان کی اس تحریر پر افسوس ہوا۔ ہم انہیں مصلحت سے بے نیاز ایک معروضی رائے نگار سمجھتے۔ لیکن اس مضمون کی مصلحت کے تحت شاید انہوں نے اپنی معروضیت بالائے طاق رکھ دی۔
انہوں نے اپنے مضمون میں بی بی سی میں اردو لکھنے والوں کی طویل فہرست بھی پیش کی ہے۔ ان میں ایک اہم نام ہمارے ایک عزیز اطہر علی صاحب کا ہے، وہ ہمارے والد کے جونیئر اور شاگرد کی طرح تھے۔ جب ہم نے لندن جانا شروع کیا تو ہم ہر بار ان کے گھر جاکرحاضری دیتے تھے۔ پھر ان کی صاحبزادی کی شادی بھی ہمارے جاننے والوں میں ہو ئی۔ ہم چونکہ بحیثیت ایک نوجوان پاکستانی، بی بی سی ، اردو سروس سننے والوں میں تھے، سو ہمیں بی بی سی ، سے ان کے تعلق کی وجہ سے ان سے ملنے کا اشتیاق اور بھی ہوتا تھا۔
جب جب رفتہ رفتہ بی بی سی کا جادو ٹوٹا اور ہمیں مختلف بین الاقوامی میڈیا سے مستفید ہونے کا موقع ملا تو تو پھر بی بی سی کی افادیت کم ہوتی چلی گئی۔ پھر ہمیں انداازہ ہوا کہ صرف بی بی سی، ہی اردو سروس نشر نہیں کرتا بلکہ بعض دیگر بڑے ممالک کے سرکاری ریڈیو بھی اردو سروس نشر کرتے ہیں۔ ان سب کا مقصد بیرونی ممالک میں اپنی حکومت کی پالیسیوں کو پھیلانا اور ابلاغ عامہ کے ذریعہ اپنی حکومتوں کی عالمی سیاسی ترجیہات کو نافذ کرنے میں مدد کر نا ہے۔ اس طرح کے ادار ے عام طور پر حکومتوں کے ذیلی ادارے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات انہیں بظاہر ایک آزاد ادارے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
بی بی سی بھی ایک ایسا ہی ادارہ ہے جو ظاہری طور پر آزاد ہے لیکن اس کے بورڈ کے اعلیٰ اراکین حکومت یا کابینہ کے نمائندے ہوتے ہیں، اور اس بورڈ پر حکمراں سیاسی جماعت کا اثر ہوتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے صحافیوں کو ایک طرح کی آزادی ہوتی ہے۔ لیکن یہ آزادی حتمی نہیں ہوتی۔ یہ ادارہ برطانیہ کی وزارتِ خارجہ کے طابع ہوتا ہے، اور اسے برطانیہ کی پالیسیوں کے پھیلاﺅ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اب سے چند سال قبل شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالہ میں اس طرح لکھا گیا کہ، ” کئی مطالعوںمیں یہ خیال عام ہے کہ، :بی بی سی عالمی سروس، برطانیہ کے لئے ایک عالمی ترجیہی اثاثہ ہے، جوحالتِ جنگ و امن، دونوںمیں فائدہ مندہے۔ یہ برطانیہ کی اہم دفاعی اورخارجہ پالیسیوں کا اہم جزو ہے۔ یہ بیرونی ممالک میں برطانیہ کا وقار بڑھاتا ہے، اور ایک طرح سے دنیا کو برطانیہ کی طرف سے ایک تحفہ ہے۔“ پھر لکھا گیا کہ ، ”گزشتہ ستر سال سے بی بی سی کو فراہم کی گئی امداد کے ذریعہ اس کا مالی اور سیاسی ڈھانچہ ، برطانیہ کی سفارتی ، معاشی، اور دفاعی ضروریات، کے طابع رہاہے“۔ ان ہی مصلحتوں کے تحت اسے ادارتی طور پر آزاد دکھایا جاتا رہا ہے۔
اب سے چند سال پہلے ایک برطانوی پروفیسر ، ٹوم مِلز کی کتاب ، The BBC… The Myth of Public Service شائع ہوئی ہے۔ جس کے عنوان کا ترجمہ ، بی بی سی۔ خدمتِ عامہ کی فرضی حکایت، ہے۔ اس کتاب میں پروفیسر نے کئی تفصیلی حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ ، بی بی سی، نہ تو آزاد ہے اور نہ معروضی۔ وہ برطانیہ کے عوام کے لئے اس ادارہ کو مفید گردانتا ہے، انہی نکات کی بنیاد پر جن کا اوپر ذکر ہے۔ یہ برطانیہ کے عوام کے لئے تو اہم ہے، لیکن اس کا تیسری دنیا ، مثلاً پاکستان جیسے ممالک کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ ادارہ دنیا کے ممالک میں ان ہی کی زبانوں میں ابلاغ ان ممالک اور ان زبانوں کی خدمت کے لئے نہیں کرتا۔ بلکہ خود برطانیہ کے ثقافتی اور سیاسی اثرات کو پھیلا نے کے لئے ان زبانوں کا استعمال اور استحصال کرتا ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ جب بی بی سی، پاکستان یا دوسرے ممالک کے صحافیوں کوملازمت دیتا ہے تو اس کا مقصد بھی ان کی صلاحیتوں کو برطانیہ کے مفاد میں استعمال کرنا ہوتاہے۔ اگر آپ بی بی سی ، سے منسلک مختلف پاکستانی صحافیوں کے پس منظر پر غور کریں تو آپ کو ان میں خال خال ہی وہ ملیں گے، جو واقعی پاکستان میں آزادیءاظہار کے علمبردار اور عمل پرست رہے ہوں گے۔ چند ضرور ہوں گے جن کا احترام لازم ہے، اور جن کی معاشی مجبوریا ں بھی انہیں پاکستان سے دور کرتی ہیں۔
جب ہم بی بی سی کے پروگرام سیر بین کے بند ہونے پر نوحہ پڑھیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے اب یہ پروگرام برطانیہ کے ترجیہی مقاصد کے لیئے سود مند نہیں رہا تھا۔ ہمارے وہ صحافی جو پاکستان اور اردو کی خدمت کر نا چاہتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ خود پاکستان میں ایسے بین الاقوای میڈیائی ادار ے قائم کریں جو دیگر ملکوں کی زبا ن میں پاکستانی سیاسی، ترجیہی، اور ثقافتی مفادات کو فروغ دے سکیں۔
409