گیارہ طویل اور خون آسام شب و روز کے بعد بالاخر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوا۔ عالمی ذرائع ابلاغ عامہ کے کچھ ذرائع ان دنوں کی بھرپور تصویر کشی کرتے رہے اور کچھ نے اس کو اجاگر کرنے سے گریز کیا۔ 1920ءسے شروع ہونے والے اس تنازعہ میں شدت اس وقت آئی جب 1948ءمیں اسرائیل کی ریاست کا باقاعدہ وجود عمل میں آیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے اس خطے کو اپنی تحویل میں لیا۔ اس وقت یہاں عربوں کی اکثریت تھی۔ یہودی اقلیت شمار کئے جاتے تھے۔ 1920ءسے لے کر 1940ءتک یہاں یہودیوں کی آمد میں اضافہ ہوا۔ ان میں بہت سی تعداد ایسی تھی جو یورپ سے ہولوکاسٹ سے بچ کر نکل آئے تھے۔ 1947ءمیں اقوام متحدہ نے رائے دہی کے ذریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کیا جائے جس میں ایک یہودی ریاست اور ایک عرب ریاست قائم کی جائے۔ اس تجویز کو عربوں نے یکسر مسترد کردیا اور اس تجویز پر عمل نہیں ہو پایا۔ 1948ءمیں برطانیہ اس مسئلہ کو یونہی ادھورا چھوڑ کر اس خطہ سے نکل گیا جب کہ یہودی رہنماﺅں نے اسرائیل کی ریاست قائم ہونے کا اعلان کردیا۔ فلسطینیوں نے بھرپور مخالفت کی اور ایک مستقل جنگ کا آغاز ہوگیا۔ فلسطین دراصل اس علاقہ کا نام ہے جو لبنان اور مصر کے درمیان تھا اور جس کے بیشتر حصے پر اب اسرائیل کا قبضہ ہے۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا اور انہیں اپنی جانیں بچانے کے لئے مختلف ممالک میں پناہ لینی پڑی۔ کئی ہمسایہ عرب ممالک نے اس جنگ کے آغاز میں فلسطینیوں کی امداد کی۔ ایک سال کے بعد جب جنگ بندی کا فیصلہ ہوا تو اسرائیل اس وقت تک اس خطے کے بیشتر علاقے پر قابض ہو چکا تھا۔ اردن اور مصر نے بھی غرب اردن اور غزہ کی پٹی سنبھالی۔
بیت المقدس کے مغربی حصے کو اسرائیلی فوج نے اپنے حصار میں لے لیا۔ 1967ءکی جنگ کے بعد اسرائیل نے اپنے مقبوضہ علاقوں میں مزید توسیع کی اور باہر جانے والے فلسطینیوں کو گھر واپس لوٹنے کی اجازت دینے سے انکار کیا۔ اسرائیل پورے بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ تعبیر کرتا ہے جب کہ فلسطینی اسے قبلہ اول کے حوالے سے فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مانتے ہیں۔
پچھلے کئی سالوں میں اسرائیل نے یہاں کئی آبادیاں قائم کی ہیں جب کہ فلسطینیوں کے مطابق یہ بستیاں بین الاقوامی قوانین کی رو سے غیر قانونی ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے دونوں کے درمیان کئی دفعہ بین الاقوامی کاوشوں کے ذریعے مذاکرات کے سلسلے شروع کئے گئے مگر کسی طور پر بھی معاملات حل ہونے کی کوئی صورت نہیں نکل سکی۔
سپر پاور امریکہ، اسرائیل کا اہم ترین حلیف ہے۔ مالی امداد کے علاوہ جنگی آلات اور ہتھیاروں کی فروخت ہمیشہ اسرائیل کو جاری رہی ہے۔ صدر اوبامہ نے 2016ءمیں اسرائیل کے لئے 38 ارب ڈالر کی امداد کے معاہدے کو منظور کیا اس کے علاوہ 50 لاکھ ڈالر اسرائیلی ترک وطن کو بسانے کے لئے ادا کئے گئے۔ امریکی امداد کی بدولت اسرائیل اپنی فوج کو دنیا کی بہترین افواج کے صف میں لاکھڑا کرنے کا اہل ہوا۔ صدر ٹرمپ کے دور میں اسرائیل کو اس کے عرب ہمسایوں سے تعلقات استوار کرنے کی راہ ہموار کی گئی۔ فلسطینیوں کی بے دخلی اور اس کے مسائل پر عرب ممالک میں یقینی طور پر فکر تو پائی جاتی ہے مگر ان کا عملی مظاہرہ کسی طور پر بھی دیکھنے میں نہیں آتا۔ خاص کر گزشتہ سال کئی ممالک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد موجودہ صورت حال کو بہتر بنانے پر کسی قسم کی کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔
عربوں کے برعکس کئی دیگر مسلم ممالک نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ ترکی، ایران اور پاکستان نے اس عزم کا پھر اعادہ کیا کہ وہ فلسطینیوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے رہیں گے۔ پاکستان نے سخت موقف اختیار کیا کہ وہ اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک دو ریاستوں کا قیام عمل میں نہیں آجاتا۔ مسلم ممالک کی نمائندہ جماعت ”او آئی سی“ بھی صرف قرارداد پاس کرنے کے علاوہ کئی مضبوط قدم اٹھانے سے قاصر رہی۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ مسلم امہ جس کی قیام کی بازگشت کبھی کبھار سنائی دیتی رہی اس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ مسلم بشمول عرب ممالک مسلم اتحاد سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔
اس وقت عالمی طور پر خاص طور پر امریکہ میں فلسطین اور اسرائیل کے تنازعات کو لے کر ایک نئی سوچ سر اٹھا رہی ہے۔ انہی کالموں میں اس سے قبل یہ تذکرہ کیا گیا تھا کہ یہودیوں کی نئی نسل اپنے کو اسرائیل کی پالیسیوں سے دور رکھنے کے اشارے دے رہی ہے۔ اس وقت خود ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر سے صدر بائیڈن پر اسرائیل کی حمایت میں بیان دینے اور اسرائیل کو جنگی ہتھیار کی فروخت پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ خبریں یہ بھی گردش میں ہیں کہ اس وقت اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اندرونی طور پر مسائل کا شکار ہیں۔ اس وقت رمضان لمبارک کی 27 ویں شب کو مسجد الاقصیٰ میں عبادت کرنے والے فلسطینیوں پر حملہ نیتن یاہو کی ساکھ بڑھانے کا سبب بنا ہے گو کہ کہا یہ گیا ہے کہ وہاں دہشت گردوں کی موجودگی کا شبہ پایا گیا تھا۔ حماس نے ایک دفعہ پھر فلسطینیوں کا ساتھ دیتے ہوئے جنگی ردعمل کو اپنایا۔ 1980ءمیں حماس کا وجود یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطین جماعتوں کے اتحاد تنظیم آزادی فلسطین PLO کی مخالفت میں وجود میں آئی۔ کہا جاتا ہے کہ ابتدائی دنوں میں اسرائیلی حکومت نے اسے مالی معاونت فراہم کی تاکہ PLO کا زور توڑ جا سکے مگر اس کی تردید حماس اور اسرائیلی دونوں کی طرف سے آتی ہے۔ PLO کے برعکس حماس اسرائیل کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا۔ اس کے نقشے میں قبتہ الصخرہ کے سنہری گبند کے ساتھ ساتھ اسرائیل، غزہ اور ویسٹ بینک کے تمام علاقہ کو فلسطینی ریاست کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ یاسر عرفات نے 1993ءاوسلو معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ قیام امن کا اعلان کیا تھا۔ حماس نے اس امن معاہدے کو تسلیم کرنے سے مکمل انکار کیا۔ 2006ءکے انتخابات میں حماس نے غزہ کی پٹی میں اکثریت حاصل کی۔ 2007ءمیں الفتح اور حماس کے مابین جھڑپوں کے بعد غزہ کی پٹی پر قبضہ کرلیا۔ تب سے مغربی کنارے پر محمود عباس کی فتح پارٹی کا کنٹرول ہے اور غزہ بدستور حماس کے پاس ہے۔ ابلاغ عامہ کے مطابق گزشتہ دنوں جہاں فلسطینیوں پر نقصانات میں شدت رہی وہیں اسرائیل میں بھی سراسیمگی کا عالم رہا اور بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت صر اور قطر کی کوششوں کی بنا پر حماس اور اسرائیل کو جنگ بندی پر آمادہ کیا گیا ہے مگر اس اعلان کے باوجود غزہ میں فلسطینیوں کے گھروں پر اسرائیلی سپاہیوں کے چھاپے جاری ہیں۔ یہ تمام صورت حال انتہائی دل شکستہ اور گھمبیر نظر آتی ہے۔ اسرائیل اپنے کو مکمل طور پر مستحکم دیکھنا چاہتا ہے جب کہ فلسطینی اپنی کھوئی ہوئی زمین پر دوبارہ بسنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا حالیہ اجلاس جو خصوصی طور پر اس مسئلہ پر بحث کرنے کے لئے بلایا گیا میں اس بات پر انتہائی زور دیا گیا کہ اس دہشت گردی کو اختتام پذیر ہونا چاہئے لیکن باوجود کئی ممالک کی شرکت اور بھرپور طرح سے فلسطینیوں کی حمایت کے باوجود سلامتی کونسل کسی بھی قسم کی مضبوط اور مربوط لائحہ عمل پر متفق ہونے میں ناکام نظر آئی۔ پاکستان نے ترکی کے ساتھ مل کر اور دیگر مسلم ممالک کی شراکت سے متحد مسلم افواج کی نشاندہی ضرور کی ہے مگر ہمیشہ کی طرح عرب اور دیگر مسلم ممالک تذبذب کا شکار نظر آئے۔ اپنے ترجیحات اور تنازعوں میں معلق ”ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبابنی کیلئے“ کا تصور یکسر غائب ہو چکا ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت فلسطین کے حق میں مظاہرے کئے جارہے ہیں اور دو الگ ریاستوں کے قیام کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ شاید اب وقت آرہا ہے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کی طرف مثبت قدم اٹھائے جائیں۔ عالمی رائے تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ زمینی حقائق کا بغور مطالعہ دونوں طرف کے معاونین کی طرف سے کیا جانا چاہئے اور ایک فیصلہ کن سمت کی طرف بڑھنا چاہئے، وہ ممالک جو امن کے خواہشمند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں اس وقت ثالثی کے لئے آگے بڑھنا ہو گا ورنہ دنیا صرف حیرت اور استجاب کے عالم میں ان دل گرفتہ واقعات کو دیکھتی رہے گی اور آنے والی نسلیں اس طرز عمل کو جاری رکھنے پر مجبور رہیں گی۔ کیا واقعہ مسئلہ فلسطین کا حل نکل سکے گا۔
362