امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 359

ہم سب کالے ہیں! (2)

ابھی ہمارے گزشتہ ہفتہ کی تحریر کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی کہ کل یہ روح فرسا خبر آگئی کہ اونٹاریو میں پیل ریجن کی پولس نے ایک باسٹھ سالہ پاکستانی کو مسی ساگا میں کئی گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق متوفی اعجاز چودھری ذہنی مریض بھی تھے اور شاید شیزو فرینیا کی شکار تھے۔ ان کے گھر والوں کے مطابق جب ان کے مرض نے زور پکڑا ، اور انہوں نے اندر سے گھر کا دروازہ بند کر لیا تو ان کے گھر والوں نے 119 پر فون کرکے ان سے ڈاکٹر یا صحت کے عملہ سے مدد مانگی۔
اس کے نتیجہ میں کئی مسلح پولیس والے ان کے گھر پہنچے۔ ان کے گھر والے کوشش کرتے رہے کہ پہلے پولس انہیں اندر جانے دے تاکہ وہ انہیں پر سکون کر سکیں۔ لیکن پولس نے دروازہ توڑنا شروع کر دیا اور دوسری طرف سے پولس والے بالکنی سے ان کے گھر میں داخل ہو گئے۔ پہلے تو شاید انہوں نے اعجاز چودھری پر جھٹکا لگانے والا ہتھیار استعمال کیا۔ ان پر پلاسٹک کی گولیاں چلائیں، اور پھر اچانک آتشیں اسلحہ سے کئی گولیا ں چلا کر انہیں ہلاک کر دیا۔ پولس نے یہ الزام لگایا کہ ان کے ہاتھ میں چھری تھی۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ ذہنی یا نفسیاتی مریضوں کے معاملات میں مداخلت کرنے والی خصوصی تربیت یافتہ پولس ٹیم کہیں اور مصروف تھی۔
اونٹاریو پولس کا خصوصی تفتیشی ادارہ اس کی تحقیق کر رہا ہے۔ اگر ماضی کو دیکھا جائے تو اس ضمن میں کسی خوش فہمی میں نہ رہنا چاہیے۔ اب تک ایسی تحقیقات کا خال خال ہی نتیجہ نکلا ہے۔ اس کے علاوہ پولس افسروں کی یونین اپنے افسرو ں کا مکمل دفاع کرتی ہے۔ کئی بار پولس والے ان تحقیقات میں تعاون بھی نہیں کرتے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اسی ماہ، شیزو فرینیا کے ایک سیاہ فام نوجوا ن مریض کو بھی اسی علاقہ کی پولس نے بالکل اسی طرح ہلاک کر دیا تھا اور اس سے چند ہفتہ قبل، ٹورونٹو میں ذہنی مرض میں مبتلا ایک نوجوان سیاہ فام خاتوں پولس کی مداخلت کے بعد تیسری منزل سے گر کر ہلاک ہوگئی تھیں۔
ایک اہم اشاریہ یہ بھی ہے کہ کینیڈا میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے غیر سفید فاموں کا تناسب تقریباً چھیانوے فی صد ہے۔ ان میں سب سے بڑی تعداد سیاہ فاموں اور اولین باشندوں یا Natives کی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کہ یہاں پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والوں کے اعداد و شمار آسانی سے دستیاب نہیں ہیں۔ اگر اعداد و شمارمل بھی جایئں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ پولیس کے ہاتھوں مارے جانے پر خصوصی تحقیقات کے بعد چورانوے فی صد سے زیادہ پولیس افسروں کی ذمہ داری ثابت نہیں کی جاتی۔
کینڈا کے تقریباً ہر صوبے اور شہر میں، ہر سال پولیس کے اخراجات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ صرف ٹورونٹو کی پولس کا بجٹ ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ سالہا سال سے پولس کینیڈا بھر میں پولیس معاملات کی اصلاحات کی کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن اس کے باجود ہمیشہ اخراجات میں اضافہ ہوتا رہا ہے باوجودیکہ جرائم کی شرح گھٹتی جاتی ہے۔ محکمہ پولیس میں اصلاحات کا مطالبہ اور کوشش کرنے والے اہم شہریوں میں ایک نام ، الوک مکرجی کا ہے۔ جو خود تقریباً دس سال تک ٹورونٹو پولیس کی نگرانی کرنے والے پولس بورڈ کے سربراہ رہے۔ وہ جنوبی ایشیائی نژاد ہیں۔ اس منصب پر انہیں نہ صرف ٹورونٹو بلکہ کینیڈا اور دیگر ممالک میں پولیس معاملات کے مطالعہ کا موقع بھی ملا۔ انہیں نے پولیس معاملات کی اصلاح پر ایک کتاب Excessive Force بھی لکھی ہے جو اس ضم میں اہم حوالہ ہے۔ ان کی کتاب کے علاوہ کئی اور رپورٹو ں میں یہ نتیجہ نکلا ہے کہ کینیڈا کی پولیس عموماً منظم نسل پرستی کا شکار ہے۔ پولس کے ہاتھوں والے سیاہ فاموں کی بہت بڑی تعداد اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
جہاں تک سیاہ فاموں، یا جنوبی ایشیائےوں پر پولیس زیادتی اور ان کی ہلاکت معاملہ ہے تو ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جہاں تک عام طور پر جنوبی ایشیائی، پاکستانی میڈیا کا تعلق ہے، اس نے ان معاملات میں یا تو مجرمانہ غفلت اختیار کر رکھی ہے یا اس کے سرکردہ افراد سفید فام میئروں، پولیس افسروں، اور سیاستدانوں کی خوشامد کرتے نظر آتے ہیں۔ اس بار اعجاز چودھری کے معاملہ میں کچھ آاوازیں اٹھی ہیں۔ اگر معاملات کا حل چاہیئے تو پاکستانیوں اور مسلمانوں کو اعجاز چودھری کے ساتھ ہر دیگر پولیس زیادتی پر ثابت قدمی سے مسلسل آواز اٹھانا ہو گی۔ ورنہ اس معاملے کے دبنے کے بعد چند ہفتوں میں ہی ایسی کوئی اور صورت سامنے آئے گی۔
ہمیں ہر شہری کے لیئے اور بالخصوص شہریوں کے لیئے انصاف کا مطالبہ کرنا ہوگا۔ آج کل ایک جائز مطالبہ یہ بھی ہے کی پولیس کے بجٹ میں کٹوتی کی جائے اور اس سے حاصل شدہ بچت کو صحت، نفسیات، اور نسل پرستی کی خلاف تربیت کے لیئے استعما ل کیا جائے۔ لگتا ہے کہ مسی ساگا کی میئر اس کٹوتی کے خلاف ہیں۔ لیکن انہیں اس مطالبہ میں اپنی آواز ملانا ہوگی۔ ورنہ صورتِ حال ابتر ہوتی جائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں