Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 392

آزادی

یہ ان دنوں کی بات ہے جب آتش جوان تھا اور میں ایران میں تھا۔ وہاں میری ملاقات ایک اٹالین نوجوان سے ہوئی جو میرا ہم عمر ہی تھا۔ بہت جلد ہی ہم لوگ گہرے دوست بن گئے۔ ہم ایک دوسرے کو اپنے ملک کے اور اپنے گھروں کے قصے بھی سنایا کرتے تھے۔ ایک دن شادی کی بات نکلی جو کہ جوانی میں ایک خاص موضوع ہوتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے اپنی شادی کے لئے کسی خاص لڑکی کو ذہن میں رکھا ہوا ہے۔ اس نے جو جواب دیا وہ میرے لئے بہت حیران کن تھا۔ وہ کہنے لگا میری شادی میری دادی اور میری والدہ کریں گے۔ لڑکی بھی وہی پسند کریں گے۔ ایک یوروپین باشندے سے میں اس بات کی توقع نہیں کررہا تھا۔ شاید وہ میری حیرانی بھانپ گیا اور کہنے لگا ”شاید تم اس بات پر حیران ہو گئے ہو“۔ میں نے کہا، ظاہر ہے، ہم نے جو یوروپ اور امریکہ کی کہانیاں سنی ہیں وہ تو اس بات سے بہت مختلف ہیں۔ وہ کہنے لگا تم نے دراصل فلموں اور لوگوں کے قبصروں سے یہ تاثر لیا ہے۔ سڑکوں پر جو کچھ ہوتا ہے یا فلموں میں دکھایا جاتا ہے اس میں حقیقت کم اور کسی خاص ایجنڈے کے لئے اکسانا ہوتا ہے۔ دراصل ہر معاشرے میں دو طرح کے لوگ بستے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں وہ لوگ جو عریانی، فحاشی اور آزادی کو ہوا دیتے ہیں دراصل یہ ابتداءکچھ دہائیوں پہلے ایک چھوٹے سے خاص گروپ سے شروع ہوئی جنہوں نے آزادی کے لئے احتجاج کیا۔ معاشرے سے اپنے گھر سے بغاوت کی۔ ان میں سے ہر شخص صرف اپنے لئے زندہ ہے اسے کسی دوسرے سے کسی رشتے سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ لوگ گروپ کی صورت میں بازاروں میں ننگے بھی آجاتے ہیں شراب پینا فحاشی پھیلانا اور ہر قسم کی غیر اخلاقی حرکتیں کرنا ان کا کام ہے۔ دوسری قوم وہ ہے جو خاندانی لوگ ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام ہے جہاں ماں باپ دادا دادی کو ہر معاملے میں اہمیت دی جاتی ہے ان سے سیکھا جاتا ہے اور ان کی خدمت کی جاتی ہے یہ مشترکہ خاندانی نظام بہت بڑی تعداد میں ہے لیکن چونکہ اس کی اتنی تشہیر نہیں ہوتی نا کوئی ضرورت محسوس کرتا ہے اس لئے دنیا کی نظر سے اوجھل ہیں۔ خراب قسم بازاروں میں نظر آتی ہے اس لئے لوگ اسے ہی ہمارا معاشرہ سمجھتے ہیں۔ مجھے اس کی یہ بات اس وقت اتنی ہضم نہیں ہوئی۔ ایک دن اس نے مجھے ایک تصویر دکھائی جو کہ گھر کے لان کی تھی جہاں ایک پرانے زمانے کا جھولا لگا تھا جس پر ایک معمر خاتوں بیٹھی تھیں اور کچھ لوگ اور بچے آس پاس کھڑے تھے۔ اس نے بتایا یہ جھولے پر میری دادی بیٹھی ہیں آس پاس میرے والدین دو بھائی اور ان کے بچے ہیں دو بہنوں کی شادیاں ہو گئیں وہ اپنے گھر ہیں ہم لوگ سب ساتھ رہتے ہیں یہ ہمارے گھر کا لان ہے۔ جو فیملی والے لوگ چھوٹے گھروں میں تہے ہیں اتنی استطاعت نہیں ہے کہ بڑا گھر لے کر سب رہ سکیں وہ شادی کے بعد علیحدہ تو ہو جاتے ہیں لیکن روزمرہ کی بنیاد پر ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں، میرے اس دوست کی یہ بات اس وقت گواہی بنی جب میں امریکہ آیا اور ایک طویل عرصہ گزارا امریکہ میں آج بھی سب ویسا ہی ہے جیسا اس نے بتایا تھا۔ یہاں پر میں نے دو طرح کے خاندان دیکھے اور بغور مشاہدہ کیا ایک تو وہ ہیں جو شراب کے نشے میں دھت سڑکوں پر ہنگامہ کرنے اور لڑکیاں عریاں لباس میں الٹی سیدھی حرکتیں کرتی نظر آتی ہیں ان کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے کیونکہ انہوں نے زبردستی آزادی حاصل کرلی ہے اس کے علاوہ بے شمار عجیب عجیب حلئے کے لوگ نظر آتے ہیں۔ یہ اپنے گھر والوں کو اپنے خاندان کو چھوڑ کر آزادی کی زندگی بسر کرتے ہیں ان پر کوئی ذمے داری کوئی بوجھ نہیں ہے۔ یہ آزاد ہیں ان کو علم ہی نہیں کہ خاندان کسے کہتے ہیں یہ بغیر شادیوں کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں کچھ لوگ ان کو جنکیوں یعنی کوڑا کرکٹ میں شمار کرتے ہیں۔ ان کو خاندانی روایات کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ یہ وہی لوگ اور ان کی اولادیں اور ایسے لوگوں کی تقلید میں ایسے بن گئے ہیں جنہوں نے کچھ دہائیوں پہلے آزادی کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ بگڑے ہوئے چند مرد اور خواتین تھیں جنہوں نے معاشرے کے ایک حصے کو گندہ کردیا اور خاندان تباہ کر دیئے یہ وہ لوگ ہیں جو ہر بدتہذیب حرکت کرنے سے نہیں چوکتے۔ ان ہی آزاد لوگوں میں گھریلوں جھگڑوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مار پٹائی علیحدگی ایک عام سے بات ہے۔ یہ ایک چھوڑ دوسری شادی بہت جلدی جلدی کرتے ہیں۔ یہ آزاد لوگ ہمارے ملک کے لوگوں کو بہت متاثر کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم بھی ان کی طرح آزاد ہوں۔ لیکن ان کو شائید یہ علم نہیں ہے کہ یہ جنکی لوگ Junky اندر سے کتنے تنہا اور پریشان ہو جاتے ہیں ان ہی میں سے 90 فیصد ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ خودکشی کا رجحان بڑھ جاتا ہے یا اسلحہ لے کر کسی اسکول شاپنگ سینٹر یا فیکٹری میں گھس کر فائرنگ کرکے لوگوں کی جان لے لیتے ہیں۔ کیونکہ ایک وقت آتا ہے جب ہر چیز سے آزاد اور گھر کے ہر فرد کا جسم دل و دماغ اس کی مرضی بن جاتا ہے۔ تو ان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ غلط ہیں اور پھر وہ ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہیں جو اس مغربی معاشرے میں آج بھی تہذیب یافتہ اور ایک خاندان کی صورت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ خاندانی اقدار اور روایات کو سمجھتے ہیں اس کی قدرت کرتے ہیں وہ ایک اچھی فیملی کی طرح رہتے ہیں خواتین کا لباس کبھی غیر معیوب نظر نہیں آتا لڑکیوں اور لڑکوں پر مکمل کنٹرول ہوتا ہے نگاہ رکھی جاتی ہے کہاں جارہے ہیں کس سے مل رہے ہیں۔ شام اندھیرا چھاتے ہی باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ گھر کی خواتین یا تو جزوی طور پر کہیں نوکری کرتی ہیں لیکن زیادہ تر گھریلوں ہوتی ہیں بچوں کی دیکھ بھال کھانا پکانا اور گھر کو سنبھالنا ہوتا ہے۔ یہ خوش ہیں اور ان کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ سب افسانہ لگ رہا ہوگا۔ یہ خاندان زیادہ تر شہر کے ہنگاموں سے ہٹ کر سبرب میں رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو افسانہ اس لئے لگ رہا ہوگا کہ بدقسمتی سے ہماری کچھ خواتین اور یہاں رہنے والے لوگوں کی ایسے خاندان تک رسائی نہیں ہے مطلب انہوں نے امریکہ اور یوروپ کو صرف ساحلوں اور بازاروں کی حد تک دیکھا ہے لہذا ان کے لئے یہ باتیں حیران کن ہیں، آج کی آزادی مارچ کے نعروں اور ان کے انٹرویو سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ یہ ہمارے پرامن معاشرے اور ہنستے کھیلتے خاندانوں کو ملیا میٹ کرنے کی کوئی سازش ہے گھر کے مردوں اور عورتوں میں نفرت پھیلائی جارہی ہے۔ فحاشی اور آزادی میں بہتر فرق ہے۔ یہ احتجاج کرنے والی خواتین اور ان کا ساتھ دینے والے مرد حضرات سے پوچھا جائے آپ کے ساتھ یا آپ کے گھر میں کسی کے ساتھ یہ مظالم ہو رہے ہیں تو انکار کردیں گے کہ نہیں ہم تو دوسروں کی آزادی کے لئے آئے ہیں اور دوسرے کون ہیں کسی کو پتہ نہیں ہے جو خواتین گھریلو ہیں وہ خود ان کے خلاف ہیں مرد کی خواہش ہوتی ہے بلکہ مرد اور عورت دونوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنا گھر ہو اپنی فیملیدیکھ کر خوش ہوتی ہے بچوں کو پالنا ان کا خیال رکھنا اپنا گھر بنانا سب کی خواہش ہوتی ہے اگر مرد اتنا ہی ظالم ہے تو اسے اتنا کھڑاگ پھیلانے کی کیا ضرورت ہے دوسری بات یہ کہ معاشرے میں مرد سے زیادہ عورت عورت پر ظلم کرتی ہے۔ ساس بہو کے جھگڑے شوہر بچارا تو بیچ میں پس کر رہ جاتا ہے۔ اگر لڑکی کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق مانگا جارہا ہے تو بھائی لڑکے یا لڑکی کی شادی کے لئے ماں اور بہنیں ہی ڈھونڈتی ہیں اور پسند کرتی ہیں شادی کے تمام معاملات خواتین کے ہاتھ میں ہوتے ہیں مرد تو کہتے ہیں یہ عورتوں کے کام ہیں ان ہی کو کرنے دو جس لڑکے تک کی شادی گھر کی خواتین کی مرضی سے ہوتی ہے تو مرد کہاں قصوروار ہوا اور اگر میاں بیوی میں اختلاف ہیں ایک دوسرے کو پسند نہیں ہیں لڑائی جھگڑے کی نوبت ہے تو اس کے لئے تو مذہب بھی کہتا ہے کہ علیحدہ ہو جاﺅ طلاق لو یا طلاق دو اور اپنی زندگی اکیلے گزارو۔ یہاں تو مسئلہ یہ ہے کہ آزادی چاہئے من مانی بھی کرنا ہے۔ اور شوہر کا تحفظ بھی چاہئے۔ یہ تو دہرا معیار ہے اور یہ شر پھیلانے والی عورتیں بھی زیادہ تر وہ ہیں جن کو شوہر کا تحفظ نہیں چاہئے ان کو گونگا بہرہ شوہر چاہئے تو کمائے بھی اور ان کے کسی معاملات پر اعتراض نہ کرے اور کچھ نہیں معلوم یہ شر کے پھیلانے میں پیچھے کون ہے بہت سی انڈین عورتیں اور مرد اس مارچ میں شریک ہوئے ہیں اور کسی کو نہیں معلوم کہ یہ پاکستانی ہیں اور مسلمان ہیں یا انڈیا کے غیر مذہب۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شر پھیلانے والی خواتین کو ملالہ اور عبید چنا کی طرح مغرب کی توجہ چاہئے ہے کیونکہ ملالہ اور چنا کے مشہور ہونے کے بعد ہی خواتین سماجی کارکن میدان میں آتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں