امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 568

آنے والے دِنوں کے سفیروں کے نام۔۔۔

اس تحریر کے عنوان کے لیئے ہمیں فیض کا یہ مصرعہ، کینیڈا میں جامعہ کراچی کے سابق طلبا کی انجمن کی خصوصی نشست اور عہدیداروں کے انتخاب کے موقع پر یاد آیا۔ یہ انجمن کچھ ہم خیال دوستوں نے سنہ ِ ترانوے میں قائم کی تھی۔ سنہِ اٹھانوے میں اسے کینیڈا اور اونٹاریوکے قوانین کے تحت غیر منافعت کی بنیاد پر رجسٹر کروایا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ کہ آپ غیر منافعت کی اصطلاح پڑھ کر چونکے۔ لیکن بقول حمایت علی شاعر،” دل کے ہر کھیل میں ہوتا ہے بہت جاں کا زیاں“۔ لیکن ہر ایسی انجمن کو قائم کرنے والے انسان اپنے جان ومال کے زیاں کے باوجود، فلاحِ خلق کے بارے میں سوچتے اور کام کرتے ہیں۔ اس انجمن کو اولین طور پر قائم کرنے والوں میں، عدیل صدیقی، شمیم حق، مسلم حسنی، اشتیاق خان، اور سید مظفر شامل تھے۔ انجمن جامعہ کراچی کے بیرونِ ممالک مقیم طلبا کی ایک منفرد انجمن بن گئی۔ ہم نگری نگری گھومنے کا دعویٰ کر سکتے ہیں، لیکن ہم نے کینیڈا کے علاوہ کسی بھی ملک میں جامعہ کراچی کے طلبا کی ایسی انجمن نہیں دیکھی۔
غیر رسمی قیام ہی کے دنوں سے اس انجمن کا نصب العین یہ رہا کہ حتیٰ المقدور،کینیڈا اور بالخصوص اونٹاریو میں جامعہ کراچی کے سابق طلبا میں باہمی روابط کیئے جایئں، میل جول کے مواقع فراہم کیئے جایئں۔ اپنے اجلاس میں ایسے کلیدی مقرر مدعو کیئے جایئں جو جامعہ کے منفرد طلبا رہے ہوں، یا جو اراکین کو فکر و دانش کی بات بتایئں۔ سب سے بڑھ کر اس کا اہم ترین منصب جامعہ کے موجودہ مستحق طلبا کو مناسب وظائف فراہم کرنا رہا ہے تاکہ حصولِ علم کے لیئے ان کی راہ آسان ہو۔
جامعہ کراچی ایک غریب ترین ملک پاکستان کی فکری طور پر ریئس ترین جامعہ ہے۔اس کی چھاپ پاکستان کے ہر معاملہ پر ہے، جس میں حکومت، سیاست، عدالت، سفارت ، سایئنس، معیشت ،دولتِ دانش، عوامی فلاح کا ہر شعبہ شامل ہے۔ اس نے بلالحاظِ رنگ ، نسل، مذہب، اور طبقاتی تفریق، ہر طالب ِ کے ذہن تیار کرنے کی مسلسل کوشش کی ہے۔ اس کے اساتذہ کا شمار نہ صرف پاکستان کے اہم اساتذہ میں ہوتا ہے ، بلکہ پاکستان کے مشفق ترین اساتذہ میں بھی ہوتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس تحریر کو پڑھتے ہوئے، کئی قاریئن کو اپنے اساتذہ کی شفقت اور دردمندی یاد آئے گی۔
اپنی تنگ دستی کے باوجود یہ جامعہ اپنے طلبا کو نہایت مناسب معاضوں پر تعلیم اور تربیت کے مواقع فراہم کرتی رہی ہے۔ باوجودیکہ اسے بارہا سیاسی اور دیگر تعصبات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس نے عام طور پراپنے کسی طالب و علم کے ساتھ تعصب نہیں برتا۔ انجمن کے اراکین کے دل میں ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ وہ کس طرح اپنی مادرِ علمی اور اس کے موجودہ طلبا کے ساتھ تعاون کر سکیں۔ دنیا کی ہر بڑی جامعہ کے سابق طلبا اپنی جامعات کی ہر ممکن مدد کے لیئے مستعد رہتے ہیں، اور اپنی بساط کے مطابق اسے مسلسل سرمایہ اور امداد فراہم کرتے رہتے ہیں۔
اس انجمن نے اب سے بیس سال پہلے باہمی اامداد کی بنیاد پر وظائف کی طرح ڈالی۔ اس کے لیئے سابق طلبا سے اور دیگر مخیر افراد سے مدد لی گئی۔ وظائف کے لیئے ایک کمیٹی بنائی گئی، جس نے کراچی میں بھی ایک دردمند پروفیسر کی مدد حاصل کی، اور ہر سال سخت جانچ اور احتساب کے بعدیکساں مالیت کے بیس سے پچاس تک وظائف فراہم کیئے۔ یہ بلا شبہ اس کا اعزاز ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں اس کے اولین عہدیداروں کی توانائی میں کمی آتی گئی جو ایک انسانی خاصہ ہے۔ سو انہوں نے دو سال قبل فیصلہ کیا کہ اس کے قواعد و ضابطوں کو کینیڈ ا کے قوانین کے مطابق ڈھالا جائے۔ یہ کوشش بوجوہ کچھ سست رفتار رہی۔اب سے دو ماہ پہلے عہدیدارں کی باہمی رضا مندی سے ایک تین رکنی انتخابی کمیٹی قائم کی گئی اور اس پر لازم کیا گیا کہ تیس ستمبر تک انتخابات کا قانونی عمل مکمل کیا جائے۔ کمیٹی کے سربراہ جامعہ کے سابق استاد حبیب شیخ تھے۔ ان کے معاون اراکین میں انجمن کے سابق عہدیدارسید مظفر، اور راقم الحروف منیر پرویز سامی تھے۔
کمیٹی نے نہایت تندہی سے ان اراکین کی تصدیق کی جو ووٹ دینے کے حقدار تھے۔ اراکین سے اپنی رکنیت کو درست کرنے کے لیئے متعد رابطے کیئے گئے اور ہر رکن کو امیدوار بننے کا مساوی موقع دیا گیا۔ اس کے لیئے ہر نوٹس کینیڈا اور اونٹاریو کے قوانین کے تحت جاری کیا گیا اور دہرایا گیا۔ بالاخر، بائیس ستمبر کو خصوصی اجلاس ،جس کا مقصد قواعد کی منظوری اورانتخابات تھا، منعقد ہوا۔ اس میں اہم ترین مسئلہ کورم کی موجودگی تھا۔ کورم کی شرط ووٹ کے حق کے مستحق اراکین کی تعداد میں سے پینتیس فی صد اراکین کی موجودگی تھی۔ اراکین مکمل جذبہ کے تحت بیسیوں میل سفر کر کے اس اجلاس میں پہنچے، اور اجلاس شروع ہوتے وقت ستاون فی صد اراکین موجود تھے۔
قواعد کی منظوری کے بعد پانچ عہدیدار بلا مقابلہ منتخب ہوئے، جن میں ہر ایک نہ صرف کینیڈ ا میں فلاحی کاموں کا امتیاز رکھتا ہے، بلکہ خود جامعہ کے لیئے دردمند ہے اور اس کی خدمت کی قلبی نیت رکھتا ہے۔ اس موقع پر ، وقار ریئس۔صدر، بشارت مرزا سیکریٹری، اخلاق شیروانی۔ خزانچی، اور آصف جامعی۔ڈایئریکٹر، نعمان وحید۔ ڈائریکٹر، منتخب ہوئے۔
انجمن کے سابق عہدیداروں میں، عایشہ عالم، شمیم حق، سید مظفر ، اشتیاق خان، فرزانہ خان، مسلم حسنی، ارتضیٰ زیدی، طاہر رافع، اور صلاح قریشی ، شامل تھے۔ اب انہوں نے اپنی ذمہ داریاں، آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام منتقل کردی ہیں۔اب نئے عہدیداروں سے توقعات ہیں ، اور امید ہے کہ وہ اپنے سے پہلوں کو مشاورت و رہنمائی میں شامل رکھیں گے، اور انجمن کے نصب العین کو اور بھی آگے بڑہایئں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں