امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 474

”آیا صوفیا“ کا قضیہ

گزشتہ کئی دنوں سے آپ ترکی میں ایک عجائب گھر کو مسجد میں تبدیل کرنے کی خبریں س±ن رہیں گے اور اس پر پاکستانی مسلمانوں کی طرح طرح کی تاویلات بھی۔ بہتر ہیں کہ پہلے ہم اس کی تاریخ کے بارے میں وہ تفاصیل جان لیں جو اسے اہم بناتی ہیں۔
تاریخی حقائق کے مطابق کچھ اعادہ کرلیتے ہیں۔ یونانی عیسائیت سے وابسطہ گرجہ کی یہ عمارت مشرقی سلطنتِ روم کے شہر بازنطین میں شہنشاہ قسطنطین اول خواہش پر تعمیر کی گئی تھی۔ یہاں یہ بھی جان رکھنا ضروری ہے کہ شہر بازنطین کا نام تبدیل کرکے شہنشاہ کے نام پر قسطنطنیہ رکھ دیا گیا تھا، جو اب استنبول کہلاتا ہے۔ جسے انگریزی میں Constantinople کہتے تھے۔ اس گرجہ کی تعمیر ِ اول سنہ 325 میں شروع ہوئی تھی۔اسی کی بنیاد ایک قدیم مندر یا عبادت گاہ کی بنیاد پر ڈالی گئی تھی۔ یہ عمارت سنہ360 میں قسطنطین کے بیٹے قسطنطین دوئم کے زمانے میں مکمل ہوئی۔ جب ہی اس کی تقدیس بھی عمل میں آئی۔ اس کے بعد کی دو صدیوں میں یہ کئی بار جلائی گئی یا تباہ ہوئی۔
چھٹی صدی عیسوی یا (537میں اس کی بنیادوں پر بازنطینی شہنشاہ جسٹنٹین اول کی ہدایت پر وہ عظیم الشان گرجا یا کلیسابنا جو آج تک Hagia Sophia کے نام سے مشہور ہے۔ اسے ترکی زبان میں آیا صوفیا کہتے ہیں۔ اس نام کے معنی ’کلیسائے دانشِ مقدس‘ ہیں۔ فنِ تعمیر کے اہلِ دانش کا اس بات پر اتفاق ہے یہ کہ یابازنطینی طرزِ تعمیر کی سب سے عظیم الشان عمارت ہے، اور دنیا کی اہم ترین یادگار وراثت ہے۔ سنہ 1453میں ترکی کے عثمانی حکمراں محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے بعد اسے ایک مسجد بنا دیا۔ اس پر فورا ہی ترکی طرزِ تعمیر کا لکڑی کا ایک مینار کھڑا کر دیا گیا۔ یہ مینار زیادہ سال قائم نہیں رہا۔ بعد میں سولہوہیں صدی کے اوائل میں اس پر مزید مینار تعمیر تعمیر کیئے گئے جو کم و بیش اب تک قائم ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم تک عثمانی ترکی سلطنت کی حالت دگرگوں ہو چکی تھی ، اور ترکی ’یورپ کا مردِ ‘ کے نام پر مشہور یا بدنام ہوگیا۔ سنہ 1922میں مططفیٰ کمال پاشا کی قیادت میں ترکوں نے ترکی کی جنگِ آزادی کے بعد سامراجی چنگل سے نجات حاصل کی۔ اور مصطفی کمال پاشا نے ترکی کی تعمیر نو شروع کی اور اسے بدنامِ زمانہ، ترکی خلافت سے جمہوریت میں تبدیل کر دیا۔
یہاںاہم مسلم فلسفی شاعر علامہ اقبال کے خلافت کے بارے میں نظریات کی ضمن میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری میں لکھتے ہیں کہ، ’اقبال کے الفاظ میں تحریکِ خلافت کیا تھی۔ اہلِ مغرب سے خلافت کی بھیک مانگی جارہی تھی۔ ان کے نزدیک ایسی خلافت جو مسلمانوں کے زورِ بازو کا نتیجہ نہ ہو، بے معنی و مہمل ہے‘۔ اہم جریدہ جنگ کے ایک مضمون کے مطابق، یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر میں دولتِ عثمانیہ کی سلامتی، ادارہ خلافت کی بحالی، اور ترکوں کی آزادی کے حق میں ایک اہم تحریک چلائی گئی تھی۔ جسے تحریکِ خلافت کہتے ہیں۔ علامہ اقبال بوجوہ اس تحریک کے حق میں نہیں تھے۔ ان کے نزدیک تحریک نے حصولِ مقاصد کے لیئے مناسب راہ اختیار نہیں کی تھی۔ نیز تحریک کے اندازِ فکر و عمل سے طرزِ غلامی، اور دریوزہ گری کا انداز مترشح ہوتا تھا۔
جب مصطفی کمال پاشا نے خلافت ختم کرکے ترکی کو جمہوریت میں تبدیل کیا تو اقبال نے اسے بہت سراہا۔ اور اسے خلافت کے بارے میں ایک اجتہادی عمل قرار دیا اور کہا کہ کمال پاشا نے خلافت کو جمہور کو واپس لوٹا دیا ہے۔ کیونکہ علامہ اقبال کے نزدیک ترکی خلافت ملوکیت ہی کی شکل تھی اور اسے تبدیل کرکے اتاترک بہت ٹھیک کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ”یہ ترک ہیںجو امم اسلامیہ میں قدامت پرستی سے بیدار ہو کر شعورِ ذات کی نعمت حاصل کر سکے ہیں۔ یہ صرف ترک ہیں جنہوں نے ذہنی آزادی طلب کی ہے۔ اور جو خیالی دنیا سے نکل کر عالمِ حقیقت میں آگئے ہیں۔ انہوں نے ترکوں کے اس دور کے بارے میں اور اتارترک مصطفٰی کمال پاشا سے متائڑ ہو کر ایک طویل نظم ’طلوعِ اسلام ‘ لکھی۔ یہ نظم اس شعر سے شروع ہوتی ہے:
دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک نابی
افق سے آفتاب ابھرا ، گیا دورِ گراں خربی
اتاترک نے مسلسل جدو جہد سے ترکی کو فرسودہ رواےات اور کمزور عقائد سے نجات دلاکر عقل و فکر کی برتری کی مسلل کوشش اس طرح سے کی، کہ ترکی ان کی زندگی ہی میں مردِ بیمار کی حالت سے نکل کر ایک جدید ، توانا، اور طاقتور ملک بن گیا۔ انہوں ہی نے 1934 میں آیا صوفیا کو ایک عجائب گھر بنانے کا فیصلہ کیا۔ واضح رہے کہ جنگوں کے فاتح ہونے کی صورت میں فاتح ملک کی ہر جائداد بادشاہ یا شہنشاہ کی ذاتی ملکیت ہوجاتی تھی۔ یہی وجہہ تھی کہ عثمانی سلطان فاتح نے آیا صوفیا کو اپنی ذاتی جاگیر میں سے آیا صوفیا کی مسجد کو بھی ایک وقف میں تبدیل کر دیا تھا۔ اتاترک نے مسجد کو عجائب گھر بنا کر اس وقف کو تبدیل کر دیا تھا۔
ترکی کے قدامت پرست طبقے اتاترک کی ملک کو ایک سیکولر ملک بنانے کی اصلاحات سے خوش نہیں تھے۔ وہ مسلسل اس نظام کو شکست دینے کی کوشش میں مصروف رہے۔ دنیا بھر میں مذہبی قدامت پرست کے عروج سے اس طبقہ کے خیالات کو تقویت ملی۔ گزشتہ ربع صدی میں ترکی کے موجود صدر ، رجب طیب اردوغان کی سیاسی کامیابی کے نتیجہ میں اتاترک کی اصلاحات کو رد کرنے اور ملک کو قدامت پرست اسلامی ملک بنانے کی تحریک کو ایک اہم رہنما مل گیا۔
انہوں نے مختلف جمہوری ، نیم جمہوری، اور آمرانہ اقدامات کے ذریعہ ترکی کے نظام ِ حکومت سے آزاد خیال طبقہ کو شدید زک پہنچائی۔ ہزاروں افراد جن میں صحافی بھی شامل ہیں سخت ترین سزائےں بھگت رہے ہیں۔ عدالتی نظام کو قدامت پرستی کے شکنجہ میں کس دیا گیا ہے۔ترکی کے شہر ااستنبول (قسطنطنیہ کا موجو د نام) کے مئےر بننے کے ساتھ ہی انہوں نے آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد بنانے کے پیغامات دینے شروع کر دیئے تھے۔ اور اس سال انہوں ہی کے زیرِ اثر ایک اعلیٰ عدالت نے مصطفٰی کمال پاشا کے ،مسجد کو عجائب گھر بنانے کے فیصلے کو منسوخ کر وادیا ہے اور فوراً ہی ایک صدارتی حکم کے تحت اسے مسجد بنانے کا اعلا ن کر دیا گیا ہے۔
دنیا بھر میں اس عمل کے سلسلہ میں تشویش ہے۔ اس کے ساتھ ہی کئی قدامت پرست مسلمان اس فیصلے کی حمایت کر رہے ہیں۔ بعض پاکستانی تو اسے بار بار بھارت میں بابری مسجد کومسمار کرنے کے خلاف انتقام قرارد ے رہے۔ یہ غور کیئے بغیر کہ بابر یمسجد خود ایک ہندو مندر کی بنیادوں پر قائم کی گئی تھی۔ اور اب وہاں مسلمانوںکو ایک اور بڑی زمین دے دی گئی ہے۔
بعض پڑھے لکھے مسلمان تو یہ افواہیں بھی پھیلا رہے ہیں کہ خود سلطان محمد فاتح نے آیا صوفیہ کی عمارت اپنی جیبِ خاص سے خریدی تھی۔ یہ حقیقت سے بعید ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قسطنطنیہ پر قبضہ کے بعد یہ عمارت بالجبر ان کی ملکیت میں آئی تھی جسے بعد میں انہوں نے ازراہِ حق ِ شہنشہاہی اسے ایک وقف میں تبدیل کر دیا تھا۔ ترکی کی عدالت نے با ل کی کھال کھنچتے ہوئے اس وقف کو بحال کر دیا ہے۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہاایک عالمی شہر ہونے کے طور پر اس تبدیلی سے اختلاف کرتے ہیں۔ اقوامِ متحد ہ کے مختلف ضوابط کے تحت آیا صوفیہ عالمی ورثہ ہے۔ اسے ایسے ہی رہنا چاہیے۔ اسی طرح ہم ترکی کو رفتہ ایک ایک قدامت پرست بنائے جانے کے بھی خلاف ہیں۔
حوالے: واضح رہے کہ ہم مضمون نگاری میں وکی پیڈیا سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس مضمون میں ہمارا اہم حوالہ Britannacaہے۔ ہم نے علامہ اقبال کے خیالات کے بارے میں جریدہ جنگ کے ایک خصوصی ضمیمہ میں ڈاکٹر خالد مبین کے مضمون سے بھی استفادہ کیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں