Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 874

ابوالکلام، قائد اور پاکستان

مولانا ابواکلام آزاد کا نام کسی تعارف کا محتاج تو نہیں مختصراً عرض ہے کہ مولانا 11 نومبر 1888ءمیں مکّہ سعودی عرب میں پیدا ہوئے، پورا نام مولانا سیّد ابوالکلام غلام الدّین احمد آزاد تھا۔ تمام علوم کی تعلیم گھر میں ہی حاصل کی جس میں انگریزی زبان بھی شامل ہے البتّہ کچھ علوم کی تعلیم کے لئے سترہ سال کی عمر میں دو سال جامعہ الازہر میں گزارے ۔والدہ کا تعلّق سعودی عرب سے تھا جبکہ والد محترم انڈین بنگال کلکتّہ سے تعلّق رکھتے تھے۔تحریک آزادی میں مولانا صاحب نے فعّال کردار انجام دیا ان کی جدوجہد اور قربانیوں کو بھلایا نہیں جاسکتا۔انہوں نے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے میں بہت اہم کردار انجام دیا جس کے باعث ان کی زندگی کا ایک بڑا حصّہ جیل میں گزرا ہمیشہ انڈین نیشنل کانگریس میں رہے اور 35 سال کی عمر میں کانگریس کے سب سے کم عمر صدر بھی رہے۔جب انگریزوں کے ہندوستان سے جانے اور بٹوارے کی کارروائیاں ابتدائی عمل سے گزر رہی تھیں تو مولانا ابولکلام کو یہ بٹوارہ پسند نہیں آیا اور انہوں نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ خدشات چھپے ہوئے نہیں تھے۔لیکن پاکستان بننا ایک سازش بھی تھی اور ایک مجبوری بھی جو لوگ مخلص تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان بنے ان میں ہندو لیڈر بھی تھے اور مسلمان بھی دراصل انگریز جب ہندوستان میں داخل ہوا اس وقت ہندوستان کی سلطنت مسلمانو ں کے ہاتھ میں تھی جس پر انگریز سازش کرکے زبردستی قابض ہوگیا تھا۔جب انگریز ہندوستان سے جارہا تھاتو اصولا” حکومت واپس مسلمانوں کو ہی ملنا تھی۔لیکن انگریز اور ہندو دونوں نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستان کو دوبارہ مسلمانوں کے ہاتھ میں دیا جائے لہذا ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ انکریزوں کے مکمّل انخلاءسے پہلے ہی مسلمانوں کو علیحدہ کردیا جائے پورا ہندوستان دینے سے بہتر تھا کہ ایک چھوٹا حصّہ دے دیا جائے۔ اور مسلمان بھی تذبذب کا شکار تھے وہ مسلمانوں کی طاقت کو نہیں دیکھ رہے تھے ۔مستقبل سے خوفزدہ تھے اور بہتری علیحدگی میں نظر آرہی تھی کیونکہ ان کے ذہنوں میں یہی بٹھایا جارہا تھا۔جہاں تک مولانا صاحب کے خدشات کا تعلّق ہے تو انہوں نے کوئی انہونی بات نہیں کی تھی کیا ان خدشات کا علم قائد اعظم کو نہیں ہوسکتا تھا جو کہ ایک جہاندیدہ شخصیت تھے ذہین ،سمجھ دار کیا وہ یہ بات نہیں سمجھ سکتے تھے جو مولانا نے کہی تھی۔دراصل جتنے بھی مسلم لیگ کے لیڈر تھے سب اس خطرے سے واقف تھے ،کیوں کے حالات سب کے سامنے تھے پاکستان کا جغرافیہ مختلف قومیں ،مختلف زبانیں ،ثقافت، رہن سہن ہر چیز میں فرق تھا اور اس خطّے کے رہنے والوں کی ذہنیت کا بھی علم تھا ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی شخص وہ اندازہ لگاسکتا تھا جو مولانا نے لگایا فرق یہ تھا کہ دوسرے لوگ کہتے ہوئے ڈر رہے تھے کہ برائی مول نہ لیں اور مولانا نے اس بات کی پرواہ نہیں کی۔ان با توں کو جانتے ہوئے بھی قائد اعظم سمیت دوسرے مخلص مسلمان لیڈروں کو یہ امید تھی کہ مسلمان اپنی مملکت حاصل کرلینے کے بعد وہ کچھ نہ کریں گے جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔قائداعظم نے پہلی بات اتّحاد ،تنظیم ،اور یقین محکم پر اسی لئے زور دیا اور بار بار اس بات کو دہرایا کہ ہمیں ایک مسلمان ایک قوم بن کر رہنا ہے ملک کی ترقّی کے لئے مزید قربانیاں دینا ہیں بہت محنت کرنا ہے ۔آپ جتنی بھی تقریریں جتنے بھی اقوال اٹھاکر دیکھ لیں وہ سب ان ہی خدشات کو دیکھتے ہوئے کہے گئے تھے۔ قائد اعظم کو یہ امید تھی کہ یہ خدشات اپنی جگہ لیکن یہ قوم ان خدشات کو شائید بدل ڈالے۔اس کی مثال اس طرح ہے کہ دو فوجوں کی جنگ کے آغاز سے پہلے دونوں کی قوّت کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ کس کے پاس فوج زیادہ ہے سامان حرب کس کا جدید اور زیادہ ہے۔اور لوگ اندازہ لگالیتے ہیں کہ جیت کس کی ہوگی لیکن ماضی میں ایسا ہوا کہ کم فوج اور کم سامان حرب کے ہوتے ہوئے بھی اپنے عزم ،ہمّت اور جذبے سے طاقتور کو شکست دے دی گئی۔بد قسمتی سے ہم نے ان خدشات کو بدل دینے پر دھیان نہیں دیا بلکہ مولانا ابولکلام آزاد کے خدشات کو پورا کردکھایا ہم نے وہ سب نہیں کیا جو ایک اچھی طاقت ور قوم بننے کے لئے ہم سے کہا گیا تھا۔ اور قائد اعظم کو امید تھی کہ یہ قوم ان کی ہدایات پر عمل کرکے سرخرو ہوگی لیکن جب پاکستان مکمّل بن گیا تو اپنے آس پاس لوگوں کے کرتوت دیکھ کر خود قائد اعظم کو یقین ہوگیا تھا کہ مولانا صاحب کے خدشات کو یقین میں بدلنے سے اب کوئی نہیں روک سکتا۔اور آج ستّر سال گزرجانے کے بعد ہم کس جگہ کھڑے ہیں ہمارے بعد آزاد ہونے والی قومیں ہم سے امداد لینے والی قوموں کے سامنے ہم کاسہ لئے کھڑے ہیں۔ہم نے اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں تباہ کیا ہے کسی بھی قوم کی بربادی میں نہ کسی لیڈر نہ کسی حکمراں کا ہاتھ ہوتا ہے بلکہ قومیں بے حس ہوکر خود اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو برباد کرتی ہیں۔اور جس ملک میں انصاف نہ ہو اس ملک کی قسمت میں تباہی اور بربادی ہی ہوتی ہے۔یہ انصاف ضروری نہیں کہ حکومت کی بے انصاف عدالتوں سے ہی مانگا جائے بلکہ پہلے قوم خود آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کرنا سیکھے تو یہ بے انصاف عدالتیں خود بخود بدل جائیں گی۔عدل و انصاف قوم یکجا ہوکر ہی لاسکتی ہے اگر اپنی اپنی بے ایمانیوں ، بد نیتی اور چور بازاریوں پر نظر ڈالی جائے اگر ہر آدمی سنجیدگی سے سوچے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکےاور اپنا محاسبہ خود کرے کہ اس نے اب تک کتنی بے ایمانیاں کتنے جھوٹ کتنی دغابازیاں اور لوگوں کے ساتھ ناانصافیاں کی ہیں اور یہ سب جان کر اپنا ضمیر جاگ جائے تو یقین کریں کہ اپنا وجود اتنا گھناو¿نا نظر آئے گا کہ شائید اپنے آپ سے نفرت محسوس ہو لیکن یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ضمیر جاگے جب اپنی غلطیوں کا احساس ہوجائے جب دل یہ تمنّا کرنے لگے کہ اپنے رب کے حضور رو رو کر گڑ گڑاکر معافی مانگی جائے۔جب ملک کی تباہی کی بات آتی ہے تو ایک بڑی نا انصافی نظر آتی ہے۔بے انصافی کی بے شمار شکلیں ہیں یہ صرف پولیس تھانہ کچہری عدالت تک محدود نہیں ہے۔بلکہ نا انصافی کی یہ مثال اپنے گھر پھر محلّہ شہر اور پھر پورے ملک تک پھیلتی چلی جاتی ہے اور اگر ملک کے ہر گھر میں انصاف ہونے لگے تو یہ انصاف پورے ملک میں پھیل جاتا ہے اور ملک سے نا انصافی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں