پاکستان اور 8 فروری 2024ءانتخابات 498

ارسطو اور سیاست

مشہور یونانی مفکر ”ارسطو“ جس نے سب سے پہلے لفظ سیاست کا استعمال کیا کا کہنا ہے کہ انسانی قدرتی طور پر ایک سیاسی جانور ہے وہ کہتا ہے کہ سیاست ایک ماسٹر سائنس ہے جس کے ذریعے انسان اپنی زندگی اور اپنے معاشرے کو بہتر بنانے کی تگ و دو کرتا ہے۔ قدیم تھوریز کے مطابق سیاست ایک ایسا عمل ہے جس میں لوگ عمومی طور پر فیصلے کرتے ہیں، قانون سازی کرتے ہیں، طاقت کا توازن برقرار رکھنے کا عمل اختیار کرتے ہیں۔
سیاست ہمیشہ ہی سے انسانی معاشرہ میں داخل رہی ہے یعنی سیاسی نظام ایسا طریقہ کار وضع کرتا ہے جس میں فریقین ایک دوسرے سے برابری کی سطح پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی رائے کی اہمیت کو باہم تسلیم کرتے ہوئے مسائل کے حل ڈھونڈنے کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں۔ سیاست ایک قدرتی عمل یا طریقہ ہے جو معاشروں اور اس کے بعد بڑھ کر قبیلوں اور بعد از ملکوں میں رائج ہوا اس عمل کی کسی طور بھی نفی نہیں کی جاسکتی۔ انسانی معاشرے کی ابتداءہی سے کسی نہ کسی طور سیاست اس کو منظم اور مربوط رکھنے کے سلسلے میں شامل رہی۔ انسانی تہذیب کی شروعات سے لے کر موجودہ صدی تک مقامی اور عالمی طور پر سیاست ایک اہم ترین حقیقت قرار پائی۔
بالغ سیاسی روئیے اور سیاسی فکر و تدبر سیاست کے میدان میں داخل ہونے والوں کے کردار کا لازمی جزو متعین کئے گئے۔ برصغیر کی تقسیم کی تاریخ جیسا محمد علی جناح، ابوالکلام آزاد، گاندھی، جواہر لال نہرو اور بیشتر کئی سیاستدانوں کے تذکرے کرتی ہے وہیں سیاسی جوڑ توڑ کا عمل عروج پر ہونے کے باوجود سیاستدانوں کی متانت، بردباری اور شائستگی پر کسی قسم کا کوئی سوال نہیں اٹھاتی۔
تاریخ یہ بھی رقم کرتی ہے کہ سیاست میں شامل ہونے والے افراد ایک سیاسی پرورش گاہ اور تجربہ گاہ سے گزرتے ہوئے سیاسی قافلوں میں شمولیت اختیار کرنے کے اہل قرار دیئے جاتے رہے۔ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ عوام الناس میں بھی اس شعور کو اجاگر کرنے کی سعی کی گئی کہ انہیں کون ساتھ لے کر آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پاکستان کے وجود میں آنے کے فوراً بعد گورنر جنرل قائد اعظم کی رحلت نے اس نوزائیدہ مملکت کی سیاست کو ایک نیا ماحول اور نئے رنگ میں ڈھالنے میں انتہائی اہم کردار کیا۔ لیاقت علی خان سے لے کر اسکندر مرزا تک وزیر اعظم کا منصب اور دیگر سیاسی شخصیات کا باوجود سیاسی اختلافات اور اکھاڑ پچھاڑ کے یقیناً انتہائی باوقار انداز میں پاکستان کی تاریخ کے صفات میں رقم کیا جائے گا۔ اس وقت تک سیاست اخلاقیات کے دائرے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ گفت و شنید کے مہذبانہ طور طریقے نظر آتے ہیں۔ سیاسی اختلافات کو ایک خاص طرح سے برتنے کی مثالیں دکھائی دیتی ہیں۔
1970ءکی دہائی سے پاکستانی سیاست کے ماحول میں تنزلی کے آثار ظاہر ہونے کی علامات نظر آتی ہیں، اختلاف رائے سیاست کے بنیادی وصف میں سے اہم ترین ہے مگر اس اظہار رائے کے طریقوں میں یقیناً کچھ اصول لاگو ہوتے ہیں۔ 70ءکی دہائی سے لے کر موجودہ صورت حال تک یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا سیاسی اخلاقیات کے نام کا کوئی لفظ سیاسی لغت میں موجود نہیں رہا۔ ہمارے سیاستدان کم فہمی اور ناشائستگی کی تمام حدود اور قیود سے آزاد ہو چکے ہیں۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے جلسوں میں کھلی آستینوں اور چاک گریبانوں سے لے کر مسلم لیگ کے بے نظیر بھٹو کی تصویریں جہازوں سے گرانے سے لے کر شہباز شریف کے مخالفوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے اعلانات سے لے کر کنٹینر پر کھڑے عمران خان کے ”اوئے اوئے“ کے نعروں تک سیاسی فصاحت اور بلاغت کا کارواں نہ صرف رواں دواں ہیں بلکہ روز افزوں اس کی عظمت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔
سیاست کے نووارد بھی کیا کریں ایک ایسا نظام ایک ایسا معاشرہ اور ماحول جس میں سیاست میں داخلہ صرف اس بنیاد پر ہوتا ہو کہ امیدوار یا تو اقربا پروری کے دائرے میں آتا ہو یا مالی طور پر انتہائی مستحکم گھرانے سے تعلق رکھتا ہو۔ جس کے کریڈٹ پر کسی سیاسی جدوجہد کے بجائے موروثیت صف اول کی ترجیح ہو۔ ان سیاسی نوسر بازوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ سیاسی ماحول کو ایک مہذب اور عاقلانہ دائرہ کار میں رکھیں گے خود عوام کی خوش اور کم فہمی ہے۔
پچھلے 40 سالوں میں پاکستان میں جس طرح سیاسی تربیت گاہوں پر شب خون مارا گیا اس کا نتیجہ آج پوری پاکستانی قوم بھگت رہی ہے۔ تعلیمی اداروں، کالجز اور جامعات میں طلبہ کی سرگرمیوں پر پابندی نافذ کردی گئی۔ طلبہ کی یہ جماعتیں سیاست کی ابتدائی تربیت گاہیں مانی جاتی تھیں ان سے منسلک رہنے والے انتظامی امور اور سیاسی سوچ بچار کرنے کی صلاحیت سے آگاہ ہوتے تھے۔ ان سے نکلے ہوئے کئی بہترین سیاستدان آج بھی ذہنوں میں نہ صرف نقش ہیں بلکہ پاکستانی سیاست میں ان کا اہم کردار تسلیم کیا جاتا ہے۔ لوکل باڈیز یا ضلعی سیاست بھی مستقبل کے سیاستدان تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرتی تھی لوگ ایک مختصر حلقے سے حکومتی تجربہ لے کر بڑے پلیٹ فارم کی طرف قدم بڑھاتے تھے۔
کچھ روز قبل قومی اسمبلی میں سینیٹ الیکشن کے سلسلے میں ترمیمی بل سے متعلق جو مناظر پاکستان میں رہنے والوں اور پوری دنیا میں بسنے والے پاکستانیوں کی نظروں سے گزرے ہیں اس نے انہیں دہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک انتہائی گمبھیر اور ناقابل یقین صورت حال اور مایوسی کن منظر ابھر کر آیا ہے۔ 22 کروڑ عوام اپنی پریشانیوں اور مسائل کو حل کروانے کے لئے نمائندے منتخب کرکے ان ایوانوں میں بھیجتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ان کے منتخب کردہ لوگ ان کے مسائل کے حل نکالنے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اقدار اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں گے۔ ایوان کی کارروائیاں صرف اور صرف مملکت پاکستان میں بہتری لانے اور بہتر قانون سازی پر توجہ دینے کے لئے عمل میں لائی جائیں گی۔ جس قسم کا رویہ اور گفتگو کی سیاسی نمائندے فی الوقت اسمبلیوں اور میڈیا اظہار کررہے ہیں وہ پوری قوم کو اضطراب اور بے یقینی کی کیفیت سے دوچار کررہا ہے۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ وہ سیاستدان جنہوں نے پاکستان کو اپنی سیاسی بصیرت سے ایک اعلیٰ مقام پر عالمی طور پر پہنچایا کو بہت پیچھے چھوڑ کر موجودہ سیاست ایک نئے ناہموار راستے پر چل پڑی ہے جس کا مقصد محض سیاسی جماعتوں کے ذاتی مفادات، تحفظات اور نمائندگان کی کم علمی اور آئینی امور سے ناواقفیت کا تحفظ ہے۔ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ وہ مٹھی بھر سیاستدان جو اپنے آپ کو تجربہ کار اور اس میدان کا پرانا شہسوار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں بھی اس غیر سیاسی منظر میں اس خوبصورتی سے مدغم ہوئے ہیں کہ آنے والی نسلوں کا سیاست سے ایمان ہی اٹھ جائے۔
عالمی طور پر انتخابات میں مالیاتی عنصر شامل رہا ہے اس کا عمل دخل کسی نہ کسی طور پر انتخابات کے ساتھ منسلک رہا ہے۔ پاکستان میں جماعتوں کی فنڈنگ سے بڑھ کر ووٹ کی قیمت لگانے کا رواج بھی رہا ہے۔ ایوان بالا سے لے کر ایوان زیریں تک ارکان اس عمل کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے لے کر موجودہ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخابات تک قوم اس کی چشم دید گواہ رہی ہے۔ وفاداریاں تبدیل کرنا اب سیاسی ماحول میں کوئی خاص غیر اخلاقی موضوع نہیں رہا حالانکہ اس سے نقصان اٹھانے والی جماعتیں اس سے چھٹکارا پانے کی خواہش رکھنے کے باوجود اب تک کارروائی کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ پاکستان کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی 2006ءمیں میثاق جمہوریت کے دستاویز میں اس کو شامل کر چکی ہیں اور اس تشویش کا برملا اظہار کرتی رہی ہیں کہ سیاست میں شفافیت کو شامل کرنے کی سعی لازم ہے۔
2020ءگزشتہ سال کی جنوری میں موجودہ کابینہ نے انتخابی اصلاحات کرنے کے لئے ایک کمیٹی کا اعلان کیا جس کے تحت ان تمام سفارشات پر غور کیا جائے جو کہ الیکشن ایکٹ 2017ءمیں ترمیم کے لئے ضروری ہیں۔ حکومت کی جانب سے 2020ءاکتوبر کو 26 واں ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا گیا جس نے آئینی شق 226 کو تبدیل کرکے کھلے ووٹ یعنی اون بیلٹ کے ذریعے سینیٹ کا انتخاب کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت نے 23 دسمبر 2020ءکو سپریم کورٹ میں یہ ریفرنس دائر کیا تھا کہ اس طریقہ کار کو جلسہ ہونے والے سینیٹ کے انتخاب میں استعمال کیا جائے اور شفافیت کی بنیاد ڈالی جا سکے۔ اس دوران میں حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کا اجراءکردیا گیا جس کے تحت سینیٹ کے الیکشن اون بیلٹ کے ذریعے انجام دیئے جا سکتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اس آرڈیننس کو سریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے اگر سپریم کورٹ یہ تجویز دیتا ہے کہ اس طرح کا انتخابی طریقہ آئین کے ایکٹ 226 کے دائرے میں آتا تو پھر یہ آرڈیننس اپنی حیثیت برقرار رکھے گا اور نہ صرف موجودہ بلکہ مستقبل میں بھی لاگو رہے گا۔ تاحال خود الیکشن کمیشن اس ساری صورت حال پر خاموش نظر آتا ہے اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ برعکس آتا ہے تو یہ صدارتی آرڈیننس اپنی پوزیشن سے دستبردار ہو گا اور الیکشن سابقہ طریقے ہی سے انجام پائیں گے۔
حزب اختلاف نے اس بل کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار انتہائی شور شرابے کے ساتھ کیا۔ ان کا اعتراض رہا کہ حکومت نے اس بل پر بحث اور غور و خوض کرنے کا مناسب وقت نہیں دیا۔ حکومتی موقف کے مطابق اگر الیکشن کمیشن سینیٹ کے انتخاب کا شیڈول جاری کر دیتا ہے تو اس کے بعد اس قسم کی کوئی بھی کارروائی بیکار ہو گی اس اعلان کے بعد کوئی بھی نیا طریقہ کار نافذ العمل نہیں ہو سکے گا۔ قومی اسمبلی میں یہ ترمیمی بل پاس نہیں کیا جا سکا اس وقت نظریں سپریم کورٹ کی طرف ہیں اگر اوپن بیلٹ کا طریقہ کار وضع ہو جاتا ہے تو یہ یقیناً پاکستانی سیاست کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو شفافیت کا سہارا مل سکتا ہے۔
فکر انگیز معاملہ یہ ہے کہ موجودہ طور کی سیاست نئی آنے والی نسل جو کہ مستقبل میں اس مملکت خداداد کی باگ ڈور سنبھالے گی۔ خاص طور پر وہ نسل جو تعلیم یافتہ اور ترقی پذیر سوچ رکھنے کی حامل ہو گی تو اپنی طرف مائل کر سکے گی۔ پاکستان کی نئی نسل عالمی سیاست سے آگاہ ہے اس کے سامنے ایک وسیع کینوس ہو گا جس میں وہ پاکستان کو اندرونی طور پر مضبوط کرکے عالمی سطح پر مقام دلانے کی کوشش کرے گی۔ موجودہ سیاسی صورت حال کو بہتری کی طرف بڑھنا ہو گا صرف اقتدار نہیں بلکہ پاکستان کی صورت حال کی جانب توجہ دینی ہو گی۔ پوری دنیا میں جماعتیں نظام مروج ہے۔ ہر جماعت دوسرے کو جگہ دینے کی ذمہ داری ہے۔ سیاسی نظام ایسے ہی چلتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں