443

اسمارٹ فون اب ڈپریشن اور بے چینی کا اندازہ لگانے میں بھی مددگار

لندن: اب سماجی سرگرمیوں، اسمارٹ فون کے اسکرین ٹائم اور محلِ وقوع کی بدولت دماغ میں ان حصوں کی سرگرمی کو نوٹ کیا جاسکتا ہے جو جذبات و احساسات کیآماجگاہ ہوتے ہیں۔
اس کےلیے ایک دلچسپ تجربہ کیا گیا ہے جس میں فون کا ڈیٹا اور ساتھ میں فنکشنل ایم آر آئی (ایف ایمآر آئی) کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کا مقصد دماغ میں ایسی سرگرمیوں کو نوٹ کرنا ہے جو کسی طرح یاسیت، اداسی اور پریشانی سے وابستہ ہوتی ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب اسمارٹ فون ڈیٹا یعنی بیرونی عوامل کو دماغی اسکین یعنی اندرونی جسمانی عوامل سے ملاکر دیکھا گیا تو منفی کیفیات کی 80 فیصد تک درست پیشگوئی ممکن ہوئی۔
اس تحقیق کی تفصیل یوبی کیوٹس کمپیوٹنگ کی سالانہ کانفرنس میں پیش کی گئی ہے۔ پہلی مرتبہ یہ ممکن ہوا ہے کہ ایف ایمآر آئی اور اسمارٹ فون پر کی گی سرگرمیوں سے کے درمیان ربط دیکھا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف ڈارٹ ماو¿تھ سے وابستہ پی ایچ ڈی محقق، میکیو اوبوچی کہتے ہیں کہ اسمارٹ فون کے استعمال کے سادہ ترین عمل سے دماغ کے پیچیدہ افعال کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ’ یہ تو شروعات ہے جس میں ایفآیم آر آئی کے ساتھ اسمارٹ فون کی معلومات کو ملایا گیا ہے۔ توقع ہے کہ اس سے انسانی دماغ کو سمجھنے میں مدد مل سکے گی،‘ میکیو نے کہا۔
سائنس کہتی ہے کہ کوئی بھی فرد دن میں کتنی مرتبہ اور کتنی دیر تک فون استعمال کرتا ہے اس کے ذریعے سے ہم دو اہم دماغی گوشوں، ایمگڈالا اور وینٹرومیڈیئل پری فرینٹل کارٹیکس کے متعلق معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ دونوں اہم حصے ہمارے جذبات اور احساسات کا مرکز ہوتے ہیں۔
ان میں ویںٹرومیڈیئل پری فرنٹل کارٹیکس خود پر قابو رکھنے، فیصلہ کرنے اور خطرات کا جائزہ لینے میں مدد کرتا ہے۔ ایمگڈالا خطرے کی صورت میں ’لڑو یا بھاگو‘ (فائٹ اور فلائٹ) ردِ عمل میں مدد دیتا ہے۔
اس مطالعے میں شامل افراد کی معاشرتی سرگرمیوں، اسکرین پر گزارے گئے وقت اور جگہ، ورزش اور آرام وغیرہ کا دورانیہ بھی نوٹ کیا گیا۔
ماہرین کے مطابق اسمارٹ فون کسی بھی طرح ایف ایم آر آئی کی جگہ نہیں لے سکتا۔ لیکن اضافی ڈیٹا ان کے برتاو¿ پر مزید روشنی ضرور ڈال سکتا ہے۔ یعنی جن افراد نے فون پر زائد وقت گزارا، لوگوں سے ملے اور باقاعدہ ورزش کی ان کے دونوں دماغی حصوں میں مثبت سرگرمی دیکھی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فون کا ڈیٹا بہت حد تک تجربہ گاہی ثبوت کے عین مطابق دیکھا گیا۔ اس سے روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کے نفسیاتی رحجانات کی خبر لینا ممکن ہے۔ اسمارٹ فون سے مدد لینے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کے نام اور تفصیلات کے بغیر بھی ان کی نفسیاتی کیفیات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کیونکہ کئی لوگ اس معاملے میں سامنے آنے سے ڈرتے ہیں۔
اس تحقیق میں ایک سو کے قریب طلبا اور طالبات نے حصہ لیا ہے اور اس کی تفصیل پروسیڈنگز آف اے سی ایم آئی میں شائع ہوئی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں