بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 250

افغانستان، حقوق نسواں

جب سے طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا ہے اور اپنی کابینہ تشکیل دینے کے عمل سے گزر رہے ہیں، افغان خواتین کی جانب سے افغانستان میں اپنے حقوق کے لئے احتجاج سامنے آیا ہے۔ طالبان کا اپنی حکومت میں کسی خاتون کو نہ شامل کرنا اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ طالبان خواتین کو ان کے حقوق دینے میں سنجیدہ نہیں۔ دوسری جانب عالمی برادری نے طالبان کی نقل و حمل پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ طالبان نے اگر وعدے کے مطابق حقوق نسواں کا خیال نہیں رکھا تو پھر طالبان کی قائم کردہ حکومت کو تسلیم کرنا مشکل ہوگا۔ افغان خواتین بھی اپنے حقوق سے دستبراری کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں۔ اکثر خواتین کا کہنا ہے کہ طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ سے لے کر ان کے ہر جنگجو کی سوچ ایک جیسی ہے اور یہ ایک دن میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔ افغان خواتین کی ترجمان ڈاکٹر فیلوفر کا کہنا ہے کہ طالبان کے وزیر تعلیم کے بیان کے مطابق پی ایچ ڈی اور ماسٹرز ڈگری کی کوئی اہمیت نہیں۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل اور صوبہ بلخ کے دارالحکومت مزار شریف میں افغان خواتین سراپا احتجاج ہیں اور اپنے حقوق کے لئے ریلیاں نکال رہی ہیں۔ خواتین کا یہ مارچ پرامن ہے تاہم طالبان کے ارکان نے میڈیا اور خواتین کو ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کی۔ افغان خواتین اس وقت دنیا بھر میں عزم و ہمت کی علامت بن چکی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ صرف صحت، تعلیم اور امدادی تنظیموں میں کام کرنے والی خواتین کام پر جاسکتی ہیں تاہم انہیں لباس سے متعلق سخت ضابطہ اخلاق کی پیروی کرنا ہوگی اور وہ اکیلی نہیں بلکہ گھر کے کسی مرد کے ساتھ باہر نکلیں گی۔
عالمی طاقتیں طالبان کی عبوری حکومت میں خواتین کو شامل نہ کرنے کو طالبان کی انتہا پسندی سے تعبیر کررہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ طالبان اپنی کابینہ میں خواتین کو نمائندگی دیتے ہیں یا نہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں