پاکستان اور 8 فروری 2024ءانتخابات 227

افغانستان۔۔۔ ایک نیا موڑ

جلال الدین رومی کی جائے پیدائش اور محمود غزنوی اور ظہیر الدین بابر کا مدفن افغانستان اس وقت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ مورخ تاریخ کا ایک نیا اور اہم باب لکھنے کی تیاریوں میں ہیں۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی اور نیٹو کی افواج کے انخلاءکا اعلان کیا۔ ٹرمپ حکومت کا موقف یہ تھا کہ امریکہ پچھلے 20 سال سے افغانستان میں موجود ہے تقریباً 22 کھرب ڈالر افغانستان میں خرچ ہو چکے ہیں اور تقریباً ڈھائی ہزار امریکی فوجی مارے جا چکے ہیں، اس جنگ کو اب ختم ہونا چاہئے۔ اب وقت ہے کہ فوج گھر واپس آئے، امریکہ افغانستان میں 2001ءمیں داخل ہوا، گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں حملہ ہونے کے بعد، اس وقت کے صدر جارج بش جونیئر نے القاعدہ اور طالبان کو ختم کرنے کے لئے یہ فیصلہ کیا اور ساتھ ہی یہ عندیہ بھی ظاہر کیا کہ اب افغانستان میں جمہوری طرز حکومت کے قیام کے انتظامات کئے جائیں گے۔ صدر ٹرمپ کے دور میں ہونے والے دوحہ مذاکرات میں امریکہ کی تسلیم شدہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سمجھوتے نہیں ہو سکے۔ طالبان امارات اسلامی کے نفاذ پر اصرار کرتے رہے جب کہ اشرف غنی انہیں موجودہ افغان حکومت کا حصہ بننے پر مجبور کرتے رہے۔ طالبان اور افغان فوجوں کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں۔ امریکہ کے موجودہ صدر جوبائیڈن نے ٹرمپ کی پالیسی پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے فوری انخلاءکا فیصلہ کیا اور افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی شروع ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں بدامنی اور بے چینی و انتشار کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ افغان حکومت اپنے آپ کو مستحکم رکھنے میں بری طرح ناکام رہی۔ طالبان کی پیش قدمیاں بڑھتی رہیں اور آخر کار پورے افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوگیا۔ افغان فوج نہ صرف بری طرح پسپا ہوئی بلکہ کئی شہروں میں اور کئی ضلعوں میں کسی قسم کی کوئی مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی۔ گزشتہ ہفتے جوبائیڈن کے بیان کے مطابق کہ تین لاکھ تربیت یافتہ افغان فوج کے سامنے 75000 ہزار کی نفری ٹھہر نہیں سکے گی، خام خیالی ثابت ہوئی اور طالبان نے مکمل طور پر افغانستان کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔
افغانستان میں امن اور ایک مستحکم حکومت نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے لئے انتہائی اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہمیشہ افغانستان کے معاملات کے سیاسی حل کی طرف داری پر اصرار کیا ہے۔ افغانستان کے حالات کے اثرات براہ راست پاکستان پر پڑتے ہیں۔ روس اور افغانستان کی جنگ میں 2.8 ملین افغانی پناہ گزین پاکستان میں داخل ہوئے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان بارہا امریکہ سے یہ اصرار کرتا رہا ہے کہ فوجوں کا انخلاءبتدریج ہونا چاہئے تاکہ افغانستان کے تمام فریق ایک فیصلہ کرکے مخلوط حکومت قائم کرسکیں۔ روس اور افغانستان کی جنگ کے دوران بھی پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا تھا، امریکہ نے اس وقت کے مجاہدین کو پاکستان کے راستے جنگی ہتھیار مہیا کئے۔ اس میں امریکہ کے علاوہ کئی دوسرے ممالک بھی شامل ہوئے۔ روس اس جنگ میں دس سال مصروف رہا اور تقریباً پندرہ ہزار سپاہیوں کو گنوانے کے بعد 1989ءمیں اس نے پاکستان، امریکہ اور افغانستان سے معاہدہ کیا کہ وہ اس جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے۔ اس جنگ کے بعد روس انتشار کا شکار ہو کر کئی ریاستوں میں بٹ گیا اور امریکہ سپرپاور ہوگیا۔
افغانستان کے سلسلے میں امریکہ کا کردار مختلف پہلوﺅں سے متنوع رہا ہے۔ امریکہ کو بنیادی طور پر افغان مزاج سمجھنے میں ناکامی ہوئی ہے اس لئے اس نے ہزیمت کا سامنا اٹھانا پڑا ہے۔ افغان کی تاریخ ہے کہ یہاں کبھی بیرونی تسلط قائم نہیں رہ سکا۔ روس اور امریکہ کی سردجنگ کے درمیان افغانستان اس کا حصہ رہا۔ یہ کمیونزم کے خلاف جنگ ثابت ہوئی۔ افغان اسے جہاد سمجھ کر لڑے۔ 2003ءکے دوران صدر جارج بش نے اعلان کیا کہ ہم طالبان کا مکمل خاتمہ کرچکے ہیں۔ ان کا وجود افغانستان سے مٹ چکا ہے، امریکہ کو سمجھنے میں غلط ہوئی، طالبان دراصل وہی مجاہدین ہیں جو روس کے خلاف برسرپیکار ہوئے اور بعد میں آپس کی چپقلش کے نتیجہ میں گروہوں میں بٹ گئے اور ملاعمر کی سربراہی میں طالبان کہلائے۔
افغان فوج میں بھی اس نظریہ کی حمایت دکھائی دی ہے، اس وقت ورنہ طالبان خود اس پر حیرت کناں ہیں کہ اتنی آسانی سے انہیں افغانستان پر قبضے میں کامیابی کیسے ہوئی۔ افغان فوج امریکہ اور بھارت سے تربیت لینے کے باوجود اشرف غنی کی حکومت کی حفاظت کرنے کو کیوں تیار نہ ہو سکی اور اشرف غنی بھی یقینی طور پر آگاہ تھے کہ ان کی حکومت کی حیثیت سوائے امریکی آلہ کار کے اور کچھ بھی نہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنا رفقاءسمیت جلاوطنی کو ترجیح دی۔ افغانستان میں بھارت کا داخلہ امریکہ کے توسط سے ہوا ورنہ روس کے ساتھ جنگ میں بھارت نے افغانیوں کے مقابلے میں جنگ لڑی، اشرف غنی اور ان سے پہلے کی حکومتوں کا جھکاﺅ ہمیشہ بھارت کی طرف رہا۔ سابق سفارت کار ابرابر حسین نے انی کتاب ”ملا عمر سے اشرف غنی تک“ میں کئی دلچسپ شواہد پیش کئے ہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن فوجی انخلاءکے فیصلے کی وجہ سے اس وقت شدید تنقید کی زد میں ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی اپنے فیصلے کی بھرپور تائید کرتے ہیں، کبھی نہ کبھی ایسا ہونا ہی تھا کہ افغانستان کو خود اس کے اختیار میں دے دیا جائے۔ اب تاریخ اس کا تعین کرے گی کہ بائیڈن کے اس فیصلہ کے کیا منفی اور کیا مثبت نتائج نکلے۔ صدر بائیڈن اس وقت یہ ضرورت اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ افغانستان کی صورت حال کا فوجی حل نہیں بلکہ سیاسی تصفیے ہونے چاہئے تھے۔ افغانستان اس وقت مکمل طور پر طالبان کے ہاتھ میں ہے۔ طالبان کیا رویہ اختیار کرتے ہیں اس پر دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ اگر انہوں نے اپنے سابقہ طرز عمل کو برقرار رکھا اور انتہائی سخت لائحہ عمل کو اپنایا نہ صرف مخالفوں کے سلسلے میں بلکہ خواتین اور اقلیتوں کے لئے تو یہ ایک انتہائی مایوس کن اور خطرناک صورت حال ہو گی مگر اس وقت فی الحال تو دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ وہ مفاہمتی بیان جاری کررہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ طالبان کی نئی نسل ہے۔ 1996ءسے لے کر 2001ءتک وہ صرف اپنے حصار میں قید تھے مگر اب ان کا تعارف ہوا براہ راست باہر کی دنیا سے۔ عالمی رائے اور سوچ سے واقف ہوئے ہیں۔ ان کو اندرونی طور پر ایک اچھی اور مخلوط حکومت قائم کرنی ہوگی۔ بین الاقوامی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔ تبھی باہر کی دنیا مدد کو آئے گی۔ بہت ممکن ہے کہ طالبان نظریہ تو نہیں مگر طریقے بدلیں۔ طالبان کے خلاف مغربی میڈیا یقینی طور پر مصروف ہو جائے گا۔ وہ کیسی شریعت چاہتے ہیں، اس پر غور کیا جائے گا۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے عوام کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ ان کی جان و مال کی حفاظت کریں گے۔ کسی کو بھی کسی کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ خواتین سمیت سب کو کام پر واپس بلایا ہے۔ پوری دنیا اس وقت یہ نظر رکھے گی کہ یہ صرف اعلانات ہیں۔ یہ درحقیقت ان پر عمل پیرائی بھی جاری ہے۔
اس وقت خصوصی طور پر علاقائی سالمیت کے ساتھ ایک انتہائی مربوط علاقائی پالیسی کی ضرورت ہوگی۔ چین، روس، ترکی، ایران اور پاکستان کو مل کر ایک ریجنل لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ پاکستان کہہ چکا ہے کہ ہم آنے والی حکومت کو دیکھ بھال کر تسلیم کریں گے۔ پاکستان خاص طور پر علاقائی امن کے ضمن میں بارہا یاددہانی کراچکا ہے۔ اس کی خواہش ہو گی کہ افغانستان کی حدود کسی کے بھی خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہو۔ پاکستان نے اپنے بارڈر پر لگالی ہے۔ پاکستان یقینی طور پر افغانستان کے اندرونی حالات پر گہری نظر رکھے گا مگر اسے انسانی رابطے برقرار رکھنے ہوں گے۔ تجارتی آمدورفت قائم رکھنا ہوگی۔ اس کی ضرورت طالبان کو بھی ہوگی۔ پاکستان کو ایران، ترکی اور روس سے معاملات طے کرکے آگے بڑھنا چاہئے۔ چین نے اپنا سفارت خانہ بند نہیں کیا ہے۔ ترکی نیٹو میں شامل تھا مگر اس کے افغانی فریقین سے رابطے تھے۔ روس انتظار کی پالیسی اپنائے گا۔ طالبان ایک حقیقت ہیں، علاقائی فیصلے علاقے ہی میں ہونے چاہئیں مگر امریکہ کے لئے یہ علاقائی مفاہمت آسانی سے قابل قبول نہیں ہوگی، وہ ہندوستان سے پارٹنرشپ استوار کرچکا ہے۔ بائیڈن حکومت پاکستان کے اس اعلان کے باوجود کہ وہ کسی اور کا آلہ کار نہیں بنے گا۔ توقعات اور امیدیں رکھے گی۔ ماضی میں پریسلر ایکٹ اور حال میں فیٹف اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ امریکہ ہندوستان کے ساتھ مل کر علاقائی مصالحت کے خلاف پروپیگنڈا شروع کرسکتا ہے۔ چائنا نے بھی اس علاقے میں بہت سرمایہ کاری کی ہے یہ اس کے بھی مفاد میں ہو گا اگر روس اور ایران سے تعلق ہو جائے، لگتا ہے کہ یہ ایک نیا سیٹ اپ شروع ہوگا۔
عالمی برادری طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں وقت طلب کرے گی۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے عالمی برادری سے امداد کی اپیل کی ہے مگر بال اس وقت یقینی طور پر طالبان کی کورٹ میں ہے کہ وہ کسی حد تک شریعت کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہیں اور اپنے رویوں میں تبدیلی لاتے ہیں۔ آنے والے چند یوم اور ہفتے تاریخ کے ایک نئے موڑ کی گواہی دینے کے ذمہ دار ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں