بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 540

اللہ ھو اکبر

ساری زندگی پڑھتے اور کہتے رہے۔ اللہ ھو اکبر، اللہ ھو اکبر، مگر آج سمجھ آیا کہ جب بڑی بڑی سلطنتوں کے بادشاہوں کے چہرے اُترے ہوئے دیکھے۔ بڑے بڑے فلاسفر، سائنس دان، کمپیوٹر کے ماہرین اور اپنے اپنے شعبوں کے ایکسپرٹس کو ایک انجانے خوف میں مبتلا دیکھا۔ ایک ایسا خوف کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ ایک گھر میں رہنے والے ایک دوسرے سے ہاتھ نہیں ملا رہے، ہر شخص گھروں میں مقید ہو کر رہ گیا، لوگ گراسری اسٹورز میں ایسے حواس باختہ نظر آئے کہ جیسے آج کے بعد کل کچھ بھی نہیں بچے گا۔ جس کے جو ہاتھ آیا وہ اٹھا لیا۔ گراسری اسٹورز سے دالیں، آٹا، چینی، گوشت لینے والوں کی لمبی لمبی قطاریں، کئی جگہوں پر لوگ آپس میں دست و گریباں بھی ہوگئے۔ نگاہوں کے سامنے یہ سب کچھ ہوا تو روز قیامت کا منظر سامنے آگیا کہ جس کے لئے کہا گیا کہ زمین چٹیل میدان ہوگی، سورج سوا نیزے پر ہو گا اور لوگ افراتفری میں بھاگ رہے ہوں گے۔ نہ کوئی ماں اپنے بچے کو یاد رکھے گی اور نہ کوئی بیوی اپنے شوہر کو۔ سب کو اپنی فکر ہوگی۔ کیا دن ہوگا جو کہ طویل ہو جائے گا اور اللہ رب العزت اپنی طاقت اور قدرت سے سارے انسانوں کو ان کی قبروں سے نکال کھڑا کرے گا۔
اللہ سبحان و تعالیٰ کی طاقت کا چھوٹا سا ٹیلر ہی تو ہے یہ کورونا وائرس، جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لوگ ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ ریسٹورنٹ اور ہوٹل بند، شادیاں کینسل، ایئرپورٹ سے فلائٹس آپریشن معطل ہو گئیں۔ ایئر لائنز اور ہوٹلز کو اربوں ڈالرز کا نقصان۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ آفت کتنے روز انسانوں کے سروں پر منڈلاتی رہے گی۔ ابھی تو صرف ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ اس کا علاج دریافت ہونے میں تو وقت لگے گا۔ انسان نے کتنی ترقی کرلی۔ چاند اور مریخ تک پہنچ گیا۔ میلوں کے فاصلے منٹوں میں طے کر لئے۔ بڑی بڑی باتیں کرنے لگا، ایٹمی صلاحیتوں کے زور پر انسانوں کو ڈرانے لگا۔ انسانوں کو مارنے لگا۔ ظلم دن بدن انتہا سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ مذہب کے نام پر قتل عام دنیا بھر میں جاری ہے۔ انسان انسان کا دشمن ہو چکا ہے۔ احساس مر چکا ہے۔ دنیا کی محبت میں غرق ہو کر انسان اپنے سچے رشتوں کو بھلا چکا ہے اور انسانوں سے دور ہو کر انسان اپنے خدا سے بھی دور ہو گیا ہے کہ یہی فرمایا گیا ہے ہر مقدس کتاب میں کہ اللہ تک جانے کا بہترین راستہ خلق خدا سے محبت ہے، جس نے اللہ کی دن رات عبادت کی مگر انسانوں کو تکلیف دی اس کی نمازیں اس کے منہ پر مار دی جائیں گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کو ہمارے سجدوں کی ضرورت نہیں، اس کی کائنات میں اور دو جہانوں میں لاکھوں فرشتہ اور جنات اس کی عبادت میں مشغول ہیں اور صبح و شام سجدہ ریز ہیں۔ انسان سے تو اسے صرف انسانوں سے محبت کا ثبوت چاہئے، تجدید عہد وفا چاہئے۔ ہمارے پیارے نبی نے بھی اپنے آخری خطبہ میں محبت کا یہی درس تو دیا تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کو کسی دوسرے کے مذہب پر تنقید کا حق نہیں۔ ہاں انسانوں کو دین کی جانب بلاﺅ مگر دین میں سختی کی اجازت نہیں۔ ہمارا کام اپنے نبی کی طرح پیغام پہنچانا ہے۔ دلوں کو بدلنے کا اختیار اللہ سبحان و تعالیٰ کے پاس ہے۔ مگر ہم نے نرمی چھوڑ کر سختی اختیار کرلی۔ ہم جنت اور دوزخ کے ٹھیکیدار بن بیٹھے۔ اپنے سوا تمام انسانوں کو جہنمی سمجھ بیٹھے۔ ہم جو اپنے رسول کے خلیفہ تھے۔ اپنے نبی کا فرمان بھلا بیٹھے اور یوں آج ہماری دعاﺅں کا اثر ختم ہو گیا۔ نمازوں کی تاثیر چھین لی گئی۔ سجدوں کا اختیار تک چھین لیا گیا اور ہم بے سروسامان ہوگئے۔ ایک معمولی سے وائرس سے ڈر گئے۔ اللہ پر ایمان اور یقین متزلزل ہوگیا۔ جواب سیدھا سادا ہے کہ ہم بے عمل ہو گئے۔
کاش کہ ہم سچے اور دین پر عمل کرنے والے مسلمان بن جائیں اور داڑھی اور شلوار میں دین کو محدود کرنا بند کردیں۔ اپنے دلوں میں اللہ اس کے رسول اور انسانوں کی سچی محبت پیدا کرلیں اور اپنے دلوں کو ریاکاری سے پاک کرکے اپنے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کردیں اور آسمان کی جانب نگاہ کرکے بھیگی آنکھوں سے اپنے رب کو پکاریں کہ ابابیلیں آج بھی آسکتی ہیں۔ رحمت خداوندی آج بھی جوش مار رہی ہے۔ مگر اُسے کہیں سچ نظر نہیں آرہا ہے۔ انسانوں کی انسانوں سے نفرت، تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار کرچکی ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب پر اپنا رحم کرے اور ہمیں ہدایت سے نواز دے۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں