پاکستان اور 8 فروری 2024ءانتخابات 487

”امریکہ، پاکستان اور افغانستان“

امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کا آغاز پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے فوراً بعد ہی ہوا۔ اگست 1947ءمیں امریکہ نے برطانوی حکمرانوں سے آزادی اور ہندوستان سے علیحدگی کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک آزاد مملکت تسلیم کرنے والے ممالک میں شامل ہوا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے روس کے دعوت نامہ پر ترجیح دیتے ہوئے 1950ءمیں امریکہ کا دورہ کیا۔ 1954ءمیں پاکستان اور امریکہ نے ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کئے اور 1953ءسے لے کر 1961ءتک امریکہ نے 508 میلن کی فوجی امداد پاکستان کے سپرد کی۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم رہے اور امریکہ کی جانب سے اس نئی قائم حکومت کو مستحکم کرنے اور محفوظ رکھنے کے لئے اور با اختیار ہونے کے لئے عالمی امدادی اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان کی معیشت میں ترقی اور بین الطریفین تجارت پر زور دیا۔ امریکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے ممالک میں سرفہرست رہا ہے۔ سرمایہ کاری سے لے کر دہشت گردی کے خلاف، ساﺅتھ ایشیا اور خاص کر افغانستان میں باہمی تعاون سے کام کئے جاتے رہے۔ امریکہ کئی عشروں سے اقوام عالم کے درمیان سپرپاور کی حیثیت سے جانا جاتا رہا ہے۔ اس کی خارجہ پالیسیاں خاص کر ترقی پذیر ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں بے حد اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔ امریکہ کہیں بھی یہ باور کرانے میں شامل نہیں رہا کہ وہ اپنے آپ کو بالاتر سمجھتے ہوئے حکومتوں کو تسخیر اور تعمیر میں مصروف رہے گا۔
پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے اس خطے میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے اپنے تمام ہمسائیوں سے اس کے قریبی تعلقات رہے ہیں ان تعلقات میں اتار چڑھاﺅ کا عنصر بھی شامل رہا ہے افغانستان پاکستان کا قریب ترین ہمسایہ رہا ہے، سوویت دخل اندازی کے زمانے سے لے کر حال تک پاکستان ایک مخلص اور مددگار دوست کی طرح اس کے ساتھ شامل حال رہا ہے۔ افغانستان میں پچھلے 40 سالوں سے جنگ جاری ہے۔ 1979ءمیں سوویت حملے کے بعد سے افغانستان داخلی اور بیرونی جنگوں کی آماجگاہ بنا رہا ہے۔
امریکی فوج تقریباً 2 دہائیوں سے وہاں موجود ہے، 2001ءمیں امریکہ نے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد اسے اپنا نشانہ بنایا۔ 2001ءمیں امریکہ نے اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر طالبان کا زور توڑنے میں کامیابی تو حاصل کی مگر اس کے نتیجے میں کئی جہادی گروپ وجود میں آگئے اور نہ صرف امریکی فوج بلکہ افغان حکومت کے خلاف کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ 2014ءمیں جب اس مشن کو ختم کیا گیا تو براﺅن یونیورسٹی کے والٹن گروپ کے مطابق اس وقت تک 3500 فوجی مارے جا چکے تھے جس میں صرف امریکی فوجیوں کی تعداد 2400 تھی جب کہ بے گناہ شہریوں کی تعداد 43000 تھی یہ ایک کثیر تعداد تھی۔ پاکستان پر افغانستان کی صورت حال کا براہ راست اثر ہوا۔ افغانیوں کی نقل مکانی پاکستان کی طرف شروع ہوئی اور شدید معاشی مشکلات کے باوجود پاکستان نے اپنے دروازے افغان بھائیوں کے لئے کھلے رکھے اور انہیں ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا۔
امریکہ ویت نام کے بعد افغانستان میں اپنی طویل ترین جنگ لڑ رہا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ نے جہاں اپنی خارجہ پالیسی میں کئی غلط فیصلے کئے وہاں انہوں نے ایک یہ تعمیری کام ضرور انجام دیا کہ طالبان اور افغان حکومت کو مذاکرات کی میز پر یکجا کردیا۔ 12 ستمبر 2020ءمیں پہلی دفعہ افغان حکومت اور طالبان نے براہ راست مذاکرات شروع کئے۔ صدر ٹرمپ نے مئی 2021ءمیں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاءکا اعلان کیا۔ طالبان اور اشرف غنی کی حکومت کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات تک پہنچانے میں حکومت پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان کو باوجود اپنے مفاہمتی رویوں اور کوششوں کے بارہا افغان حکومت کی جانب سے شدید سردمہری کا سامنا ہوا ہے حتیٰ کہ کئی مقامات پر پاکستان کو افغانستان کی طرف سے دہشت گردی کا الزام بھی لگایا گیا۔ اشرف غنی اور ان کے نائب عبداللہ عبداللہ کا جھکاﺅ ہمیشہ سے بھارت کی طرف رہتا ہے اور وہ کوئی ایسا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جس میں وہ پاکستان پر الزام تراشی کرسکیں۔ پاکستان ایک اچھے ہمسایہ کی طرح نہ صرف افغانیوں کو پناہ دیتا رہا ہے بلکہ افغانستان میں تعلیمی، زراعی، طبی اور دیگر کئی شعبوں میں مستقل اور مکمل مالی امداد فراہم کرتا رہا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
امریکہ کے نئے صدر جوبائیڈن نے اپنی صدارت کے ابتدائی دنوں ہی میں یہ واضح کردیا تھا کہ وہ ٹرمپ کی افغان پالیسی پر نظرثانی کریں گے۔ جوبائیڈن افغانستان کے مسئلہ سے متعلق پاکستان کی کوششوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ پاکستان اور اس کی خارجہ پالیسی اور حکمت عملی ان کے لئے نئی نہیں ہے۔ بائیڈن 2008ءکے انتخاب میں پاکستان میں مبصر کی حیثت سے موجود تھے۔ امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کے ضمن میں انہیں اس وقت کی پاکستانی حکومت کی جانب سے تمغہ ہلال پاکستان سے بھی نوازا گیا۔ بحیثیت نائب امریکی صدر بائیڈن نے امریکہ اور پاکستان کے درمیان اسٹریٹجک پارٹنرشپ بھی قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ امریکہ پاک تعلقات نہ صرف کئی دہائیوں پر محیط رہے ہیں بلکہ اہم بھی۔ امریکہ اور چین کو قریب لانے میں بھی اکستان نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔ 1971ءمیں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو چین تک راہداری فراہم کی گئی جس کے نتیجے میں صدر نکسن کے دورہ چین کی راہ ہموار ہوئی۔ امریکی وزیر خارجہ کئی روز اس دوران اسلام آباد میں رہائش پذیر رہے۔ اگر پاکستان میں سہولت نہ فراہم کرتا تو امریکہ اور چین آج تک صرف دشمن ہی رہتے مگر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ 1971ءمیں سہولت حاصل کرنے والے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے 1972ءمیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو دھمکی دیدی اور اتحادی ہونے کے باوجود 1998ءمیں امریکہ نے پاکستان کو پریسلر ترمیم کا پابند کردیا۔
پاک امریکہ کے مابین اونچ نیچ کے باوجود تعلقات میں تسلسل رہا ہے۔ بہترین سفارت کاری اور مستحکم حکومت کی بنیاد اس حکمت عملی پر منحصر ہوتی ہے کہ اپنے مفادات کا کس طرح تحفظ کیا جائے۔ ممالک کے درمیان تعلقات اس پالیسی کو لے کر فروغ پاتے ہیں۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جسے اندرونی اور بیرونی محاذ پر مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ وہ اس خطے میں اپنی جغرافیائی حدود کی وجہ ایک انتہائی اہم مقام پر ہے۔ امریکہ پاکستان سے اتحاد کا خواہشمند ہے کیونکہ یہ اس کی ضرورت ہے۔ افغانستان سے فوجی انخلاءنہ صرف امریکی خواہش ہے اور ضرورت ہے بلکہ افغان حکومت اور طالبان کا سب سے بڑا مطالبہ ہے۔ پاکستان یہ ضرور چاہتا ہے کہ امریکی فوجوں کی واپسی بتدریج انجام پائے تاکہ افغانستان میں امن کی صورت کو یقینی بنایا جا سکے۔ دوہا میں 20 فروری 2020ءکو جو معاہدہ طے پایا اس کے مطابق مئی 2021ءمیں امریکی فوج واپس چلی جائے گی۔ طالبان کے قیدی رہا کر دیئے جائیں گے اور انہیں یو این کی بلیک لسٹ سے نکال دیا جائے گا مگر طالبان پر بھی یہ شرط عائد کی گئی کہ وہ دہشت گردی ختم کریں گے اور غیر ملکیوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور موجودہ افغان حکومت کے ساتھ مل کر باہمی ریاست قائم کریں گے۔ طالبان کا اعتراض یہ ہے کہ صرف اسلامی ریاست ہی قائم کی جا سکتی ہے جب کہ افغان حکومت کا مطالبہ ہے کہ یہ ایک آئینی حکومت ہے لہذا طالبان اس میں شریک ہو جائیں۔ اس معاہدہ کی توثیق جو کہ دوہا میں طے پایا روس چین اور اکستان اور یو این سے بھی کروائی گئی۔ اگر امریکہ ناکام ہوتا ہے یا یہ کام ادھورا چھوڑ کر نکلتا ہے تو اسے سخت ہزیمت اٹھانی پڑے گی۔ جوبائیڈن کی حکومت اس سلسلے میں اگر بے اعتنائی سے کام لیتی ہے تو اس کے سخت نتائج سامنے آسکتے ہیں اس لئے امریکہ جلد از جلد ایسی عبوری حکومت جس میں تمام فریقین شامل ہوں کو اجراءچاہتا ہے۔
پاکستان بھی ہمسایہ ملک میں استحکام کا شدید خواہشمند ہے مگر اشرف غنی کی حکومت اپنے مطالبات سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ کسی نہ کسی طور پر طالبان کو رضامند کروا کے موجودہ حکومت میں شامل کروا دیا جائے۔ امریکہ کی امیدیں اس وقت پاکستان کی طرف ہیں اور اصرار کررہا ہے کہ طالبان کو جنگ بندی کی طرف قائل کیا جائے ادھر طالبان اپنی شرائط منوائے بغیر اپنی جنگی کارروائیاں روکنے کو تیار نہیں، خود طالبان کی اپنی صفوں میں بھی کچھ انتشار کے اشارے ہیں ان کا ایک حصہ کسی بھی قسم کا سیاسی حل نہیں چاہتا، مذاکرات کے دوران کئی مرحلوں پر اس کی نشاندہی کی گئی۔
1990ءمیں افغان مجاہدین یا اسلامی گوریلا جنگجو جو کہ روس کے 1978-89ءکے دوران تسلط کے خلاف نبرد آزما ہوئے اور بعد میں ان کے ساتھ وہ پشتون بھی شامل ہوئے جو پاکستان میں مدرسوں میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ روسی فوجوں کے افغانستان سے انخلاءکے بعد یہ جہادی تنظیم بے حد مقبول ہوئی جس کا نظریہ شریعہ اور اسلامی قوانین کو افغانستان میں نافذ کرنا تھا۔ طالبان 1994ءمیں قندھار میں داخل ہوئے اور پھر 1996ءمیں اس تنظیم نے کابل پر قبضہ کرلیا اور اسلامک امارات کا اعلان کیا۔ دوہا میں منعقد ہونے والے پہلے اجلاس میں اس وقت کے امریکی سیکریٹری خارجہ پومپیو نے اس بات کا اعلان کیا کہ ان مذاکرات کو کئی مشکلوں کا سامنا ہو گا مگر کوشش یہ ہی کی جائے گی کہ اسے نتیجہ خیز بنایا جا سکے۔ افغان وفد کے سربراہ عبداللہ نے بھی اعتراف کیا کہ سو فیصد کامیابی کی امید ہم بھی نہیں رکھ رہے مگر جنگ بندی کی امید ضرور ہے۔ تمام معاملات پر اتفاق رائے شاید نہ انجام پا سکے۔
طالبان کے سربراہ ملا بدر اخوند نے زور دیا کہ طالبان اسلامی ریاست کو ترجیح دیں گے تاکہ تمما فریقین سکون کی زندگی گزار سکیں۔
امریکہ نے افغان امور کے نمائندے کو ان کی حیثیت پر برقرار رکھا ہے۔ زلمے خلیل زاد طالبان اور افغان حکومت دونوں سے گہرے روابط قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ پاکستانی حکومت سے بھی رابطے میں رہے ہیں۔ جنگ بندی اس وقت سب کے مفاد میں ہے۔ پاکستان کلیدی کردار ادا کررہا ہے مگر اس وقت خود پاکستان کو اپنے اور امریکہ کی نئی حکومت کے تعلقات کو ایک نئے تناظر میں دیکھنا ہے۔ بائیڈن اپنی نائب صدارت کے دور میں 2001ءمیں دوسرے ممالک میں فوجی مداخلت پر سخت اعتراض اٹھا چکے ہیں، پرانی پالیسیاں پر نظرثانی کے اعلان کے باوجود نئی امریکی انتظامیہ افغانستان سے نکلنے کو ترجیح دے گی۔ ایک بہتر اور پرسکون افغانستان نہ صرف پاکستان بلکہ پورے ساﺅتھ ایشین خے اور امریکہ کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پاکستان خطے میں ترقی اور تعمیر کی شناخت بن رہا ہے۔ خاص کر چین کے تعاون سے تیار ہونے والے سی پیک کا منصوبہ تمام فریقین کے لئے انتہائی کارآمد ہو سکتا ہے۔ افغانستان کو اپنا رویہ پاکستان کی طرف مصالحانہ رکھنا ہو گا اور دشمنوں اور دوستوں میں تفریق کرنے کا ردعمل اپنانا ہو گا۔ امریکہ کو اس وقت اس صورتحال سے نکلنے کے لئے شدید طور پر پاکستان سے امیدیں ہیں۔ پاکستانی حکومت کو اپنے مفاد مدنظر رکھتے ہوئے ایک مربوط اور انتہائی منظم خارجہ پالیسی مرتب کرنی ہوگی۔ 1981ءمیں پاکستان 3.2 ملین کی اقتصادی اور فوجی امداد کے عوض افغان جنگ میں امریکہ کا اتحادی بنا۔ 1961ءمیں صدر ایوب خان نے واشنگٹن میں مشترکہ کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کہا تھا کہ کمیونزم کے خلاف اتحاد اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب امریکہ اتحادیوں سے معاونت جاری رکھے۔ اس وقت امداد سے ہٹ کر پاکستان کو تجارتی رابطوں پر اصرار کرنا چاہئے۔ خود مختار ہونے کے بعد ہی قومیں اور حکومتیں ترقی یافتہ ہونے کی دوڑ میں شامل ہو سکتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں