بہت دیر کی مہرباں آتے آتے، حسن عسکری بھائی کو صدارتی تمغہءحسنِ کارکردگی مبارک 132

انتخابات اور جانوروں پر ظلم کی انتہا

انتخابات۔۔۔ وہ بھی پاکستان کے… عوام تو عوام ! خواص میں بھی ایک۔ عجیب اضطرار، بے چینی، آدم بیزاری،مزاج کی تلخی،غصے میں دماغی فیوز کا ا±ڑنا وغیرہ وہ تمام منفی اوصاف جو انسان کو آدمیت کے درجے سے نیچے گرا دیتے ہیں اپنے ساتھ لاتے ہیں۔خاکسار نے 1970 سے لے کر 2018 کے موجودہ انتخابات میں ایک چیز تواتر سے محسوس کی وہ ہے عدم برداشت۔ سیاسی کارکنوں کی تربیت کا کوئی انتظام سرے سے موجود ہی نہیں اور یہ شاید کبھی تھا بھی نہیں۔ زندہ یا مردہ باد کہہ دینا ہی سیاسی کارکن کی ڈیوٹی ہے اور شاید یہی اس کی تربیت بھی۔یاد رکھنے کی بات ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے لیڈر پارٹی کے عام کارکنوں کے بغیر صفر ہوتے ہیں۔جہاں بندر بانٹ کا کوئی آسرا ہو وہاں صرف پارٹی کے ” بڑے “ یا ا±ن کے ” جی حضوریے“ ہی جا سکتے یا جاتے ہیں۔ جلاﺅ گھیراﺅ، دھرنے، ریلیوں اورجعلی علامتی بھوک ہڑتال، آنسو گیس اور پولیس کی لاٹھیاں کھانے کے موقع پر پارٹی کارکنان کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہر دور میں اِن کو کوئی حیثیت اور کوئی مقام نہیں دیا گیا۔پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کے مرکزی کرتے دھرتے اِن سیاسی کارکنوں کو ” مناسب “ فاصلے پر رکھتے ہیں۔ یہ سیاسی ورکر خلا میں نہیں رہتے ہمارے اور آپ کے آس پاس ہی ہوتے ہیں۔ اِن کے ذہن میں کیا چل رہا ہوتا ہے ہم نے کبھی جاننے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی البتہ وہ اپنے ” لیڈروں“ کے ذہن سے بہت اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں۔لہٰذا انتخابات کے موقع پر یہ اپنی پارٹی کے کرتے دھرتوں کے ذہن سے سوچتے ہیں۔پھر اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں: پہلے تو تحریکِ انصاف کے عمران خان نے کسی جگہ اپنی تقریر کے بہاﺅ میں نون لیگ والوں کوگدھا کہہ دیا۔انتخابی گرما گرمی میں ایسا ہو جاتا ہے لیکن آپ کارکنوں کو دیکھئے انہوں نے اِس بات کو اور طرح سے دیکھا اور کسی گدھے کو پکڑ کر ا±س پر ’ حریف ‘ کا نام لکھ دیا اور اپنی پارٹی کی ریلی میں بے زبان کا مار مار کر برا حال کر دیا۔ کیا اس ریلی میں ایک بھی ” انسان “ موجود نہیں تھا؟ کسی ایک شخص نے بھی آگے بڑھ کر بے زبان پر تشدد کرنے والے اپنی پارٹی کے کارکنان کو اِس انسانیت سوز اور قبیح اقدام سے منع نہیں کیا۔اِن عقل کے اندھوں کی عقل گھاس چرنے گئی ہو گی…اس غریب گدھے کا کسی بھی سیاسی پارٹی سے بھلا کیا تعلق؟بے زبان پر اتنا تشدد …اللہ کی پناہ! مجال ہے کہ پی ٹی آئی کی مقامی قیادت نے کوئی ایک بھی ذمہ داری کا بیان دیا ہو ! کوئی انکوائری کروائی ہو کیوں کہ بہرحال کسی لیڈر پر یقیناََ ذمہ داری آتی ہے جو ا±س ریلی کی قیادت کر رہا ہو گا۔ گویا یہ واقعہ ہوا ہی نہیں ! وہ تو بھلا ہو کہ ایک رحم دل ”انسان “کا جِس نے جانوروں پر تشدد کے خلاف معروف این جی او ” عائشہ چندریگر فاﺅنڈیشن“ کو اطلاع کی کہ گلشنِ اقبال میں فلاں جگہ ایک بری طرح زخمی گدھا زندگی اور موت کی کشمکش میں تڑپ رہا ہے۔ فاﺅنڈیشن کی نمائندہ خاتون کا کہنا تھا کہ اس جانور کی حالت بہت خراب تھی۔ مولانا عبد الستار ایدھی نے بے چارے، کمزور، لاچار، بے آسرا اور معاشرے سے دھتکارے ہوئے انسانوں کے ساتھ ساتھ سڑکوں ، گلیوں میں زخموں سے چ±ور اونٹ، گدھے، گھوڑے، کتے، بلے، مرغے اور دیگر جانور انسانیت کے نام پر قائم کردہ جانوروں کے شفا خانے پہنچانے کے بہترین انتظامات کر رکھے تھے جن کا میں خود چشم دید گواہ ہوں۔ میں بات کو بیچ میں روک کر ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔ کیا پاکستان میں ’ محکمہ انسدادِ بے رحمیِ جانوراں ‘ اور ا±س سے متعلق قوانین ہیں؟ کیا یہ کام بھی ستار ایدھی ٹرسٹ یا کوئی اور ایسی این جی او ہی کرے؟ ڈوب مرنے کا مقام ہے اس نام نہاد انسدادِ بے رحمیِ جانوراں کا ! ہڈ حرامی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ! کیا اب یہ کام بھی چیف جسٹس آف پاکستان کریں گے ! ذرابھی شرم و حیا ہو تو یہ تنخواہیں حرام کرنے والے اب نیند سے بیدار ہو جائیں۔ اسی طرح قومی وطن پارٹی کے پرچم والے دو نوجوانوں نے بنوں میں ایک کتے کو مخالف پارٹی کے پرچم میں لپیٹ کر پستول سے کئی گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔اس انسانیت سوز حرکت کو سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ کر دیا۔ظاہر ہے پاکستان میں صحیح الدماغ بھی بستے ہیں، بہت سخت ردِ عمل آیا اور پولیس نے 18 گھنٹے بعد ا±س بے زبان کے قاتلو ں کو گرفتار کر لیا۔اِن میں سے ایک نوجوان کا اقبالی بیان


پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ شدید ہیجان زدہ، غصہ سے لبریز، برداشت سے عاری، تعلیم سے محروم سیاسی کا رکن بھی آخر کار انسان ہیں یہ صرف سیاسی پارٹیوں میں دیہاڑی دار نہیں ! عزت دار ہیں ! اِس کتے کو مارنے والا نوجوان صرف چھٹی جماعت تک اسکول جا سکا ! ا±س کے ذہن میں ابھی تک غلیل سے چڑیا مارنا ہی مردانہ کھیل ہے۔ کوئی تو ہو جو ایسے سیاسی کارکنوں کی صحیح ذہنی تربیت کر سکے؟ اب ہم مزدوروں، سیاسی کارکنوں کے لئے دوسرا ” احسان دانش “ کہاں سے لائیں؟ یہ ا نتخابات ایسے وقت میں ہوئے کہ ملک میں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے باتیں اور خبریں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں۔اور ایسی خبر کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے گویا …حالاں کہ ایسا تمام انتخابات میں ہوتا رہا ہے۔
کسی ایک الیکشن میں میرے سامنے بھی ایک کتے کی مار پیٹ ہو رہی تھی میں نے پہل کر کے اِس ظلم کے خلاف بات نہیں بلکہ ہاتھ ا±ٹھایا۔اس لئے کہ میں بھی آپ کی طرح جس ماحول میں رہتا ہوں وہاں ’ بات ‘ سے زیادہ ’ ہاتھ ‘ کی زبان موثر ہوتی ہے۔دو چار افراد میری دیکھا دیکھی میرے ساتھ ہو گئے کچھ دوسری طرف۔کتے کو چھوڑ اب میری دھنائی ہوئی لیکن میں نے بھی جہاں تک مجھ سے ہوا اس ظلم کے خلاف کیا۔ اب اس شدید گھٹن اور تعفن زدہ ماحول میں کیا ، کیا جائے! چند تجاویز:سب سے پہلے کارکنوں کی تربیت کے لئے سیاسی پارٹیوں کی قیادت کوئی نظام تشکیل دے۔تمام پارٹیوں کے پاس ماشائ اللہ ایسے درجنوں افراد ہیں جو یہ کام احسن طریقے سے کر اور کروا سکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ لیڈر کو تہذیب کے دائرے میں رہ کر مخالفانہ تقریرکرنا چاہیے۔ ز بان قابو میں رکھنا ، وہ بھی جوشِ خطابت میں، آسان کام نہیں لیکن یہ کارکنوں کی تربیت کا اہم ترین حصہ ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کا اصل سرمایا ا±س کے کارکن ہوتے ہیں۔یہ اگر صرف صبر اور برداشت سیکھ لیں تو سمجھیں کہ وہ پارٹی کچھ دنوں میں عوامی مقبولیت حاصل کر سکتی ہے۔ ہم تمام قومی سیاسی پارٹیوں کی مرکزی قیادت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ سب سے اول ترجیح اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت کو دیں۔سیاسی کارکن میں نظم و ضبط اور برداشت آجائے تو ایسا کارکن پارٹی کا چلتا پھرتا اشتہار ہوتا ہے۔ اس سے ملنے جلنے والے غیر محسوس طریقے سے بتدریج متاثر ضرور ہوتے ہیں۔ آج کل ’ تبدیلی آئی ہے‘ کا بہت چرچا ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے اگر مندر جہ بالا تجاویز پر عمل کر لیا گیا تو یہ اصل تبدیلی آئے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں