Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 357

انسانیت

دنیا کے تمام مذاہب میں اوّلین ترجیح انسانیت کو دی گئی ہے۔ہر مذہب سب سے پہلے انسانیت کا درس دیتا ہے اسلام میں ہماری مقدّس کتاب انسانیت کی ہی تعلیم دیتی ہے اور زیادہ تر آیات انسانیت کا ہی احاطہ کرتی نظر آتی ہیں۔جگہ جگہ اس بات کو کئی مرتبہ دہرایا گیا ہے کہ یتیموں ،بیواوں ،غریبوں ، سوالیوں اور مسافروں کی مدد کرو پریشان لوگوں کے کام آو¿ پر پڑوسیوں کے حقوق سے آگاہ کیا ہے کہ سب سے پہلے اپنے پڑوس میں دیکھو کہ کوئی بھوکا نا سوئے ۔ خاص طور پر حج پر جانے والے حضرات کے لئے حکم ہے کہ حج پر جانے سے پہلے دیکھ لو کہ پڑوسیوں میں رشتے داروں میں کوئی بھوکا نا سورہا ہو۔سر پر کوئی قرض کا بوجھ نا ہو اگر قرض لیا ہوا ہے تو حج کرنے سے پہلے اپنا قرض اتارا جائے ورنہ حج نہیں ہوتا ان تمام چیزوں کو دیکھ بھال کر حج پر جائیں تو قبولیت ہے ورنہ سراسر دکھاوہ ہے اور یہاں یہ عالم ہے کہ حج بھی کریڈٹ کارڈ پر ہورہے ہیں۔جب کہ حج اگر قرضہ لے کر کیا جائے تو حج نہیں ہوتا البتّہ یہ ضرور ہے کہ اگر کوئی شخص حج کرنے کا خواہش مند ہے لیکن اتنی استطاعت نہیں ہے تو کوئی صاحب حیثیت اسے حج کراسکتا ہے جس کا ثواب دونوں کو ہی ملتا ہے۔لیکن حج اگر قرضہ لے کر کیا جائے تو نہیں ہوتا۔ لیکن دنیا کو اور اس سے زیادہ اپنی ذات کو بے وقوف بنانے کے لئے بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ نیت دیکھنی چاہئے نیت حج کی ہے تو حج ہوجاتا ہے چاہے کریڈٹ کارڈ پر ہی کرنے جارہا ہو۔پھر تو چوری کا پیسہ حرام کمائی ،رشوت ہر طرح کے پیسے سے حج کرنا جائز ہوگیا یہ نہیں سوچا جاتا کہ جن باتوں کا حکم دیا گیا ہے اور نیکی کے لئے بھی جو اصول وضع کردیا گیا ہے اس کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔بہرحال بات ہورہی تھی تعلیم انسانیت کی جو کہ تمام مذاہب میں موجود ہے ،لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان تعلیمات پر عمل کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔لفّاظی تو بہت ہے۔شائید آپ کے ذہن میں آئے کہ میں بھی لفّاظی ہی کررہا ہوں بلا شبہ آپ کو یہ سوچنے کا حق ہے میری ہی طرح بے شمار لوگ اس طرح کی لفّاظی تو بہت کرتے ہیں لیکن عمل میں صفر ہیں۔یہ لفّاظی سیلاب کی طرح آتی ہے اور عمل کو بہاکر لے جاتی ہے۔یوں تو نیک کام کرنے والے بے شمار نظر آتے ہیں۔آئے دن اخباروں میں تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں کہ کسی غریب عورت یا آدمی کو آٹے کا تھیلا دیا جارہا ہے اور اس تھیلے کو حوالے کرتے وقت چار آدمی اس کو ہاتھ لگاتے ہوئے تصویر کھنچوارہے ہیں۔اللہ اکبر لعنت ہے ایسےلوگوں پر اگر کوئی انسان نیکی کرتا ہے یا عبادت کرتا ہے تو کسی کو نا تو اس سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ وہ عبادت کرتا ہے یا نہیں اور نا ہی نیکی کرنے اور عبادت کرنے والے کو کو ئی ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔یہ خالص بندے اور خدا کے درمیان معاملات ہیں اور جو شخص اپنی نیکیوں کا ثبوت لئے پھرتا ہے تو اس نے اپنی ساری نیکیاں ضائع کردیں۔اس کے باوجود ابھی بھی دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں۔اور اللہ تعالی’ اپنی رحمت سے ان کے دلوں میں ایمان اور رحم دلی ڈالتا ہے کہ یہ انسانیت کی فلاح کے لئے بیڑہ اٹھاتے ہیں۔ یہ ہر دور میں ہوتے ہیں اور ہر دور میں قیامت تک رہیں گے۔ان ہی کی وجہ سے دنیا میں انسانیت باقی ہے ان کے پاس اگر وسائل ہوتے ہیں تو یہ خود ہی اپنے وسائل سے لوگوں کی خدمت کرتے ہیں اور اگر وسائل نا ہوں اور خدمت کا جذبہ موجود ہے تو وسائل مہیّا کرنے کے لئے اور انسانیت کی خد مت کے لئے اپنی تمام زندگی سخت جدو جہد میں گزاردیتے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب تمام مذاہب میں انسانیت کا درس موجود ہے تو پھر ہر اس شخص کو جو کسی بھی مذہب کو مانتا ہے انسان دوست ہونا چاہئے اگر نہیں ہے تو پھر اس نے اپنے اوپر مذہب کا صرف لیبل لگایا ہوا ہے۔ جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے خد مت کو اپنا راستہ بنایا اور اس مشن کو آگے بڑھایا۔زمانہ جاہلیت سے زمانہ علمیت تک اور پھر ئ آج کے دور میں جب زمانہ دوبارہ علمیت سے جاہلیت کی طرف رواں دواں ہے انسانیت کی خدمت کرنے والوں کا وجود ہر دور میں قائم رہا اور ابھی تک ہے۔اگر ایسے محسن انسانیت نا ہوتے تو یہ دنیا کسی جہنّم سے کم نا ہوتی حالانکہ بہت سے شیطان نما انسانوں نے اس دنیا کو جہنّم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔اس دنیا میں دو طرح کے جاندار ہیں جاندار اس لئے کہا کہ کوئی انسان اپنے آپ کو جانور ماننے کو تیّار نہیں ہے حالانکہ فی زمانہ حرکتیں جانوروں سے بھی بد تر ہیں۔بہرحال ایک تو وہ ہوتے ہیں جن کا کام صرف کھانا پینا اور سونا ہوتا ہے ہم انہیں جانور کے نا م سے جانتے ہیں دوسرے ہم جو اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہتے ہیں۔یہ اعزاز بھی اللہ تعالی’ کی طر ف سے ہے جب کہ بے شمار لوگ اس کے قابل نہیں ہیں۔حضرت انسان یعنی اشرف المخلوقات میں بھی بے شمار لوگ ایسے ہیں جن کا کام کھانا پینا اور سونا ہے یہ لوگ ہر قسم کے احساس سے عاری ہیں صرف اپنی ذات کے لئے زندہ ہیں یعنی ان کی تمام زندگی پہلے والے جاندار کی طرح ہے لیکن ظاہر ہے ان سے اشرف المخلوقات کا اعزاز تو چھینا نہیں جاسکتا ہے لیکن جانور سے تشبیہ ضرور دی جاسکتی ہے اور قابل عزّت اور قابل تحسین ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے وسائل سے اور اپنے وقت سے کچھ حصّہ نکال کر انسانیت کی بھلائی میں خرچ کیا اور کچھ نے تو پوری زندگی خدمت کے لئے وقف کردی یہ ایسے مقام کی بات ہے جہاں ہر شخص نہیں پہونچ سکتا۔میں خدمت خلق کرنے والے ایسے افراد کی بات کررہا ہوں۔جن کو نا تو نام و نمود کی خواہش ہوتی ہے اور نا ہی پیسے کی لالچ اور نا ہی اپنی تشہیر کی فکر ورنہ ڈھونگ کرنے والے تو بہت ہیں دوسروں کا حق مار کر غلط کام کرکے پیسے اکھٹّا کرنے والے اور خدائی خدمت گزار کا دعوی’ کرنے والے ہر جگہ ملیں گے۔کچھ نام ایسے بھی ہیں جنہوں نے وہ مثال قائم کی کہ شائید اس کا نعم البدل اب ممکن نا ہو مثلا” ایدھی فاو¿نڈیشن کے بانی عبد الستّار ایدھی شائید اس صدی میں اس جیسا شخص دوبارہ پیدا نا ہو۔ان کی خدمت ان کے تمام کام کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں وہ شخص ساری زندگی بغیر کسی لالچ کے انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے اس دنیا سے چلا گیا کچھ بد بختوں نے اس پر بھی کئی تہمتیں لگائیں اسے بھی نا چھوڑا ۔لیکن وہ صرف مسکراتا رہا اور ایک دن سکون کی نیند سوگیا۔بے شک اللہ تعالی’ ان کے لئے جنّت میں بہترین مقام عطا کرے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں