Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 395

انسانی فطرت

اللہ تعالیٰ نے جب انسان بنایا تو اس میں جو صفات رکھی گئی تھیں وہی صفات آگے چل کر اس کی نسلوں میں اسی طرح قائم رہیں یعنی ہر انسان کا دماغ اس کی سوچ اور اس کی فطرت بالکل ایک جیسی ہے۔ صرف ہر انسان کے رویے میں فرق ہے اس کے کردار میں فرق آجاتا ہے اور اس کی سوچ اس کی حرکات اور اس کا ہر عمل وقت حالات ماحول اس کی تعلیم اس کی تربیت کی وجہ سے دوسرے سے جدا ہو جاتا ہے۔ ایک بچ پاکستان میں پیدا ہوتا ہے اور ایک امریکہ میں، وہ دونوں بالکل ایک جیسے ہیں، جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے جائیں گے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے جائیں گے، ان میں فرق پیدا ہوگا۔ ماحول، تعلیم، حالات میں فرق کی وجہ سے ان کے کردار ان کی سوچ اور ان کے ہر عمل میں ایک دوسرے سے فرق پیدا ہوگا۔ فرض کریں ایک ہی وقت میں پیدا ہونے والے ان دونوں بچوں کو یعنی پاکستان میں پیدا ہونے والے اور امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں کے مقامات ایک دوسرے سے بدل دیئے جائیں۔ پاکستان والے کو امریکہ اور امریکہ والے کو پاکستان بھیج دیا جائے تو وہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف تو ہوں گے لیکن اپنی اپنی جگہ انہوں نے جو بننا تھا وہ نہیں بنیں گے۔ اچھائی اور برائی، جرم اور ایمان داری ہر بات کی ضد انسان کی فطرت میں ہے۔ چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں پیدا ہوا ہو۔ ہماری تربیت شروع سے اس طرح ہوئی کہ انگریز ہمارا آقا ہے لہذا ہمارے آزاد ہو جانے کے بعد بھی وہ آقا ہی رہا۔ ہمارے بزرگ یہ سوچ نسل در نسل منتقل کرتے رہے۔ بہرحال اصل بات کی طرف آتے ہیں۔
ہمارا ملک شروع ہی سے غریب رہا اور حکومت میں آنے والوں نے اسے غریب ہی رکھا۔ ہمارے ملک کی ایک بڑی آبادی احساس کمتری کا شکار رہی جب وہ یوروپ اور امریکہ کے بارے میں سنتے تھے اور ایک وقت آیا جب وہ ٹی وی انٹرنیٹ کے ذریعے ساری اطلاعات وصول کرتے رہے۔ امیر ممالک کی چکاچوند سڑکیں، عمارتیں لوگوں کے ٹھاٹ باٹ ان کی محرومی کو اور بڑھا دیتے تھے۔ اپنے ملک سے یوروپ امریکہ اور دوسرے ممالک جانے کا موقعہ ملا۔ ان جانے والوں میں ہر طرح کے لوگ تھے۔ امیر طبقہ بھی تھا، متوسط بھی اور غریب بھی جس کو موقعہ ملا وہ باہر جا کر رہ گیا۔ بے شمار لوگ اپنی اصلیت بھلا بیٹھے۔ ہمارے ملک میں مہمان داری کچھ اس طرح سے ہے جو کہ کسی اور قوم میں نہیں ہے۔ جب مغربی ممالک سے کوئی پاکستان کچھ عرصے رہ کر پاکستان جاتا تھا تو اس کی بڑی آﺅ بھگت ہوتی تھی جس سے اس کا دماغ خراب ہو جاتا تھا اور وہ اپنے آپ کو ان سب سے برتر محسوس کرنے لگتا تھا۔ نتیجے میں وہ مغرب کی اچھائیاں بڑھ چڑھ کر بیان کرتا تھا اور خرابیاں چھپا لیتا تھا کہ خرابیاں بتائے گا تو شاید اس کی بے عزتی ہو گی۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ پاکستان میں جب کوئی انہونا واقعہ ہو جائے یا احتجاج وغیرہ توڑ پھوڑ ہو تو یہ مغرب زدہ لوگ فوراً میدان میں اتر آتے ہیں اور اپنے ملک کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں اور مغرب کی اچھائیوں کے قلابے ملانے لگتے ہیں۔ وہ مغرب کو بہت زیادہ تہذیب یافتہ مغربی قوم کو بہت زیادہ ایمان دار خوش اخلاق اور بہترین انسان کے طور پر اور یہاں کے نظام کو بہت خوبصورت بنا کر پیش کرتے ہیں جب کہ حالات بالکل مختلف ہیں۔ وہی بات کہ انسانی فطرت سب جگہ ایک جیسی ہے، صرف وقت اور حالات کے ہاتھوں انسان مجبور ہے۔ مغرب میں پیسہ بہت ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بہت سپورٹ کیا جاتا ہے، پولیس کی نفری ضرورت سے زیادہ ہے، قانون سخت ہے تو لوگوں کو مجبور بھی کیا ہوا ہے اس کے باوجود جب جہاں اور جس کو موقعہ مل جائے وہ کام دکھا دیتا ہے، مغرب میں ریپ بے انتہا ہوتے ہیں، چوریاں ڈکیتیاں عام ہیں، مار پٹائی، لڑائی جھگڑے سب کچھ ہمارے ملک سے زیادہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لوگ جب ان ممالک میں آتے ہیں تو وہ ایک خول میں بند رہتے ہیں۔ وہ ایک حصار کے اندر زندگی گزارتے ہیں جاب پر جانا اور گھر آ جانا، ملنا جلنا، صرف اپنے ملک کے لوگوں سے خبریں پاکستانی چینلوں پر دیکھنا، تیس تیس سال گزر جاتے ہیں جس شہر میں رہتے ہیں اسی کو پورا نہیں دیکھ پاتے۔ ہر شہر کے کچھ حصے ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، کچرے کے انبار، ٹوٹی کھڑکیوں والے فلیٹ سب نظر آتے ہیں۔ اگر ہمارے لوگ یہ سب دیکھتے بھی ہیں، جانتے بھی ہیں تو اسے بیان کرتے ہوئے سبکی محسوس کرتے ہیں، صرف روشن جگہوں کو دکھاتے ہیں، تاریکی کو تاریکی میں رہنے دیتے ہیں۔
پچھلے دنوں کورونا وائرس کے سلسلے میں خبر آئی کہ پاکستان میں ماسک اور دوسری اشیا مہنگی مل رہی ہیں، سوشل میڈیا پر قیامت آگئی، پاکستانیوں کو برا بھلا، گالیاں دینا اور مغرب کو دعائیں دینا شروع ہو گیا۔ دوسرے دن ہی پتہ چلا یوروپ امریکہ سب جگہ یہی ہو رہا ہے، ماسک اور ہاتھوں کا لوش چار سے دس گنا زیادہ قیمت پر بیچا جا رہا ہے، گورے اسٹوروں سے سامان خرید کر جمع کررہے ہیں اور آن لائن مہنگا بیچ رہے ہیں۔ اسٹوروں میں سامان کی چھینا جھپٹی مارکٹائی لڑائی جھگڑے سب ہوئے۔ لوگ ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے۔ لندن میں سامان ختم ہو گیا تو لوگوں نے اسٹوروں میں توڑ پھوڑ کی، بسوں کے شیشے توڑے اور آگ لگا دی اور میں فیس بک پر بڑھ رہا تھا چند غلام زدہ ذہنیت کے لوگ پوسٹ لگا رہے تھے کہ امریکہ اور یوروپ کے لوگ نظم و ضبط اور ایمان داری میں ہم سے بہت آگے ہیں اور میں حیران تھا کہ یہ لوگ خبریں دیکھتے ہوئے بھی اپنے ملک کو صرف بُرا کہنے کے لئے آقاﺅں کی واہ واہ کررہے ہیں۔ اس قوم کو قانون نے اتنا باندھ کر رکھا ہوا ہے کہ یہ سیدھے رہنے پر مجبور ہیں اس کے باوجود موقعہ ملے تو ہم سے دس گنا زیادہ خرابیوں میں ملوث ہوں گے۔
ایک مثال نیویارک کی ہے کچھ سال پہلے پورے نیویارک کی لائٹ چلی گئی، وہ لوٹ مار ہوئی ہے کہ دنیا حیران ہو گئی، اچھے خاصے سوٹ بوٹ میں لوگ جن میں خواتین بھی شامل تھیں، اسٹوروں سے سامان لے لے کر بھاگ رہے تھے اور لوگ ویڈیو بنا رہے تھے، اسی طرح لاس اینجلس میں ہوا سڑکیں پولیس سے بھری ہوتی ہیں، قدم قدم پر کیمرے لگے ہیں، چھوٹی دکان سے بڑے اسٹوروں تک سب جگہ کیمرے نصب ہیں ایسی ایمان دار قوم کے لئے اتنے انتظامات کی کیا ضرورت ہے۔ ہر اسٹور میں سیکیورٹی گارڈ کھڑے ہوتے ہیں اس کے باوجود اسٹور بھی لوٹے جاتے ہیں اور بینک بھی لٹ جاتے ہیں۔ ہر جمعہ اور ہفتے کی رات کو کئی شہروں میں دو تین قتل اور فائرنگ کے واقعات معمول کی بات ہے۔ پیٹ بھر کھانے کو ملتا ہو تو چھوٹی موٹی چوریوں کی وارداتیں کم ہوتی ہیں لیکن ذہن بڑی واردارتوں کی طرف جاتا ہے۔ ہماری طرح مغرب میں بھی چوری، بے ایمانی، قتل، ریپ، گداگری سب کچھ موجود ہے۔ ذرا گھوم پھر کر آنکھیں کھول کر اور مقامی خبروں کو سننے اور دیکھنے کی ضرورت ہے اور جو جان کر بھی جھوٹ کا سہارا لے کر صرف اپنے ملک کو بُرا کہتے ہیں وہ منافق ہے، بہتر بڑے منافق۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں