Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 584

انوکھی سازش

ایک ایسا شخص جو ساری زندگی صرف دولت جمع کرتا ہے اور اس دولت کو جمع کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتاہے بہت بے رحم بھی ہو سکتا ہے۔ ہر ناجائز طریقہ بھی استعمال کرتا ہے اور بہت ساری جائیداد اور بینک بیلنس بنانے کے بعد مر جاتا ہے۔ اس کا اس معاشرے پر قوم پر ملک پر کوئی حصہ نہیں ہوتا اس نے ساری زندگی بے ایمانی کی دولت جمع کرنے کھانے پینے اور سونے کے علاوہ کوئی ایسا کام نہیں کیا جس میں انسانیت کی بھلائی ہو بلکہ انسانیت کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔ اس کے مرنے کے بعد اس کی اولادیں بھی وہی کچھ کرتی ہیں۔ باپ کی جمع کی ہوئی دولت کو بے دریغ غلط کاموں میں اڑانا، کھانا، پینا، سو جانا ایسے لوگوں کا مر جانے کے بعد کوئی نام لیوا بھی نہیں ہوتا۔ یہ لوگ زندگی میں ایک جاندار کی مانند جیتے تو ہیں لیکن انسان نہیں کہلائے جا سکتے کیوں کہ انسان تو وہ ہوتا ہے کہ جو اس معاشرے میں ملک میں گھر یا خاندان میں اپنا حصہ ڈالے اپنے آپ کو ان تمام چیزوں میں محسوس کرے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ حق و حلال کی روزی کمانے والا بہت مطمئن زندگی گزارتا ہے جب کہ بدعنوان شخص جو کہ ایک جیب کترے سے لے کر کسی ملک پر ناجائز قبضہ کرنے والا ہو کبھی خوش نہیں رہتا اپنے دل و دماغ اور ضمیر پر ایک بوجھ لئے پھرتا ہے اور اس بوجھ کو ایک عام شریف شہری سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ ایسے لوگوں کو خوش ہی سمجھتا ہے ہم جس ملک کی بے انتہا عزت اور قدر کرتے ہیں صرف مقدس مقامات کی وجہ سے ورنہ وہاں کے موجودہ حکمرانوں کی تاریخ لٹیروں کے سوا کچھ نہیں ہے یہ غاصب آل سعود وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس مقدس سرزمین پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ دنیا بھر کی دولت اور ایسی دولت جس کی بدولت پوری دنیا کو اپنے سامنے جھکالیں لیکن بے ایمان سے حاصل کی ہوئی زمین اور اس میں موجود دولت کے باوجود اور اپنی مجرمانہ ذہنیت کے باعث ذلت اور رسوائی ان کا مقدر ہے جس کی ابتداءہو چکی ہے۔ حال ہی میں امریکہ کے صدر نے میں انداز میں ان کو دھمکی دی ہے اور جس طرح دنیا کے سامنے ذلیل کیا ہے وہ پوری امت مسلمہ کے لئے ایک سبق ہے لیکن جس قوم نے زندگی میں کبھی کوئی سبق نہیں سیکھا اس کے لئے یہ ذلف بھی معمولی بات ہے۔ جذبات نعروں سے تو ہم پوری دنیا کو تباہ کردیں۔ تمام غیر مسلموں کو نیست و نابود کردیں لیکن عملی طور پر ہر چیز بہت مختلف ہے۔ تیل مہیا کرنے والے تمام مسلمان ممالک اور ان کے حکمران اس دولت مند شخص کے بیٹوں کی طرح ہیں جس کی دولت یہ بیٹے صرف عیاشیوں میں خرچ کرتے ہیں۔ کوئی تعمیری کام کوئی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے مثبت راستے کے لئے کچھ نہیں کرتے ایسے ممالک جن کے پاس دولت کی کوئی کمی نہیں ہے دنیا کی ہر چیز خود بنا سکتے ہیں لیکن ایک سوئی کے لئے بھی دوسروں کے محتاج ہیں۔ جس دن یہ تیل کی دولت چلی گئی یہ دوبارہ پتھر کے زمانے میں چلے جائیں گے۔ قافلے لوٹنا اور بحری قذاقی کرنے کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی ہنر نہیں ہے۔ یا پھر کراچی کے ساحل پر تفریح کے لئے آنے والوں کو اونٹ کی سیر کرائیں گے۔ گزشتہ آٹھ سو سال سے ہم صرف اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ داڑھی سنت ہے یا فرض، پائنچے اوپر ہوں یا نیچے، حجاب پہننا چاہئے یا نہیں، دوسرے فرقے اور مسلک والا کافر ہے یا مشرک ہے یا پھر دہریہ۔ فرقوں اور مسلکوں میں الجھی ہو قوم اور کچھ نہیں کرنا چاہتی ہم سے پہلے آنے والی نسلیں اور موجودہ نسلوں میں ابھی تک ان تمام باتوں کا فیصلہ نہیں ہو سکا کہ دنیا کے دوسرے مسائل پر توجہ دی جا سکے۔ ملک و ملت انسانیت کے لئے کچھ نہیں سوچنا چاہئے۔ چاہے انسانیت سسک سسک کر دم توڑ دے۔ پوری اسلامی دنیا کا یہی حال ہے۔ اور ہم اپنے ملک کو سب سے بدترین حالت میں دیکھ رہے ہیں۔ جہاں فرقوں، مسلکوں اور سیاست کی بنیاد پر بے انتہا قتل ہو چکے ہیں۔ مذہبی جھگڑے سیاسی جھگڑے خاندانی اور گھریلو جھگڑے غرض ہر شخص کسی نہ کسی جھگڑے میں الجھا ہوا ہے۔ عام سے ایک گھر سے لے کر حکومت کے ایوانوں تک ہر جگہ یہی حال ہے سب سے عجیب اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کسی بھی سیاست، مذہبی پارٹی یا معاشرے میں خرابی یا بدعنوانی کی طرف اشارہ کیا جائے تو جھٹ سے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ سب ہمارے خلاف سازش ہے۔ بداعمالیوں، بدعنوانیوں اور جھگڑوں کے بارے میں سازش کہہ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ دل تو چاہتا ہے ایسے الو کے۔۔۔ دو تھپڑ رسید کئے جائیں۔ سازش کو الزام دے کر اپنی جان چھڑانا بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک شخص کسی اسٹور میں کام کرتا ہے۔ اور وہ وہاں چوریاں کرنا شروع کردے اور پکڑے جانے پر کہہ دے کہ میں چور نہیں ہوں بلکہ میرے ساتھ سازش ہوئی ہے اس لئے میں چوری کررہا ہوں اس اسٹور کے دوسرے مخالفین یعنی دوسرے اسٹور والوں نے مجھے اکسایا کہ میں چوری کروں تاکہ یہ اسٹور بند ہو جائے۔ میں تو ایمان دار آدمی ہوں یہ سب تو میں سازش کا شکار ہوا ہوں۔ باپ دولت چھوڑ کر مرا، چار اولادیں اپنا اپنا حصہ لے کر لڑ جھگڑ کر علیحدہ ہوگئیں، ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنا گوارا نہیں ہے اور شکایت پر کہتے ہیں ہمیں ایک سازش کے تحت علیحدہ کیا گیا خاندان والوں نے بھڑکایا ہے، ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہی حال سیاسی پارٹیوں کا ہے، مہاجروں کی محبت کا دم بھرنے والی ایم کیو ایم تمام بڑے مالدار ہو گئے اور چار حصوں میں بٹ گئے۔ قتل بھتے تمام بدمعاشیوں کو سازش کا نام دیا سب کی جائیدادیں سامنے نظر آرہی ہیں مگر ابھی تک رونا ہے کہ یہ سب سازش کے تحت ہوا ہے۔ اسی طرح ن لیگ کی کرپشن زرداری کی کرپشن ہر چیز کو سازش کا نام دے دیا گیا۔ مسلمان ممالک اتنی دولت ہونے کے باوجود آگے نہیں بڑھ رہے یہ بھی سازش، اپنے ہی مسلمان بھائیوں نے قتل میں غیر مسلموں کا ساتھ دے رہے ہیں یہ بھی سازش۔ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو اپنے ہی ہاتھوں ہلاک کررہے ہیں۔ یہ بھی سازش۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں