Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 672

اُمید کی کرن

ہمارے عوام کی ایک بڑی تعداد ملک کو خوشحال کرپشن سے پاک اور ترقّی یافتہ دیکھنا چاہتی ہے یہی وجہ ہے کہ جب کوئی بھی پارٹی یا لیڈر ان تمام چیزوں کا وعدہ کرتا ہے جھوٹے نعروں سے ان کے جذبات سے کھیلتا ہے اور ان کو سنہرے خواب دکھاتا ہے تو وہ اس پر بھروسہ کرلیتے ہیں۔بد قسمتی سے ستّر سالہ اس دور میں شروع کا کچھ عرصہ چھوڑ کر کوئی بھی ایسی قیادت میسّر نہ آئی جو خلوص دل سے قوم کے اس خواب کو پورا کرتی۔کرپٹ سیاست نے عوام کی ایک بڑی تعداد کو بگاڑ دیا ہر شخص حرام پیسہ کمانے کو اپنی عقلمندی سمجھنے لگا۔چنانچہ معاشرہ خرابیوں کی دلدل میں دھنستا چلا گیا اور اب یہ عالم ہے کہ لوگ واپس نہیں آنا چاہتے ۔ پرتعیش معیار زندگی کے خاتمے سے خوف ذرہ ہیں ۔جہاں بے شمار لوگ جن کا تعلّق غریب اور متوسط طبقے سے ہے اس کرپٹ نظام کو بدلنا چاہتے ہیں خوشحالی اور ترقّی دیکھنا چاہتے ہیں وہیں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ناجائز آمدنی اور کاروبار کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔پاکستان میں جتنی بھی دہشت گردی ہوئی اور ہورہی ہے۔کوئی بھی غیر ملکی آزادی سے سرحد پار کرکے پاکستان میں داخل ہوسکتا ہے اور واپس بھی جاسکتا ہے اس کی وجہ یہی کرپٹ معاشرہ ہے جس میں ناجائز کام رشوت اور پیشے سے بدعنوانی ہے مجھے ذاتی تجربہ ہے شاہ ایران کی حکومت کے خاتمے پر جب میں بذریعہ ٹرین ایران سے پاکستان آرہاتھا تو سرحد کے اوپر رشوت کا بازار گرم تھا۔ملکی غیر ملکی ،اسمگلر ہو یا جرائم پیشہ کھلے عام بغیر پاسپورٹ رشوت دے کر پاکستان میں داخل ہورہا تھا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ہماری قوم ہمیشہ شاطر سیاست دانوں کے چنگل میں پھنسی رہی ہے۔بھٹّو نے آتے ہی صوبائی عصبیت کو جنم دیا لسّانیت کو فروغ ملا اور قوم میں صوبائیت کے جراثیم پیدا ہونا شروع ہوگئے۔وزراہ نے اس دور میں خوب لوٹا۔بے نظیر کو بھٹّو کی پھانسی نے حکومت دلوائی زرداری سے شادی کے بعد صوبائی تفرقہ مزید گہرہ ہونے لگا بے نظیر کے فیصلوں کے پیچھے زرداری کا ہاتھ آگیا۔ ایسے موقع پر جب پورے ملک میں نا انصافی ،مہنگائی ،غربت کی وجہ سے عوام پریشان تھے کچھ بدعنو ا ن اور مفاد پرست سیاست دانوں اور گروپوں نے ہر صوبے میں عوام کو یا تاثّر دیا کہ یہ صرف ان کے ساتھ ہورہا ہے ، ان کے ساتھ صوبائی سطح پر زیادتی ہورہی ہے اس طرح ان کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے صوبوں ،قومیت اور زبانوں میں تقسیم کردیا ہر زبان اور صوبے سے تعلّق رکھنے والے لوگ صرف اپنے ہم زبان کو ہی نجات دہندہ سمجھنے لگے۔سندھ میں “سندھ جو عوام “پنجاب میں ‘جاگ پنجابی جاگ ‘اسی طرح بلوچستان میں محرومی کا ذمّہ دار دوسری قوموں کو اور پختونستان میں بھی یہی کارڈ کھیلا گیا۔ادھر مہاجروں کو بھی زبردستی محرومی کا احساس دلاکر خود ان کو ہی بندوق کے زور پر لوٹا گیا۔اس طرح ان سیاست دانوں یا گروپوں نے عوام کی ہمدردی حاصل کرکے اپنی جیبوں کو بھرا اور لسّانی نفرت کے پودے کو تناور درخت بنادیا۔ایک دور ایسا بھی آیا جب قوم نے نواز شریف پر اعتماد کیا اور قرض اتارو ملک سنوارو کی مد میں بے شمار پیسہ نواز شریف کے حوالے کیا اور نتیجہ آج سامنے ہے۔موضوع سے ہٹ کر۔۔۔ایک بڑی عجیب بات بھی ہوئی ہے کہ پاکستان میں جب بھی کوئی فوجی حکومت آئی ہے کچھ ایسے غیر معمولی حالات نے جنم لیا کہ یہ فوجی حکوت اسی میں الجھی رہی۔ایّوب کا دور جو بہت اچھا رہا اور بعد میں سویلین ہوگیا اس کے دور میں بھی انڈیا سے جنگ۔71 کی فوجی حکومت میں انڈیا سے جنگ اور مشرقی پا کستان کی علیحدگی ۔ضیاءالحق کے دور میں روس کی افغانستان پر چڑھائی جس کا گہرا اثر پاکستان پر پڑا جنگ میں افغانستان کی مدد پھر افغان مہاجرین وہ بھی اسی میں الجھا رہا ۔مشرّف کا دور آیا تو نائن الیون پھر دہشت گردی کی جنگ اور جو بھی حالات ہوئے ان سے سب لوگ واقف ہیں۔بہرحال صوبائی تقسیم نے عوام کے اعتماد کو کمزور کردیا اب ایک صوبے والے دوسرے صوبے کے لیڈر کو سپورٹ کرتے ہوئے ڈرنے لگے۔ایک مرتبہ پھر مایوسی اور بد گمانی کے بادل چھانا شروع ہوگئے پاکستان کی حکومت موروثی بادشاہت میں تبدیل ہوچکی تھی۔بھٹّو سے جو سلسلہ چلا تھا وہ بے نظیر اس کے بعد زرداری پھر زرداری کے بیٹے کو تیّار کرلیا گیا ادھر پنجاب میں بھی وارثوں کو دودھ مکھّن پلاکر تیّار کیا جانے لگا نواز شریف کی اولادیں شہباز شریف کی اولادیں پختونستان میں غفّار خان کے بعد ولی خان اور اس کے بعد اسفند یار بلوچستان کی سیاست بگٹی کے بعد ان کی اولادوں کے ہاتھوں میں غرض پورے پاکستان میں صرف حکمرانوں کی اولادوں کا ہی حق رہ گیا جو بھی سیاست میں آرہا تھا اس کا باپ چونکہ حکومت میں تھا تو گویا اس کے باپ کا پاکستان ہوگیا۔عوام کے پاس کوئی نعم البدل نہیں تھا ان جاگیر داروں اور وڈیروں کی جڑیں اتنی مضبوط ہوچکی تھیں کہ اب سیاست میں کسی اور کا داخل ہونا اور حکومت کرنا ناممکن محسوس ہونے لگا تھا ان حالات نے قوم کو اور مایوس کردیا۔پھر ایسے میں ایک مرتبہ پھر امید کی ایک اور کرن نظر آئی سابق کرکٹر عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف منظر عام پر آئی شروع شروع میں نظر اندازی کا شکار ہوئی کیوں کے قوم کے ذہن اس بات پر ٹک گئے تھے کہ پاکستان میں موروثی سیاست نے قدم جمالئے ہیں لہذا کوئی نئی پارٹی یا لیڈر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ قوم فوری طور پر ان پر بھروسہ نہ کرسکی لیکن عمران خان نے ہمّت نہ ہاری شروع کے کئی سال لوگوں کو اعتماد میں لینے اور سیاست میں اپنا مقام بنانے کی جدوجہد میں گزر گئے بدعنوان وزیراعظم کو معزول ہونے اور پھر جیل بھجوانے کا سبب بنے آہستہ آہستہ عمران خان کی جدوجہد رنگ لائی اور لوگوں نے تحریک انصاف کی طرف دیکھنا شروع کردیا اور جب انہوں نے عمران خان کی باتوں کو توجّہ سے سنا تو ان پر ہوا اور اثر یہ لوگ تحریک انصاف کی طرف بڑھنے لگے ان لوگوں نے کہا تحریک انصاف عمران خان یہ حکومت میں کبھی نہیں آئے ان کی باتوں میں سچّائی محسوس ہورہی ہے۔۔جیسے جیسے مقبولیت میں اضافہ ہورہا تھا حمائیتیوں کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی اور ایسے لوگ بھی شامل ہورہے تھے جن کا نام سیاست کے میدان میں نیا نہ تھا۔تحریک انصاف جس کو کوئی سیاسی پارٹی ماننے کو تیّار نہ تھا آہستہ آہستہ سیاسی پارٹیوں کے قریب ہونے لگی اور جس وقت لوگوں کو یہ یقین ہونے لگا کہ تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی پارٹی بن کر ابھرے گی لوگ دوسری بڑی پارٹیوں کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے۔چند نیک ناموں کے ساتھ بدنام بھی شامل ہوئے اور یہ عمران خان کی مجبوری تھی کیوں کہ پاکستان میں کوئی بھی سیاسی پارٹی کرپشن کی ملاوٹ کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی کرپشن سے مراد کرپٹ لوگوں کی شمولیت سے ہے۔کیوں کہ سسٹم ایسا مضبوط بن چکا ہے کہ اس میں تبدیلی فوری طور پر ممکن نہیں ہے اور عوام کے ذہن بھی کرپٹ حکومت کے ساتھ پورے تعاون کے عادی ہوچکے ہیں۔ کچھ علاقوں کے رہنے والے وہاں کے با اثر لوگوں کا ساتھ دینے پر مجبور ہیں۔بہرحال اس وقت برسراقتدار تحریک انصاف سے عوام کی ایک بڑی تعداد امیدیں لگائے بیٹھی ہے لیکن یہ لوگ پارٹی میں ،عامر لیاقت جیسے سازشی افراد سے مطمئن نہیں ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عامر لیاقت اور ان جیسے کچھ اور افراد کسی سازش کے تخت پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں اللہ رحم کرے اس کے علاوہ وزیر اعلی پنجاب اور چند دوسرے عناصر کی وجہ سے لوگ تذبذب کا شکار ہیں۔سونے پر سہاگہ مخالفین کے تابڑ توڑ حملے اور یہ مخالفین وہ ہیں جو کرپشن کا خاتمہ نہیں چاہتے۔ مسلم لیگ ن، پی پی پی، ایم کیو ایم اور ان جیسے دوسرے یہ اچھّی طرح جانتے ہیں کہ ان کی پارٹیاں کتنی چور اور بدعنوان ہیں۔جن کی لوٹ مار اور بے ایمانیاں ڈھکی چھپی نہیں رہی ہیں اس کے باوجود ان کی حمایت ایک سوالیہ نشان ہے۔لیکن یہ تمام لوگ تحریک انصاف اور موجودہ حکومت کےاو پر کوئی بھی الزام لگائیں گے جتنا بھی برا کہیں گے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا جائے گا کہ چونکہ یہ مخالف ہیں اس لئے ایسا کہہ رہے ہیں۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ کسی بات پر صحیح الزام دے رہے ہیں یا ان کی تنقید جائز ہے تو کیا ایک پی ٹی آئی کے سپورٹر کی حیثیت سے ان کی باتوں کو در گزر کردیا جائے گا کیا ان کی باتوں کو اہمیت نہیں دی جائے گی یا سنی ان سنی کر دی جائےگی یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ حقیقت ہے اپنی پارٹی کے دفاع میں چپ رہیں گے حقیقت میں تو اس وقت کچھ وزرائ کا کردار نیا پاکستان اور تبدیلی کے خلاف ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ایسا کرنا لاکھوں لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیرنا ہے لہذا اس پر تنقید کرنا پارٹی سپورٹر کی حیثیت سے آپ کا حق بنتا ہے ۔آپ کی بات ،تنقید سنی جائے گی اور اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا یہ حکومت ایک آخری موقع ہے اسے چلانے کے لئے عوام کا بھرپور حصّہ لینا لازمی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں