390

ایک جملے نے کراچی پولیس چیف کو عہدے سے فارغ کرادیا۔۔۔

سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود کراچی پولیس کو عہدے سے نہ ہٹانے پر چیف سیکریٹری کی کلاس لی گئی۔
مرحوم شاہد حیات جب کراچی پولیس چیف بنے تو سب سے پہلے انہیں اپنے سینیئرز کا سامنا کرنا پڑا۔بشیر میمن، اے ڈی خواجہ، ثناءاللہ عباسی، ڈاکٹر امیر شیخ نے ان کی تعیناتی کو عدالت میں چیلینج کیا۔سندھ ہائی کورٹ میں مذکورہ نامور پولیس افسران نے آئینی درخواست دائر کرکے ان کی سینیارٹی پر انگلی اٹھادی،عدالت جانے والے افسران کا خیال تھا کہ اتنے سینیئر افسران کی موجودگی میں جونیئر کو کیسے ان پر فوقیت دی جارہی ہے ؟ بشیر میمن کا اس وقت پیپلزپارٹی کے ہائی کمان سے تعلقات خراب ہوچکے تھے لیکن اس معاملے کو لیڈ کرنے والے وہی تھے۔ان کا خیال تھا کہ میرے علاوہ میرے جو باقی ساتھی ہیں ان میں سے کسی کو بھی کراچی پولیس چیف بنایا جائے، اگر ان کو نہیں تو اور بھی سینیئر صوبے میں موجود ہیں انہیں یہ ذمہ داری دی جائے جونیئر کو نہیں۔۔۔خیر یہ کیس عدالت میں کئی ماہ چلتا رہا۔قدرتی طور پر سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ دیا کہ او پی ایس،ڈیپوٹیشن ،آﺅٹ آف ٹرن،انضمام، کنٹریکٹ پر تعینات تمام افسران کو عہدوں سے ہٹایا جائے۔اس فیصلے پر جس طرح عملدرآمد اس وقت کے چیف سیکریٹری اعجاز چوہدری نے کیا وہ اپنے مثال آپ تھے۔اس کام میں ان کا ساتھ اس وقت کے سیکریٹری سروسز آصف حیدر شاہ اور ان کی ٹیم کے دوسرے افسران نے دیا۔اعجاز چوہدری کے بدولت سیکڑوں سفارشی افسران فارغ ہوگئے، اگر ایسا نہ ہوتا تو ڈینٹل سرجن، ٹیچر، پی آئی اے، سوئی گیس کے ملازم اس وقت ڈپٹی کمشنر، کمشنر اور سیکریٹری کے اعلیٰ عہدوں پر بغیر امتحان اور تربیتی کورس کے براجمان ہوتے۔پہلے ہائی کورٹ نے پھر سپریم کورٹ نے سندھ کے سروسز ڈہانچے کو تباہی سے بچایا جس میں سب سے بڑا کردار جسٹس امیر ہانی مسلم صاحب کا رہا ہے۔اس سے لاکھ اختلافات ہوں لیکن انہوں نے سندھ کو تباہی سے بچایا اگر ایسا نہ کرتے تو آج سندھ کی گورننس ختم ہوچکی ہوتی، تمام کمیشنڈ افسران مایوس ہوکر منہ پھیر لیتے اور سسٹم کو تباہ ہونے دیتے۔خیر آتے ہیں اصل موضوع پر کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد شروع ہوا تو اعجاز چوہدری صاحب کو عہدے سے فارغ کیا گیا اور ان کی جگہ سجاد سلیم ہوتیانہ کو تعینات کیا گیا۔سیکریٹری سروسز آصف حیدر شاہ صاحب نے بھی اپنا تبادلہ کروالیا اور سی ایم ہاﺅس میں وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکرٹری تعینات ہونے والے رائے سکندر نے چیف سیکریٹری کو ٹف ٹائم دینا شروع کیا انہوں نے ایکس پی سی ایس کیڈر کے افسر شفیق مھیسر صاحب کو سیکریٹری سروسز تعینات کرادیا۔نئی انتظامی مشینری کے لیے سب سے بڑا چیلنج سپریم کورٹ تھا جس کا کیس مہینے میں ایک دو بار ضرور لگتا تھا اور چیف سیکریٹری اور ان کے ماتحت افسران کی بڑی کھنچائی ہوتی تھی۔جب میڈیا میں خبریں آرہی تھیں کہ فلاں سفارشی افسر کو عدالتی حکم کے باوجود نہیں ہٹایا گیا اس پر معزز ججز سخت برہم ہوتے۔اس وقت کے ایڈیشنل سیکریٹری سروسز سہیل قریشی صاحب اور ڈپٹی سیکریٹری غلام علی برہمانی صاحب ہونے والی بے عزتی کی داستان سناتے تھے اور کہتے تھے کہ عدالت سے اتنی جھاڑ پڑتی تھی ہے کہ اب ہم اس کے اتنے عادی بن گئے ہیں کہ بات مت پوچھو۔۔ایک بار عدالت بہت برہم ہوئی کہ کراچی پولیس چیف شاہد حیات سمیت جتنے بھی افسران خلاف قانون تعینات ہیں انہیں فوری ہٹاکر دو گھنٹوں میں رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔عدالتی سرزنش کے بعد چیف سیکریٹری سجاد سلیم ہوتیانہ، سیکریٹری سروسز شفیق مھیسر، آئی جی سندھ شاید اس وقت اقبال محمود تھے وہ اور دیگر افسران وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ تک پہنچ گئے انہیں ان افسران کی فہرست پیش کی جو عدالتی فیصلے کے خلاف سندھ میں تعینات تھے۔سیکریٹری سروسز شفیق مھیسر نے جب وزیراعلیٰ کو وہ لسٹ پیش کی جس پر قائم علی شاہ صاحب نے کہا کہ اپنی عزت سے بڑہ کر کسی کی نہیں ہے، فارغ کرو سب کو۔وزیراعلیٰ کے احکامات سنتے ہی چیف سیکریٹری نے کہا کہ سر، کراچی پولیس چیف شاہد حیات کو چھوڑ کر باقی سب کو ہٹایا جائے۔آٰی جی نے بھی چیف سیکریٹری کے بات کی تائید کی لیکن سیکریٹری سروسز جو معزز ججز کی آنکھیں دیکھ کر آئے تھے انہوں نے وزیراعلیٰ کو کہا کہ سر، ہٹانا ہے تو سب کو ہٹادیا جائے، کسی ایک کو چھوڑنے کا مقصد عدالت میں اپنی بے عزتی کو براہ راست دعوت دینا ہے۔شفیق مھیسر کے اس آرگیومینٹ پر سجاد سلیم ہوتیانہ پھربولنے لگے کہ کراچی آپریشن چل رہا ہے، وہ سخت متاثر ہوگا، امن وامان تباہ و برباد ہوجائے گا، اس کے اثرات پورے سندھ پر پڑیں گے، سندھ کے حالات کو میں جس طرح دیکھ رہا ہوں شاید کوئی سمجھ سکے۔۔!!! چیف سیکریٹری نے شاہد حیات کو بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور جتنا ڈرا سکتے تھے وہ اس نے کیا۔ہوتیانہ صاحب کے ان کلمات کے بعد وزیراعلیٰ سندھ نے معصومیت اور مجبوری میں جب شفیق مھیسر کی طرف دیکھا اور پھر سندھی مین کہا۔۔ھاٹی چا کجی؟ ترجمہ( اب کیا کریں) وزیراعلیٰ کی اس بات پر مھیسر صاحب نے انہیں سندھی میں ہی جواب دیا ” سائین ھنن جو نانی ویڑھو آھی باقی کجھ بہ نہ” ترجمہ ( سائیں ان کی ملی بھگت اور حرام پائی ہے باقی کچھ نہیں ” شفیق مھیسر کا یہ جملا کہنا تھا اور سی ایم صاحب ایسے چارج ہوگئے کہ ایک دم سے چیف سیکریٹری پر چڑہائی کردی۔۔انہوں نے ہوتیانہ کو کہا کہ آپ کے خیال میں شاہد حیات کے ہٹ جانے سے میری حکومت خطرے میں پڑ جائے گی،؟؟!! امن وامان کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گا؟؟ ہوتیانہ صاحب قائم علی شاہ کو سمجھ نے سکے اور کہنے لگے جی جی سر۔۔۔اس کے بعد جو قائم علی شاہ نے ہوتیانہ کی کلاس لی کہ اگر کراچی پولیس چیف کے ہٹ جانے سے میری حکومت خطرے میں پڑ سکتی ہے تو تم کیوں بیٹھے ہو چیف سیکریٹری کے عہدے پر؟ تمہارے اس عہدے پر رہنے کا پھر کیا جواز ہے؟؟؟، تم اتنے نا اہل ہو کہ صوبے کی ایڈمنسٹریشن صرف ایک پولیس افسر کے ہٹ جانے سے داﺅ پر لگ جائے گی؟؟!!! ہم سب اتنے نالائق ہیں کہ ہم سے ایڈمنسٹریشن نہیں چل سکے گی؟؟ سندھ کوئی وزیرستان ہے جو طالبان اچانک حملے کرنے شروع کردیں گے۔۔۔!!! سائیں قائم علی شاہ اتنے گرجے برسے کہ شاید ہی زندگی میں کسی چھوٹے افسر پر اتنا برہم ہوا ہو۔۔۔نا دیکھا چیف سیکریٹری کا منصبِ اور نہ ہی ماتحت افسران کو، چیف سیکریٹری کو اتنا دہویا کہ اس کے دماغ سے پورا کلف نکال دیا۔۔۔شاہ صاحب کی گرمی پر پرنسپل سیکرٹری رائے سکندر بہت خوش ہوئے انہوں نے بھی پھر جلتی پر تیل ڈالا۔رائے سکندر زرداری صاحب کے کافی قریب تھے اس لیے وہ چیف سیکریٹری کو کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے اور دوسرا یہ کہ وہ ڈی ایم جی لابی کے سخت خلاف تھے۔سندھ میں پہلی بار کسی پرنسپل سیکریٹری میں ہمت ہوئی کہ چیف سیکریٹری کو قابو کرلیا۔اس اجلاس میں چیف سیکریٹری صاحب کی جو عزت افزائی ہوئی کہ دیگر افسران یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ سی ایم کو کہیں گے، بس کرو اب، میں واپس وفاق جارہا ہوں، تم جانو اور تمہارا صوبہ۔۔لیکن افسوس کہ اتنی رسوائی ہونے کے بعد ہوتیانہ صاحب میں ہمت تو نہ ہوئی کہ اپنے آپ کو بے عزتی سے بچاتے، بلکہ کمرے سے ایسے ہشاش بشاش ہوکر نکلے کہ اس کے ساتھ کچھ ہوا ہی نہ ہو،اور سی ایم ہاﺅس کے ماتحت افسران کو محسوس ہونے تک نہ دیا کہ اس پر کیسے پوری ٹرین گذر گئی۔۔۔۔
اس اجلاس کے آخر میں سی ایم صاحب نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے ذمرے میں آنے والے تمام کو عہدوں سے فارغ کریں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شاہد حیات کو ہٹانے کا نوٹیفکیشن نکلا ہی نہیں تھا کہ میں نے ان کے ہٹ جانے کی خبر بریک کردی تھی۔اللہ تعالیٰ کا مجھ پر اتنا کرم ہے کہ میرے لیے یہ پہلا موقع نہ تھا کہ میں نے اجلاس کے اندر کی پوری خبر بریک کی ہو۔اس طرح کی بہت ساری اندر کی خبریں تھیں جو میں نے بریک کروائیں تھیں جو اب آھستہ آھستہ سوشل میڈیا پر بریک کررہا ہوں تاکہ قوم کو پتا لگے کہ اقتدار کے ایوانوں میں کیسے فیصلے کیے جاتے ہیں؟!!، لابیاں کیسے کام کرتی ہیں،؟ افسران ایک دوسرے کو کیسے سپورٹ کرتے ہیں، ان کے لیے عدالتی فیصلے ہوں یا عوام کی قسممت کے فیصلے، انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ بادشاہوں کے ساتھ رہتے رہتے وہ بادشاہوں سے بڑہ کر بڑے بادشاہ بن گئے ہیں کیونکہ حکمران تو آتے جاتے ہیں لیکن بابو بیوروکریسی ہمیشہ اقتدار میں رہتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں