تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 433

ایک روپے ترانوے پیسے

بڑھتی جوانی کے خمار سے آلودہ نیند پوری کرتے دن چڑھے اُٹھنے کے بعد جیسے ہی کمرے سے باہر نکلا تو والد نے پوچھا۔ آج کام پر نہیں گئے؟۔
نہیں پاپا۔۔۔
یہ دو اگست 1978ءکی سہانی صبح کا ذکر ہے جب ہم نے پی آئی اے کی نوکری کا آغاز کیا اور دوسرے ہی دن چھٹی کرکے گھر بیٹھ گئے۔ والد نے پھر پوچھا کہ ”کیا کوئی دوسری بہتر نوکری مل گئی ہے؟“
نہیں پاپا۔۔۔
جب تک کوئی بہتر کام مل جائے اس وقت تک اس ہی نوکری کو جاری رکھو۔ بہتر کام تو ہم خود مسترد کر چکے تھے جو پی آئی اے میں ہی دو درجے اوپر آفسری کا تھا مگر ہم نے دو نچلے درجہ کی نوکری ایئرپورٹ پر سفید یونیفارم کے لالچ میں ترجیح دے کر منتخب کی تھی مگر ایئرپورٹ پر پہلے دن ہی جس گمشدہ سامان کے دفتر میں بھیجا گیا تو وہاں کا منظر دیکھ کر ہم بھاگ کھڑے ہوئے۔ کام سے نہیں، اس ہاتھ کی صفائی سے جو وہاں پر ایئرپورٹ کے تمام محکموں کے عملے دکھا رہے تھے۔ ہم نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے یا ہاتھ کی صفائی کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اگر ابتداءعشق میں ہی ان مرحلوں سے گزرنا پڑ رہا ہے تو آخری وقت میں کیا خاک مسلمان ہوں گے۔ یوں نوکری کے دوسرے دن ہی ہم گھر بیٹھ گئے۔ والد صاحب کی تاکید کے باعث ہم نے صرف نوکری شروع کردی۔
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ
یوں ہماری نوکری بغیر آلودگی کے شروع ہو گئی۔ نوعیت یوں تھی۔
یوں عمر گزار دی غم زندگی کے ساتھ
جیسے ایک اجنبی ہو کسی اجنبی کے ساتھ
اپنے والدین سے اکثر گلا کرتے رہتے کہ اگر ہماری جین میں لیاقت، محنت اور دیانت ڈالنی ہی تھی تو اس ادارے میں کیوں ڈالا، جواب ملتا ہے کہ
یہ احترام روایت تو کم نہیں ہوگا
ہمارے خون میں شامل ہے کیا کیا جائے
اس ہی طرح محنت، لیاقت اور دیانت کو با امر مجبوری برقرار رکھتے ہوئے نوکری کا سلسلہ شروع کردیا۔ دیانت کے جراثیم نے ہمیں ادارے کو اپنی ذات سے نقصان پہنچانے سے باز رکھا اور آﺅٹ آف پرموشن یا پوسٹنگ سے دور رکھا۔ محنت اور لیاقت نے ادارے کو اپنی خدمات سے ہمیشہ فائدہ پہنچایا جس کی بدولت بے پناہ تعریفی سند حاصل ہوئی اور پوری زندگی کوئی تادیبی خطا یا کارروائی سے دور رکھا۔ جب کے ہمارے ساتھ کے کام کرنے والے ادارے سے بے پناہ فائدہ اٹھا رہے تھے اس دوران نوکری کے اوقات ختم ہونے کے بعد جامعہ کراچی تین چار طرح کے ماسٹر کرنے کے لئے اپنے آپ کو مصنوی طریقوں سے تعطیم یافتہ بنانے کی کوشش کررہے تھے۔ اپنی جہالت کو گھر یا خاندان والوں سے چھپاتے اور اپنے تعلیم یافتہ ہونے کو ادارے والوں سے چھپاتے نوکری کا عرصہ گزار دیا۔
اس طرح اپنے آپ کو ادارے میں بھی پوری طرح ہم آہنگ کر پائے اور نہ ہی خاندان کے علمی ماحول میں۔
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ہم
1980ءمیں ضیاءالحق کی تاریکی کی نحوست جب ادارے میں مارشل لاء52 کی شکل میں ظاہر ہوئی تو وسائل سے فائدہ اٹھانے والے فارغ ہوئے اور اگلے دس بارہ سال بعد تمام مراعات کے ساتھ بحال بھی ہوئے۔ ادارے میں رہ جانے والے عتاب کی دلدل میں ڈوبتے چلے گئے، ہمارے کچھ ساتھیوں نے ضیاءالحق کے اسلام سے متاثر ہو کر OCS عبادتیں شروع کردیں مگر ہمارے نیم ایمان یافتہ ضمیر نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ اپنا فرض منصبی چھوڑ کر بجائے مسافروں کو راستہ بتانے کے یعنی Passenger Handling کے بجائے ضیاءالحق کی طرح پوری قوم کو اندھے کونیں میں ڈال کر کونیں کے اوپر مصلہ ڈال کر نیت باندھ لی اور قوم گھٹن کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہو گئی۔ مگر ہماری کیفیت یہ ہو گئی۔
ہر اک کو خوش رکھنے میں کوئی نہ ہوا خوش
میرے دل مخلص سے بندے نہ خدا خوش
یوں Great People to Fly with کی خدمت کرتے کرت بال سفید کر لئے اور تندرست جسم امراض کا شکار ہونا شروع ہو گیا۔ گھریلو ذمہ داریاں بھی بڑھتی چلی گئیں، پرموشن اور پوسٹنگ کی لائن میں نئے آنے والے ہم سے آگے لگتے رہے اور پرموشن اور پوسٹنگ کے مزے اٹھاتے رہے، ٹرین چلتی رہی اور ہم اسٹیشن پر کھمبے کی طرح سب کا منہ تکتے رہے اور اپنی جگہ کھڑے رہے، جب والدین کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا اور بچوں کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئیں تو
مجھے تھکنے نہیں دیتا میری ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
ہمارے تمام بہن بھائی اپنی اپنی تعلیم کا بہتر استعمال کرتے ہوئی اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں تک پہنچے ہوئے تھے۔ تقرری کے وقت دو درجہ اوپر والے ساتھی جن کا ساتھ دینے سے ہم انکار کر چکے تھے وہ جنرل مینجر سے بھی اوپر کے عہدوں پر پہنچ چکے تھے اور ہاتھ کی صفائی کرنے والے زندگی دوسرے شعبوں میں اعلیٰ مقام کے حامل ہو چکے تھے۔
اب ہم تھے اور ہماری تنزلی کی طرف مائل صحت اور ہمارے بچوں کی آنکھوں میں پیدا ہونے والے سوال۔ ان کا جواب، کبھی اپنی اعلیٰ خاندانی صفات بتا کر کبھی پی آئی اے کے چانس کے ٹکٹ دکھا کر دینے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہمارے بچے ان اعلیٰ صفات کا حشر اپنے محکمہ میں سب سے پیچھے رہ جانے کی صورت میں دیکھ رہے تھے اور کبھی اس شرم سار صورت کو دیکھتے کہ جب ان کو پی آئی اے کے ٹکٹ دکھاتے ہوئے ایئرپورٹ پر سیٹ نہ ملنے کے بعد گھر بار بار آتے دیکھتے سفید یونیفارم کا مذاق تو خود ہمارے ساتھی اڑاتے کہ جب خود اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے سیٹ نہیں لے سکتا تو دوسروں کو کیا فیض پہنچائےگا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ڈاکٹر بیگم کی بدولت کینیڈین شہریت کے ساتھ ساتھ علاج معالجہ کی سہولت بھی مل گئی۔ بجائے اس کے کہ جو دکھ پی آئی اے کی نوکری سے ہمیں ملے تھے ان دکھوں کا علاج بھی پی آئی اے سے کرواتے، بیگم کے طفیل ملی ہوئی کینیڈین شہریت کی سہولت سے فائدہ اٹھایا اور پی آئی اے کو اپنی صحت کی بحالی پر اٹھنے والے بھاری بھرکم اخراجات سے بچا کر پھر پی آئی اے سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیا۔
ابھی ہماری نوکری کا عرصہ ختم ہونے میں چھ سال مزید باقی تھے جب پی آئی اے سے کچھ حاصل کرنے کا وقت آیا تو افطار کی اذان سے ذرا پہلے روزہ توڑ دیا اور پی آئی اے سے فراغت حاصل کرلی کہ شاید ہماری 32 سال کی خدمات کا صلہ Final Satelment میں مل جائے۔ یہ صلہ یوں ملا کہ جب آخری چیک ہمارے ہاتھ میں تھا تو حساب یہ بنا کہ 32 سال کی رفاقت وفاداری کا صلہ ایک روپیہ ترانوے پیسے روز کے حساب سے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں