بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 1,970

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز – – نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

آج خدائے بزرگ و برتر نے اپنی شان کریمی اور اپنی قوت و حکمت کا وہ مظاہرہ کیا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ سائنس کی ساری کتابیں بیکار ہو گئیں۔ بڑے بڑے سائنسدان دم بخود ہیں کہ الٰہی یہ کیا ماجرہ ہے کہ
کوئی اُمید بَر نہیں آتی ۔ کوئی صورت نظر نہیں آتی
ایک گھر میں رہنے والے ایک دوسرے سے فاصلہ برت رہے ہیں ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں ایک دوسرے کو گھروں میں رہنے کی تلقین کررہے ہیں ایک ایسی آفت کہ جس نے ہر انسان کو برابر کردیا۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور مساوات کا ایسا شاندار مظاہرہ کہ دنیا بھر کے بادشاہ وزیر سفیر مشیر بزنس مین اور تمام دنیا کے انسان یکساں قسم کے خوف میں مبتلا ہیں۔ اللہ رب العزت نے سب کا دکھ درد سانجھا کردیا۔ بڑے ممالک چھوٹے ممالک سب ایک صفحہ پر آئے۔ کوئی سپرپاور نہیں رہا۔ اور اس بات پر مہر ثبت ہوئی کہ ”ان اللہ الہ کل شی قدیر“ اس نے کہا کہ تم جس قدر چاہے تدبیریں کرلو، مگر ہم اگر چاہیں تو ایک مچھر کے ذریعہ پوری بادشاہت کو فنا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ ایک معمول سے وائرس کے ذریعہ دنیا کے بڑے بڑے سقراط پلک جھپکتے میں زمین پر ڈھیر ہو گئے۔ دنیا کے کسی بھی کونے کا ملک ہو، کہیں کا بادشاہ ہو، نہ بارڈر بچے، نہ فاصلے۔ پلک جھپکتے میں آناً فاناً کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں نہ صرف لے لیا بلکہ جہاں سے گزرا وہاں لوگوں کے لاشے اٹھانے والے نہ رہے۔ ہسپتالوں میں جگہ کم پڑ گئی۔ ڈاکٹرز پریشان، نرسیں اور میڈیکل اسٹاف حواس باختہ، نہ دن کا پتہ، نہ صبح کی خبر، نہ کھانے کا ہوش اور نہ گھر جانے کی طلب، دن و رات ہسپتالوں میں لوگوں کے علاج اور لاشے اٹھانے کے کام پر مامور ہوگئے اور موت بھی ایسی عبرتناک کہ اہل خانہ نہ چہرہ دیکھ سکے اور نہ رسومات ادا کرسکے، ہر شخص چپ سادھے بیٹھا ہے۔ شہر ویران سڑکیں سنسان، ایک ہو کا عالم ایک خوف کی فضا، کوئی نہیں جانتا کہ ملک الموت کب کسے آ دبوچے۔ یہی شان کریمی ہے کہ جہاں دنیا کی ساری سائنس، ساری ترقی، اور ساری کتابیں جواب دے جاتی ہیں اور انسان آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتا ہے اور ڈبڈبائی آنکھوں سے اپنے مالک کل کو پکارتا ہے کہ اے میرے مالک تو ہی ہے جو اس موذی وائرس پر دسترس رکھتا ہے۔ تو ہی تو ہے کہ اپنی طاقت سے پلک جھپکتے میں ”کن فیکون“ کہہ کر تمام انسانیت کو ایسی مشکل سے نکال سکتا ہے۔ یقیناً ہم انسانوں سے بڑی کوتاہیاں ہوئی ہیں، میرے پروردگار ہم انسانیت کو بھول گئے ہم ان ذمہ داریوں سے منہ موڑ بیٹھے جو ہم پر لازم قرار دی گئیں تھیں۔ فلسطن میں چھوٹے چھوٹے بچوں پر بندوقیں تانے لحیم شحیم فوجیوں کو ہماری چشم فلک نے دیکھا مگر ہم خاموش رہے، عراق اور لیبیا کے حکمرانوں کو آسمان سے اٹھا کر زمین میں گاڑ دیا گیا مگر مسلم امہ خاموش رہی، عراق، لیبیا اور شام کو ریکستان میں تبدیل کر دیا گیا اور ان ممالک کو وہاں بسنے والوں کا قبرستان بنا دیا گیا مگر ہم اپنے اللہ کی دی ہوئی طاقت کو استعمال کرنے کی ہمت نہ کرسکے اور خاموش رہے۔ پھر کشمیریوں پر مظالم توڑے جاتے رہے ہم خاموش رہے اور اب انڈیا کے مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے مگر مسلمان ان غیر مسلمانوں سے یہ پوچھنے سے ڈرتے ہیں کہ یہ ظلم کیوں کیا جارہا ہے؟ کاروباری تعلق آج اپنے ہم مذہب کو مارنے پر بھی خاموشی کا درس دیتا نظر آیا۔ ذاتی مفاد اجتماعی مفاد پر غالب آگیا اور یوں آج بھارت کا مسلمان ظلم و ستم کا نشانہ بن رہا ہے۔ ہم برما کے مظالم پر بھی خاموش رہے۔ اور وجہ یہی ہے کہ ہماری ا یمان کی قوت کمزور پڑ چکی ہے اب 313 سے فتح کا سوچنا بھی گناہ ہے کیونکہ اس کے لئے اللہ کی ذات پر ایمان کامل لازمی ہے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ ہم تمہیں تمہارے گمان کے مطابق نتیجہ دیتے ہیں۔
سابقہ ادوار میں مسلمانوں میں جذبہ ایمانی قابل دید تھا۔ وہ گھر سے نکلتے تھے تو اللہ ھو اکبر کا صرف نعرہ ہی نہیں لگاتے تھے بلکہ انہیں اس بات کا قوی یقین ہوتا تھا کہ ”اللہ سب سے بڑا ہے“ اور یوں مالک کل اپنی رحمتوں اور برکتوں کا سایہ کردیتا تھا اور فرشتوں کی فوج شانہ بشانہ برسرپیکار ہوتی تھی۔ چند سو مسلمان ہزاروں کافروں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالتے تھے مگر آج ہمارے سروں پر خوف کے سایہ منڈلا رہے ہیں ہم اپنی موت سے خوفزدہ ہیں ایمان کی قوت سے دور۔ نام کے مسلمان۔ جنہیں ذات باری تعالیٰ پر بھروسہ ہی نہیں۔ یہی خاموشی تھی جس نے آج اللہ سبحان و تعالیٰ کو بولنے پر مجبور کردیا۔ رب کعبہ نے خاموشی توڑ دی۔ اور مظلوموں پر ہونے والے مظالم کے نتیجہ میں تمام دنیا کو جو ظالم کے ظلم پر خاموش تھی، پابند سلاسل کر ڈالا۔ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر سب کا دھڑن تختہ کردیا۔ اٹلی کے صدر نے آسمان کی جانب نگاہیں اٹھائیں اور روتی ہوئی آنکھوں اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا کہ ”ہم نے تمام تدبیریں آزما لیں اب صرف خدا کی قدرت کا انتظار ہے، ہم مجبور اور بے بس ہو گئے“۔ یہی شان کریمی ہے، یہی قدرت کا وہ کرشمہ ہے جو آج ہمارے سامنے ہے۔
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
جہاں کے سفید و سیاہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا، یا دن کو رو رو شام کیا
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں