تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 549

بادشاہ

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مغرور بادشاہ نیک صفت افراد کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ ایک درویش نے قرائن سے یہ بات جان لی اور وقت کے بادشاہ کو مخاطب کرکے کہا ”اے دنیا کے بادشاہ، لاﺅ لشکر اور دنیاوی سازوسامان میں بے شک تو ہم سے بہت زیادہ ہے، لیکن سکون و اطمینان، آرام و طمانیت قلب میں ہم تجھ سے بہت بہتر ہیں۔ مگر موت سب کو برابر کردے گی۔ ان شاءاللہ قیامت یا روز آخرت ہمارے جیسے لوگوں کا حال تجھ سے بہت بہتر ہوگا“۔ اے بادشاہ نیک صفت لوگوں کا حال بظاہر خراب و خستہ لگتا ہے لیکن ان کا دل روشن اور گناہوں کی طرف آمادہ کرنے والا نفس مردہ ہے۔ ہم جیسے درویشوں کا طریقہ ذکر خدا کرنا، شکر ادا کرنا، ایثار و قناعت خدا کی ذات میں کسی اور کو شریک نہ کرنا ہے، اس کے ساتھ توکل و تحمل کا جذبہ ہے، اگر کسی میں یہ صفات نہ ہو تو وہ نیک صفت انسان نہیں ہوسکتا اور جو دین کے بتائے ہوئے طریقوں سے روگردانی کرے۔ عیش و عشرت کا خواہشمند ہو۔ آوارہ صفت ہو جو سامنے آئے ہڑپ کر جائے اور جو منہ میں آئے کہہ گزرنے والا ہو۔ وہ نیک صفت نہیں ہو سکتا، چاہے اس نے درویشوں کی صورت اختیار کی ہوئی ہو۔ یہ حکمراں دنیا کے کسی بھی خطے میں یا کسی قوم کے ہوں، ان کی خصوصیات اگر ایک جیس ہوں جن کا بیان اوپر کیا گیا ہے ان کا حشر بھی بیان کردیا گیا۔
دنیا کے مختلف حصوں میں حکمرانوں کو منتخب کرنے کے مختلف طریقہ رائج ہیں۔ سب اپنے اپنے علاقوں کی نفسیات روایات اور اقدار کے ساتھ رجحانات کے مطابق حکمرانوں کو اقتدار میں لاتے ہیں۔ کہیں پر حکمران خود سے اقتدار حاصل کر لیتے ہیں۔ چھوٹے ملکوں میں اکثر ایسا ہوتا ہے، کہیں پر مصنوعی جمہوریت کے ذریعہ، کہیں پر حقیقی طریقے سے حکمرانوں کو منتخب کرکے اقتدار میں لایا جاتا ہے۔ امریکہ کے انتخابات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں پر ادارے کس قدر مضبوط ہیں۔ پچھلے دنوں امریکہ میں انتخابات میں غیر متوقع طور پر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہو کر دنیا بھر کے روایتی حلقوں کو حیران و پریشان کرگئے۔ امریکہ کی حیثیت اس وقت دنیا کی سب سے بڑی قوت کے مالک ملک کی ہے۔ اس کا حکمران دنیا بھر کا حکمران تصور ہوتا ہے۔ اس لئے ٹرمپ کی صورت میں دنیا کو ایک ایسا حکمران میسر ہو گیا جس کے بارے میں کوئی بھی مکمل اندازہ نہیں لگا سکا مگر یہ حقیقت ہے کہ ٹرمپ کی صورت دنیا کو ایک ایسا حکمران مل گیا جس کی موجودہ دور میں شدت سے ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ ٹرمپ ایک پیشہ ور سیاستدان نہیں تھا، نہ ہی اس نے اپنی انتخابی مہم میں ایسے طریقے استعمال کئے جیسے کہ اس کے مخالف سیاستدانوں نے اختیار کئے جس کی وجہ سے وہ شکست سے دوچار ہوئے اور ٹرمپ کو فتح حاصل ہوئی۔ ٹرمپ نے ایک بزنس مین کی سوچ رکھتے ہوئے یہ نعرہ لگایا کہ امریکا امریکن کے لئے ہے۔ اور امریکہ کو بنانے میں بھی باہر سے آنے والے افراد شامل ہیں جن کی اپنی روایات، اقدار، کلچر ہے، ظاہر ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے ملک کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر شامل ہو رہے ہیں تو ان کے اپنے طرز زندگی کے بھی اثرات امریکہ جیسے بڑے ملک میں پڑ رہے ہیں ایک طرف امریکن عوام ان باہر سے آنے والوں کو اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں ناگزیر سمجھتے ہیں دوسری طرف وہ ان کے طرز زندگی سے خوف زدہ ہو کر ٹرمپ کے منصوبوں میں آلہ کار بن گئے۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم جس شاندار طریقہ سے چلائی اور اس کو کامیاب سے ہمکنار کیا۔ یہ اس کی ذہانت ہے جس کا مظاہرہ کرکے اس نے بزنس میں کامیابیاں حاصل کیں۔ ایک بزنس مین یہ دیکھتا ہے کہ اس کی کس پروڈکٹ کو عوام کے کس طبقے میں کتنی پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ وہ یقیناً اپنی اس پرودکٹ کو سیل کرکے منافع تو خوب حاصل کرے گا مگر کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ اس کی اس پروڈکٹ کی وجہ سے اس کی ساکھ خراب ہو جائے جس کی وجہ سے اس کا پورا بزنس ہی تباہ ہو جائے۔ اب صورت یہ ہی ہے کہ ٹرمپ کامیاب ہونے کے بعد پورے امریکہ کے صدر ثابت ہونے کے ساتھ تمام انسانیت کی فلاح و بہبود کا باعث ہو گا جیسا کہ امریکہ کے سب سے بڑے بزنس ٹائیکن بل گیٹ نے اپنی تمام دولت کو انسانیت کے لئے وقف کرکے ثابت کیا کہ وہ ایک بڑے بزنس مین سے بڑھ کر انسانیت کا خادم بن کر پوری دنیا میں وہ عزت و نیک نامی حاصل کرلوں گا جو کہ ایک بزنس مین یا سیاستدان بن کر حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر بن کر اپنی اس بات پر سختی سے عمل کرنا ہوگا کہ وہ پورے امریکہ کے صدر ہیں۔ ان کو امریکہ کی سپرپاور کے صدر کی حیثیت سے فیصلہ کرنے ہوں گے نہ کہ ایک مخصوص طبقے کی خواہشات کی تکمیل کے لئے یعنی ان کو اپنے فیصلے علاقائی فکر و سوچ سے بالاتر ہو کر نہ صرف سپرپاور امریکہ بلکہ پورے مغرب کے ساتھ تمام دنیا کے امن استحکام مدنظر رکھنا ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر کے عہدے پر پہنچتے ہی یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ایک کامیاب بزنس مین کی طرح امریکہ اور پوری دنیا کی فلاح و بہبود کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں گے یا اپنے آپ کو ایسے انسان کی حیثیت بدستور قائم و دائم رکھیں گے جو صرف علاقائی طبقاتی فکر و سوچ رکھنے والا انسان ہو یا وہ ایک اسٹیٹ مین بن کر عالم انسانیت لئے امن آتشی کا ماحول قائم کریں گے۔ اب ان کے اوپر منحصر ہے کہ وہ روایتی بادشاہ ثابت ہوتے ہیں یا انسانیت کا امین۔
نیوزی لینڈ امریکہ کے مقابلہ میں ایک بہت ہی چھوٹا سا ملک ہے مگر اس ملک کی وزیر اعظم نے اپنے آپ کو ایک بہت بڑا مدبر اور رہنما کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جس کے بعد دنیا بھر میں اس خاتون کو بہت بڑے اور اعلیٰ مقام پر اہمیت دی جارہی ہے۔ اس کے مقابلہ پر دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور امریکہ کا صدر اس مرتبہ تک نہیں پہنچ پا رہا ہے حالانکہ وہ اقتدار میں ان لوگوں کی مدد سے آیا تھا جو کہ اپنے آپ کو دوسرے انسانوں سے بڑا اور بہتر سمجھتے ہیں۔ امریکی صدر کے بہت سے اقدامات ان قوتوں کو قوت فراہم کررہے ہیں جو اس طرح کی طرز فکر رکھتے ہیں جب کہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کا موقف ان سے بالکل مختلف سمت میں ہے اس کی سوچ بین الاقوامی یا انسانیت کے لئے ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز محدود فکر کا حامل ہے جو کہ بڑے ملک کی سربراہ کے شایان شان نہیں ہے ان کا نعرہ ہے کہ امریکہ امریکن کے لئے پہلے ہے جو کہ امریکہ جیسے سپر پاور کے لئے ایک چھوٹی بات ہے۔ آج نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے تو اپنے قول و فعل سے ثابت کردیا کہ وہ انسانیت کی امین ہے اس نے دنیا کے چھوٹے بڑے ملکوں کے سربراہوں کے سامنے ایک ایسی اعلیٰ مثال قائم کردی ہے کہ جس کو اپنا کر ڈونلڈ ٹرمپ، نریندر مودی اور نیتن یاہو جیسے حکمران انسانیت کی فلاح کے لئے بڑے بڑے کام انجام دے کر اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنوانے میں بہت بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ نریندر مودی اور نیتن یاہو کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ جیسنڈا کی پیروی کرتے ہوئے فلاح انسانیت کے لئے اقدامات اٹھا کر انسانیت کو نقصانات پہنچانے والوں سے دنیا کو محفوظ کرسکتے ہیں جیسا کہ انہوں نے کوریا کے صدر کو راہ راست پر لانے کا رادہ کیا ہوا ہے یا داعش کے خاتمہ کا یقین دلایا ہے۔
موجودہ صورت حال میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے تو ثابت کیا ہے کہ وہ چھوٹے سے ملک کی بڑی رہنما ہے اور دنیا بھر کی بادشاہت کی حق دار ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں