Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 327

بحث برائے بحث

وہ چاروں ایک میز کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے اور دھواں دھار بحث کا سلسلہ جاری تھا جب کہ بقیہ لوگ آس پاس صرف لقمہ دینے کے لئے کھڑے تھے۔ ہماری قوم کے پاس بحث کے لئے صرف دو ہی موضوع ہیں، سیاست یا مذہب، کسی بھی موضوع یعنی فلم تک پر بات شروع ہوتی ہے اور وہ بہت جلد سیاسی یا مذہبی بحث کا رُخ دھار لیتی ہے۔ باقی دنیا کی کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ بحث یہ چل رہی تھی کہ کون کافر ہے، کون مشرک، کون دین میں رختہ ڈال رہا ہے اور کون دین کے راستے سے ہٹا ہوا ہے۔ یہودی ایجنٹ کون ہے اور عیسائیوں کا دوست کون ہے، بحث کا سلسلہ جب ماند پڑا اور وہ ایک ایک کرکے ریسٹورنٹ سے جانے لگے تو ان میں سے ایک شخص کو میں نے روک لیا اور ایک نئی بحث کا آغاز کردیا۔ میں نے اس سے پوچھا یہ کیا بحث ہو رہی تھی اس نے اسی جوشیلے انداز میں بتانا شروع کیا، دیکھیں صاحب کیا زمانہ آگیا ہے، لوگ دین کے راستے سے ہٹتے جارہے ہیں۔ عجیب و غریب چیزیں دین میں شامل کر لی ہیں۔ میں نے اچانک اس سے سوال کیا۔ یہ بتاﺅ تمہیں کب یہ بات معلوم ہوئی کہ تم مسلمان ہو اور وہ بھونچکا رہ گیا، کیا مطلب ہے آپ کا؟ اس نے حیرانی سے پوچھا بھائی میں نے ایک سیدھا سا سوال کیا ہے کہ تمہارے علم میں کب یہ بات آئی کہ تم مسلمان ہو، وہ ذرا ناراضگی سے جھے کہنا لگا، الحمدللہ میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہوں، میرے آباﺅ اجداد بھی مسلمان تھے۔ آپ نے عجیب ہی سوال کیا ہے۔ تم نے میری بات کا غلط مطلب لیا ہے، میں نے اسے مزید کچھ کہنے سے روکتے ہوئے کہا مجھے معلوم ہے تم ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کب تمہیں سنجیدگی سے یہ احساس ہوا کہ تم ایک مسلمان ہو اور تمہارا مذہب کیا کہتا ہے وہ کہنے لگا ظاہر جب میں نے ہوش سنبھالا اور چیزوں کو سمجھنے لگا۔ اپنے گھر والوں کو عبادت کرتے دیکھا ان سے سنا کہ ہم مسلمان ہیں پھر اسکول گیا تو وہاں بھی دین کے بارے میں بتایا گیا مسجد گیا جہاں دینی تعلیم حاصل کی لیکن آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں۔ بھلا ان باتوں سے ہماری بحث کا کیا تعلق ہے۔ تعلق ہے برادر، میں نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا، اچھا یہ بتاﺅ تم نے پورا قرآن شریف معنی کے ساتھ پڑھا ہے۔ وہ گڑبڑا گیا، پھر تھوڑے توقف کے بعد کہنے لگا پورا قرآن معنی کے ساتھ تو نہیں پڑھا لیکن آیتوں کے معنی مولانا حضرات سے سنے ہوئے ہیں اور حدیث؟ میں نے دوسرا سوال داغ دیا اور وہ پریشان نظر آنے لگا۔ حدیث میں نے کتاب میں تو نہیں پڑھی ہے۔ البتہ حدیثیں دینی حضرات سے سنی ہیں لیکن تمہیں کیا معلوم کہ حدیث سنانے والا کوئی صحیح حدیث سنا رہا ہے، اچھا چھوڑو، یہ بتاﺅ اسلام کے پانچ ارکان کون کون سے ہیں، مجھے اس پر ترس بھی آرہا تھا اور اس کی بے بسی سے لطف اندوز بھی ہو رہا تھا۔ پانچ ارکان تو یہی ہیں، نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور وہ سوچنے لگا۔ کلمیہ طیبہ میں نے اس کی الجھن دور کردی، ہاں وہ میرے ذہن سے نکل گیا تھا لیکن میں پھر یہی کہوں گا کہ ان تمام باتوں کا بحث سے کیا تعلق۔
بھائی تعلق یہ ہے کہ ہمیں اپنے دین کی بنیادی باتوں تک کا علم نہیں ہے، ہمیں یہ نہیں پتہ کہ قرآن شریف اور حدیث میں کیا باتیں تحریر ہیں ایک سچا مسلمان ہونے کی کیا شرائط ہیں۔ ہم صرف سنی سنائی باتوں پر مسلمان چل رہے ہیں، اپنے دین کے بارے میں ہمیں مکمل علم نہیں ہے اور ہم دوسروں پر اعتراضات کی بارش کررہے ہیں اور ان کو دوزخ اور جہنم بانٹ رہے ہیں۔ جب ہم خود ہی مکمل نہیں ہیں تو ہمیں کیا حق ہے کہ ہم دوسرے کو کافر، مشرک اور لادین کہہ کر پکاریں۔
دنیا میں کئی مذاہب ہیں اور کوئی بھی مذہب برائی کی تعلیم نہیں دیتا، ہر مذہب اچھائی کی ہی بات کرتا ہے، یہ لوگوں کے کردار ہیں جن کو مذہب سے جوڑ دیا جاتا ہے اور ان تمام مذاہب کے بعد جو سب سے بہترین مذہب دیا وہ ہمارے حصے میں آیا اس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہوگی۔ مذہب میں فرقہ واریت کو اتنی ہوا دی گئی ہے کہ اختلافات اب دشمنی میں بدل گئے ہیں اور قتل و غارت گری تک نوبت آچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لئے پیغمبر بھیجے ہم نے کیا ہدایت حاصل کی، کیا تعلیم حاصل کی، یہی تعلیم ہے جس کا ہم ہر روز مظاہرہ کررہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کا پیغام فلاح اور انسانیت کی تعلیم لے کر آئے، لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی تعلیمات پر عمل کیا۔ ان کے جانے کے بعد ان کی تعلیمات کا سلسلہ جاری رہا، پھر کئی سو سال بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لاتے ہیں، مزید فلاح اور انسانیت کی تعلیم دینے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عمل کو مزید آگے بڑھانے کے لئے اور اچھائی کی تعلیم دینے کے لئے آتے ہیں۔ لوگ بٹ جاتے ہیں، کچھ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو آگے بڑھانے اور مذہبی کام کرنے والوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں اور کچھ لوگ حضرت عیسیٰ السلام کی طرف آجاتے ہیں اب دو گروپ بن جاتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کو لوگوں کو تقسیم کرنے آئے تھے، جو پہلے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل پیرا تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ہمارے پیارے نبی اللہ کا آخری کلام اور آخری مذہب لے کر آتے ہیں جو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں اضافہ کرکے ایک آخری اور واحد مذہب کو مکمل کرتا ہے۔ یہ تمام انبیاءانسانوں کو تقسیم کرنے نہیں آئے تھے بلکہ ان کو ایک مقام پر اکھٹا کرنے آئے تھے۔ پھر یہ سب تقسیم کیوں ہو گئے؟
یہ وہ سوال ہے جو اکثر لادین حضرات کرتے ہیں اور اس کا سادا سا جواب ہے کہ ان انبیاءکے جانے کے بعد جو لوگ مذہب کو آگے بڑھانے کے لئے آگے آئے ان میں سے بہت سے لوگ راستے سے ہٹ گئے۔ دنیاوی لالچ نے ان کو خودغرض بنا دیا، اجتماعی فائدے کی جگہ انفرادی فائدے نے لے لی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رخصت ہونے کے بعد جو مذہبی لوگ تھے ان کی معاشرے میں بہت عزت تھی وہ حضرت موسیٰ کے مذہب کو پھیلانے اور مذہبی کام کرنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے تھے، ان کا ایک مقام تھا، ان کو مال و دولت بھی ملا، لوگ ان کے ہاتھ چومتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کے بعد لوگ ان کی طرف جانے لگے اور حضرت موسیٰ کے مذہب والوں کو اپنی دکان بند ہوتی نظر آئی لہذا انہوں نے لوگوں کو حضرت عیسیٰ کی طرف جانے سے روکنے کے لئے تمام حربے آزمائے، تقسیم اس طرح ہوئی پھر ہمارے نبی آخر الزماں کے آنے کے بعد یہودی اور عیسائی پادری جن کو لوگ گھیرے رہتے تھے وہ بھلا کیسے برداشت کرتے کہ ان کا یہ مقام ختم ہو جائے لہذا انہوں نے اسلام کی طرف جانے سے روکنے کے لئے جان کی بازی لگا دی۔ نتیجے میں یہودی اور عیسائی دونوں کے مذاہب قائم رہے اور لوگ تین حصوں میں بٹ گئے۔
آپ اس اسے اندازہ کرلیں کہ عیسائی کیتھولک کے پوپ پاک کا دنیا میں کیا مقام ہے، اور ان کے پیچھے اگلا پوپ پال بننے کے لئے ایک لمبی قطار ہے اور یہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آرہا ہے، کیا وہ یہ برداشت کریں گے کہ لوگ کسی اور دین کی طرف چلے جائیں؟ آخر میں مذہب اسلام آتا ہے۔ آج کئی سو سال گزرنے کے بعد دین اسلام میں بھی کئی مسلک اور فرقے بن گئے۔ یہاں بھی وہی خوف زدہ مذہبی ٹھیکے دار ہیں جنہوں نے اپنے ہی مذہب میں شاخیں نکال کر لیڈر بن گئے اور لوگوں کو دوسرے فرقے یا مسلک کی طرف جانے سے روک رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے ہوئے ہیں ان تمام مسلک اور فرقوں کا دین ایک ہی ہے۔ دین اسلام لیکن کردار، حالات اور گزرے واقعات کو جواز بنا کر تقسیم کردیا گیا ہے جب کہ ان کردار، واقعات کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے جو امن اور محبت کی تعلیم دیتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں