Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 238

بدقسمت خوش قسمت

جب کسی شخص کے ساتھ بار بار برا ہی ہوتا رہے تو وہ بدقسمت کہلات اہے اور جب ہر کام اچھا ہوتا رہے تو کہا جاتا ہے کہ خوش قسمت ہے ایسے انسان کا شمار خوش نصیبوں میں ہوتا ہے اگر کسی شخص کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو اسے اس کی بدقسمتی کا نام دیا جاتا ہے لیکن جب وہ اس حادثے سے بچ جاتا ہی تو خوش قسمت تصور کیا جات اہے اس حساب سے اگر کسی شخص کو متعدد بار حادثہ ہوا ہو اور وہ ہر حادچے میں بچ نکلے تو پھر وہ بدقسمتی خوش نصیب کہلاا ہے۔ کیوں کہ یہ اس کی بدقسمتی ہے کہ ہر حادثے کے وقت وہ وہاں موجود تھا اور خوش نصیبی یہ ہے کہ وہ ہر مرتبہ محفوظ رہا۔ یہ صرف ایک خام خیالی یا قیاس نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں ایک ایسا شخص موجود ہے۔ موت جس کے پیچھے بھاگتی رہی اور وہ ہر مرتبہ موت کو جل دے گیا اس کے ساتھ مختلف اوقات میں سات بڑے حادثے ہوئے جس میں کار ایکسیڈنٹ سے ہوائی جہاز تباہ ہونے تک کے واقعات ہیں اور وہ ہر حادثے میں صفائی سے بچ نکلا اب یہ اس کی بدقسمتی ہے کہ ہر اس حادثے کے وقت وہ وہاں موجود تھا یا خوش نصیبی ہے کہ وہ ہر مرتبہ حادثے سے بچ گیا۔
لوگ آج تک فیصلہ نہیں کر پائے کہ اسے خوش نصیبوں میں شمار کریں یا بدنصیبوں میں، لہذا لوگوں نے اس کو بدقسمت خوش نصیب کا نام دے دیا ہے۔ اس شخص کا نام فرین سالک Frane Salik ہے اور یہ کوروشیا کا رہنے والا ہے کوروشیا وسطی اور جنوب مشرقی یوروپ کے سنگم پر واقع ہے اس کی سرحدیں شمالی مغرب میں سلووینیا اور شمال مشرق میں ہنگری سے ملتی ہیں۔ مشرق میں بوسنیا ہے اور سمندر سرحد اٹلی سے ملتی ہے۔ ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی آبادی تقریباً 40 لاکھ پر مشتمل ہے۔ اکثریت عیسائیوں کی ہے۔
فرین سالک 14 جون 1929ءکو کوروشیا کے دارالخلافہ زیگریب میں پیدا ہوا، موسیقی سے بے انتہا لگاﺅ تھا، ایک اسکول میں میوزک ٹیچر بھی رہا، 32 سال کی عمر تک اس کی زندگی میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا لیکن پہلا واقعہ جنوری 1962ءمیں اس کے ساتھ پیش آیا جب وہ ساریجو شہر سے دوسرے شہر ٹرین میں جارہا تھا۔ سرعدیوں کا دن تھا اور چاروں طرف پانی برف بن چکا تھا، ٹرین ایک دریا کے اوپر سے جارہی تھی کہ ٹرین کی پٹڑی میں کچھ نقص کی وجہ سے ٹرین پٹڑی سے اتر گئی اور ایک ڈبہ دریا میں جا گیرا جس کی سطح پر برف جمی ہوئی تھی۔ سترہ مسافر ہلاک ہو گئے لیکن سالک کسی طرح دریا سے نکل آیا بچ گیا۔ سالک کے بازو میں ہلکا سا فریکچر ہوا۔ یہ اس کی زندگی کا ہپلا حادثہ تھا، لیکن آخری نہیں تھا اس حادثے کے ٹھیک ایک سال بعد 1963ءمیں اسے ایک اور بڑے حادثے کو دیکھنا پڑا، سالک زیگریب میں تھا جب کہ اس کی ماں دوسرے شہر میں تھی، سالک کو خبر ملی کہ اس کی ماں سخت بیمار ہو گئی ہے اس نے پہلی فلائیٹ سے جانے کی کوشش کی، لیکن ایئرلائن سے پتہ چلا جہاز میں کوئی سیٹ نہیں ہے جب کہ سالک کو ہر قیمت پر اسی فلائیٹ سے جانا تھا اس نے بہت منت سماجت کی تو اسے سفری مہمان یعنی فلائٹ اٹینڈینٹ کے ساتھ اس کی سیٹ پر بیٹھنے کی اجازت مل گئی یہ اس کی زندگی کا پہلا ہوائی سفر تھا اور شاید آخری سالک جس جگہ بیٹھا تھا اس کے برابر میں ہی ایمرجنسی کا دروازہ تھا۔ جہاز فضا ہی میں تھا کہ اچانک اس کے دونوں انجن بند ہو گئے اور کیبن میں ہوا کا دباﺅ کم ہو گیا جہاز زمین سے ٹکرانے ہی والا تھا کہ سالک کے قریب ایمرجنسی دروازہ ایک جھٹکے سے ٹوٹ کر گرا اور سالک باہر ہوا میں جا گرا اسے یقین ہو گیا کہ موت اس سے چند ہی لمحوں کے فاصلے پر ہے لیکن وہ زمین پر گرنے کے بجائے گھاس کے ایک ڈھیر پر جا گرا۔ چند زخم آئے لیکن وہ زندہ سلامت رہا جب کہ جہاز آگے جا کر گر گیا اور تمام مسافر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس ہولناک تجربے کے بعد اس نے کبھی ہوائی سفر نہیں کیا اس حادثے کے تین سال بعد 1968ءمیں وہ ایک بسر میں سفر کررہا تھا، سڑک پر برفانی پھلسن تھی ایک جگہ جھیل کے کنارے بس پھسل کر قابو سے باہر ہو گئی اور جھیل میں جا گری۔ چار مسافر ہلاک ہو گئے لیکن سالک زندہ سلامت باہر نکل آیا۔ اس حادثے کے بعد اس نے سوچا کہ وہ کسی بھی بس ٹرین یا جہاز میں سفر نہیں کرے گا بلکہ صرف اپنی کار استعمال کرے گا لیکن اس کا یہ خیال چار سال بعد غلط نکلا۔
1970ءمیں وہ اپنے کسی کام سے کار میں جارہ اتھا کہ اچانک اس کی کار میں آگ بھڑک اٹھی وہ بڑی مشکل سے کار سے چھلانگ لگا کر ایک قریبی درخت پر چڑھ گیا اور کچھ ہی فاصلے پر اس کی کار پیٹرول ٹنکی پھٹ جانے سے دھماکے سے اڑ گئی اور وہ بچ گیا۔ اس کے تین سال بعد 1973ءمیں پھر اس کی کار کا فیول پمپ پھٹ گیا، سالک کے تمام بال جل گئی لیکن اس مرتبہ بھی وہ کار سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس حادثے کے 22 سال تک اس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش نہیں آیا لیکن 1995ءمیں جب وہ زیگریب کی ایک سڑک پر پیدل جارہا تھا کہ پیچھے سے آنے والی ایک بس نے اسے ٹکر ماری اور وہ دور جا گرا لیکن چند معمولی زخم آئے اور وہ پیروں پر کھڑا ہو گیا۔ اس کے ایک سال بعد 1996ءمیں وہ پھر ایک خوفناک حادثے سے بال بال بچا یہ ساتواں اور آخری حادثہ تھا جب وہ ایک پہاڑی علاقے کی سڑک پر کار میں جا رہا تھا یہ دوطرفہ سڑک تھی سامنے سے آنے والا یونائیٹڈ نیشن کا ٹرک اس کی لائن میں آگیا، اس نے ٹکر بچانے کی کوشش کی اور اس کی کار سیدھے ہاتھ کی رکاوٹ توڑتی ہوئی گہری کھائی میں جاگری لیک نیچے جانے سے پہلے سالک کار سے باہر نکل چلا تھا اور ایک قریبی درخت سے ٹکرا کر رک گیا تھا۔ کار نیچے کھائی میں جا کر تباہ ہو گئی لیکن سالک محفوظ رہا۔ 2003ءمیں جب وہ 73 سال کا تھا اس کی گیارہ لاکھ دس ہزار ڈالر کی لاٹری نکل آئی اس نے دو گھر اور ایک بوٹ خریدلی اس کے باوجود اس کے پاس اچھی خاصی رقم بچ گئی جو اس نے سات سال بعد 2010ءمیں دوستوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کردی۔ سالک 92 سال کا ہے اور کوروشیا میں مزے کی زندگی گزار رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں