Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 463

برف کی سِل

اس کائنات میں بے شمار ایسے سیّارے ہیں جہاں حرارت کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔سرد بے جان برف کی مانند منجمد،زندگی کا کوئی تصوّر نہیں ہے زمین کے بھی کچھ حصّے ایسے ہیں جو ہمیشہ ہی برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔وہاں زندگی کا کوئی وجود نہیں ہے۔برف ہر احساس سے عاری ہوتی ہے منجمد ،خاموش لیکن پانی زندگی کا پتہ دیتا ہے حرارت ،ہلچل اس میں زندگی کا عکس دکھائی دیتا ہے بہتے ہوئے دریا اور سمندر کے پانی کا شورساحل سے ٹکراٹکراکر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے اگر پانی ٹھہرا ہوا بھی ہے تو کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرتا ہے اس میں اگر پتھّر پھینکا جائے تو دیر تک احتجا جا” لہریں بنتی ہیں پانی میں ہلچل مچ جاتی ہے اور ناراضگی کا اظہار بھی زور شور سے ہوتا ہے جب کہ برف کے اوپر کسی قسم کا کوئی اثر نہیں ہوتا پتھّر مارو پھر بھی ساکت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا لیکن بے جان منجمد اور اس دنیا میں ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں دیکھنے کو اور کہنے کو زندگی بھی ہے اور پانی بھی ہے لیکن پھر بھی برف کا شہر معلوم ہوتا ہے جس پر بے شمار وعدے اور قسمیں لکھی جاتی ہیں اور برف پر لکھی تحریر تو عارضی ہی ہوتی ہے ۔وہاں کے باسیوں کی سوچ احساسات سب برف کی مانند ہیں برف کے اوپر کوڑے مارو پتھّر پھینکو ٹکڑے ٹکڑے کردو کتنے ہی ظلم و ستم ڈھادو برف کی سل پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔اس ملک کے رہنے والے ایسے ہی ہوچکے ہیں پانی زندگی کا تو پتہ دیتا ہے لیکن اگر چھوٹے چھوٹے جو ہڑ کی شکل میں علیحدہ علیحدہ ہے تو اپنے اپنے مقام پر ہی مچلتا رہتا ہے اگر ایک ساتھ مل کر دریا کی شکل میں بہہ رہا ہے تو اپنا راستہ خود بناتا ہے اور راستے میں آنے والی ہر رکاوٹوں کو ہٹاتا ہوا اور دیواروں میں شگاف ڈالتا ہوا بند توڑتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا رہتا ہے کسی رکاوٹ کو برداشت نہیں کرتا۔دریا پانی کے اتّحاد سے بنتا ہے جس کی ہمارے پاس بے انتہا کمی ہے عوام کی طاقت بھی اس دریا کی مانند ہوتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک کے 20 یا 22 کروڑ عوام کو اپنی طاقت کا بالکل بھی اندازہ نہیں ہے۔حکومتیں کسی فرد واحد یا کسی ایک پارٹی کے فیصلوں سے نہیں بنتی ہیں۔بلکہ عوام کی ایک بڑی تعداد کے فیصلوں سے بنتی اور بگڑتی ہیں ۔عوام کا ایک اہم کردار ہوتا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے عوام نے اپنے سارے فیصلے تمام حقوق اپنے اپنے لیڈروں کے حوالے کردئے ہیں۔ملک میں تبدیلی کے سب خواہش مند ہیں لیکن اس کے لئے خود کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے۔آم کھانے کو سب تیّار ہیں لیکن ڈالی ہلانے کو کوئی بھی تیّار نہیں ہے۔تبدیلی کسی فرد واحد یا پارٹی سے نہیں آتی بلکہ عوام کی مرضی اور خود کچھ کرنے سے آتی ہے گھروں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر اور ٹاک شو کی صورت میں مداری تماشہ دیکھ کر نہیں آتی ہے۔اور کچھ لوگ اگر عملی طور پر کچھ کرنے کے لئے باہر بھی نکلتے ہیں تو یہ وہ لوگ ہیں جن کی ہمدردیاں اپنے اپنے سیاسی لیڈروں کے ساتھ ہیں اور صرف ان کے کہنے پر عمل کرتے ہیں جن کے وعدے اور قسمیں برف کی سل پر لکھے ہوتے ہیں۔اس طرح تو تبدیلی صرف ان کا خواب ہے جو یہ خواب دیکھتے رہنا چاہتے ہیں۔ایک بڑی تعداد یہ چاہتی ہے کہ ن لیگ یا پیپلز پارٹی کو اقتدار مل جائے۔کیونکہ ملک ان دونوں پارٹیوں کے باپ کا ہے۔اور کسی میں اتنی ہمّت نہیں ہے کہ ملک کو ان ہاتھوں سے آزاد کرالیں۔کیونکہ ہمارے عوام برف کی سل ہیں بلکہ پورا ملک برف کے شہر کی مانند ہے یہ برف کا شہر بڑے بڑے سانحوں سے گزر چکا ہے۔لیکن یہاں رہنے والی برف کی سلوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ہاں کچھ لمحے کے لئے برف پگھلتی ہے لیکن فورا” ہی جم جاتی ہے اس ملک کی حالت اور عوام کی بے حسی دیکھیں کے ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک کہاں سے کہاں پہونچ گئے۔ان ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی معاہدے کئے۔تعلقّات بڑھائے صنعتیں لگائیں۔اور ہمارے ملک میں اگر کسی نے صنعت لگانے یا کسی ترقّیاتی منصوبے کی بات کی تو اعلی’ افسران یہاں تک کے حکمرانوں تک نے اپنے ذاتی کمیشن کی بات کی نتیجے میں سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے اور ساری دنیا میں بدنام ہوئے اور ٹین پرسنٹ ابھی تک کہلائے جاتے ہیں۔پتہ نہیں ہم لوگ کس خوش فہمی میں زندہ رہے یا ہمارے حکمران ہمیں اس خوش فہمی میں رکھے رہے کہ ہم سب سے بہتر ہیں ہمارے مقابلے کا کوئی نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ واقعی بے شمار معاملات میں ہمارے مقابلے کا کوئی نہیں ہے کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں پورے ملک میں اندھیرا چھاجائے کچھ سال پہلے یہ بھی ہوچکا ہے۔بجلی کی ادائیگی اس میں استعمال ہونے والے تیل کی ادائیگی کے لئے حکومت کے پاس پیسے نہ ہوں۔حہاں پیٹرول کا بحران ہو لوگ لائنیں لگائے پیٹرول پمپ پر کھڑے ہوں ہے کوئی ایسی جگہ۔جہاں کوئی ایسا علاقہ بھی ہو جہاں پانی نا ہونے سے بے شمار بچّے مر چکے ہوں اور کسی کے کان پر جوں نہ رینگے۔جہاں بچّے بھوک سے دم توڑ رہے ہوں اور حرام کمائی والے ہوٹلوں میں تکّے اڑارہے ہوں۔جہاں صرف پینے کے پانی کے انتظار میں لوگ ساری ساری رات بیٹھے ہوں اور پانی کے لئے لمبی لمبی قطاریں لگی ہوں۔جہاں صرف دو وقت کی روٹی کے لئے گلا کاٹ دیا جائے۔دوسرے ممالک ہم سے کٹتے چلے گئے سرمایہ کاری صرف ان ممالک میں ہوئی جو ہم سے بہت پیچھے تھے اور اب ہم سے بہت آگے ہیں۔اور ہم ابھی تک اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ کون سا لیڈر یا سیاسی پارٹی چور ہے اور کون ایماندار ہے کون سا مسلک یا فرقہ صحیح ہے اور کون سا غلط کس کو جنّت میں جانا چاہئے اور کس کو جہنّم میں بھیجنا ہے۔کس پارٹی کو حکومت میں آنا چاہئے اور کس کو نہیں۔72 سال میں یہی فیصلہ نہیں ہوسکا کہ کون سی سیاسی پارٹی یا لیڈر ہمارے لئے موزوں ہے۔نکمّی اور کرپٹ قیادت تو رہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ قوم بھی برف کی سل ہی بنی رہی جس کو یہ احساس ہی نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے 72سال سے ہم حالت جنگ میں ہیں۔یہ وہ جنگ نہیں ہے جو کبھی تیر و تلوار سے اور آج بموں میزائیل سے لڑی جاتی ہے اور جو وقتی ہوتی ہے لیکن ہم جس حالت جنگ میں ہیں وہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ہے۔اقتدار کی جنگ غربت و امارت کی جنگ فرقوں مسلکوں کی جنگ ،ایک دوسرے سے زیادہ پیسہ بنانے اور آگے بڑھنے کی جنگ نام نمود کی جنگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جنگ ،سامان تعیش میں اضافے کی جنگ اتّحاد کی بات تو دور رہی ہمارا یہ حال ہے کہ دوست ،رشتے دار ، محلّے دار ،ہم جماعت سب سے دل میں نفرت چھپائی ہوئی ہے ایک دوسرے کو آگے بڑھتے نہیں دیکھ سکتے خدا اس قوم کی حالت کس طرح بدلے جس کو خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں