Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 550

بے حس قوم

تحریک آزادی اور تحریک پاکستان جدا جدا نہیں ہیں ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں۔یہ تحریک آزادی ہی تھی جس نے کامیاب ہوکر تحریک پاکستان کو جنم دیا ورنہ تحریک آزادی کی شروعات میں تو پاکستان کا کوئی تصوّر ہی نہیں تھا۔ تو کیا وہ لوگ جنہوں نے تحریک آزادی میں حصّہ لیا اور اپنے جان و مال کی قربانیاں دیں جیلوں کی صعوبتوں کا مقابلہ کیا ،کیا وہ ہیرو نہیں ہیں قابل تحسین قابل عزّت اور محسن نہیں ہیں۔پاکستان میں کتنے لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ کون لوگ تھے لوگ تو صرف ان کو جانتے ہیں جن کے نام سامنے لائے گئے اور ان کے ناموں کی تشہیر ہوئی۔اور یہ نام بڑے بڑے نوابوں اور جاگیر داروں ،سرمایہ داروں کے تھے۔پاکستان کے بانیوں کی پرانی تصاویر دیکھ لیں سب کے سب مشہور و معروف نواب بیٹھے ہوئے ہیں۔کو ئی بھی تحریک ہو غربت میں جنم لیتی ہے اور کامیابی کے قریب پہونچتے ہی امارت کے ہاتھوں اغواءہوجاتی ہے۔جو اس تحریک کے اصل حقدار ہوتے ہیں ان کو پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے اور ان کا کوئی نام لیوا بھی نہیں ہوتا ہے۔بھٹّو اور بے نظیر کی سال گرہ اور برسی ہر سال منائی جاتی ہے لیکن کتنے لوگ جانتے ہیں کہ مولانا محمّد علی جوہر ،شوکت علی جوہر ،سرسید احمد خان اور چودھری خلیق الزماں کی پیدائش اور برسی کا کون سا دن ہے۔ یہ تو وہ نام ہیں جو ابھی زندہ ہیں کچھ نام تو ایسے بھی ہیں جو تاریخ کے دیمک زدہ صفحات میں گم ہوچکے ہیں۔میر ولایت علی بمبوق جو کہ سرسید احمد خان اور سید محمود کے دور میں علی گڑھ کالج کے استاد تھے اور چودھری خلیق الزمان اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے ساتھیوں میں سے تھے ، اس وقت کے مشہور زمانہ اخبار ات کامریڈ اور نیو ایرا سے تعلق کی بنائ پر انگریزوں نے ان کا نام باغیوں میں شامل کیا۔ دوسری شخصیت رفیع احمد قدوائی 60 سال کی عمر تک جی سکے لیکن ان ساٹھ سالوں میں سے آزادی کی قیمت چکانے کے لئے تیرہ سال جیل کی کوٹھریوں میں گزارے۔ ڈاکٹر سیف الدین کا شمار تحریک آزادی کے کمانڈر کی حیثیت سے ہوتا ہے پنجاب کے بڑے لیڈر مانے جاتے تھے۔ یہ صرف چند ناموں کا میں نے ذکر کیا ہے ایک لمبی فہرست ہے جس میں مرد اور ساوتری دیوی {مسز جعفر جیسی خواتین شامل ہیں۔جن پر بے پناہ تشدد ہوا اور جیل کی صعوبتیں جھیلیں۔لیکن یہ تمام نام ماضی میں گم ہوچکے ہیں۔بہرحال زرا آگے چلتے ہیں۔قائد اعظم محمد علی جناح بیرسٹر تھے اور لندن میں بہت آرام دہ اور پرسکون زندگی گزاررہے تھے۔ پیسہ اور عزّت دونوں کی کمی نہیں تھی۔سوال یہ ہے کہ انڈیا میں بے شمار لیڈر پیدا ہوئے جوشیلے پڑھے لکھے اور قابل ترین افراد تھے ۔تحریک آزادی میں بھی بھرپور حصّہ لیا پھر کیا وجہ تھی کہ قائد اعظم کو خصوصی طور پر بلایا گیا اور تحریکی نمائندگی کا کام سونپا گیا ،اس لئے کہ اس زمانے کے تمام قابل پڑھے لکھے اور جوش و جنون سے بھرپور لوگ یہ سمجھتے تھے کہ قائد اعظم ہی وہ واحد شخصیت ہیں جو انگریزوں کے دباو¿ میں نہیں آسکتے جو انگریزوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتے ہیں جو ان کی ہی زبان میں اپنا نقطہ نظر بیان کرسکیں۔جو انگریزوں کے غلط سلوک پر تنقید اور ان کی زیادتیوں پر کھل کر احتجاج کرسکیں۔ جو اپنی جوشیلی تقریروں سے تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے جیالوں میں نئی روح پھونک سکیں اور انگریزوں کو اپنے الفاظوں سے متاثر کرسکیں۔ بد قسمتی سے قائد اعظم کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو قوم کی صحیح ترجمانی کرسکے۔ پاکستان بننے کے ساتھ ہی سب سے پہلے قائد اعظم کو ایک کنارے کیا گیا بلکہ گھر میں ہی ان کی وفات تک نظر بند کردیا گیا۔اور ملک پر مفاد پرستوں کا قبضہ ہوگیا اور کرسی کے لئے رسّہ کشی اور مل جانے کے بعد لوٹ مار ہوتی رہی۔اب بہتّر سال کے بعد پاکستان کو دوسرا قائد اعظم ملا ہے جو کہ وہی کام کررہا ہے جس کے لئے اس زمانے میں قائد اعظم کو بلایا گیا تھا۔جو انگریزوں کے درمیان جاکر اسی طرح اپنے ملک اور مذہب کی نمائندگی کررہا ہے ۔لیکن ایک فرق ہے آج لوگوں کے رویّے دیکھ کر یہ احساس ہورہا ہے کہ جہالت پر تعلیم کا کوئی اثر نہیں ہوتا جہالت کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اس زمانے کے لوگ تعلیم یافتہ بھی تھے اور غیر تعلیم یافتہ بھی تھے لیکن دونوں صورتوں میں جاہل نہیں تھے اس لئے قائد اعظم کواور ان کی باتوں اور تقریروں کو سمجھتے تھے۔ لیکن آج تعلیم یافتہ ہوں یا غیر تعلیم یافتہ اگر وہ عمران خان کو نہیں سمجھ سکتے تو ان کا شمار جاہلوں میں ہی ہوسکتا ہے۔آج کہا جارہا ہے کہ تقریروں سے کیا فائدہ اور کل یہی قوم بھٹّو ،بے نظیر اور نواز شریف کی جھوٹی تقریروں سے متاثر ہوکر ان کو ووٹ دیتی تھی۔عمران خان کی اقوام متحدہ میں تقریر سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ پا کستان کی نمائندگی اس سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا۔جہالت کی انتہا دیکھیں کہ دنیا بھر کی میڈیا میں عمران خان کو سراہا جارہا ہے اور ہماری قوم کی میں نہ مانوں ختم نہیں ہورہی ہے۔آج قوم جن حالات سے گزر رہی ہے غربت افلاس مہنگائی کیا یہ کوئی نئی بات ہے ہم نے بھٹّو کا دور بھی دیکھا جب پارٹی کے لوگ اور وزرائ عیّاشیوں میں لگے ہوئے تھے اور لوگ بھوک اور بے روز گاری سے اپنی جانیں دے رہے تھے غریب کا والی وارث کسی بھی دور میں کوئی بھی نہیں رہا۔ عمران خان پوری کوشش کررہا ہے کہ ملک کو بحران سے نکالا جائے لیکن رکاوٹ کہیں باہر سے نہیں اندر سے ہی ہورہی ہے۔ میں نے فیس بک پر کسی کی پوسٹ دیکھی جس کا تعلق بالکل آج کے حالات سے ہی ہے۔اس میں ایک قصّہ بیان کیا گیا ہے کہ مصر کا حکمران محمّد کریم فرانس کے نپولین کے ساتھ بہت بہادری سے لڑا اور اس کی فوج کو کافی نقصان پہونچایا۔لیکن بد قسمتی سے یہ جنگ جیت نہ سکا اور قیدی بنالیا گیا۔اور مصر پر نپولین نے قبضہ کرلیا۔ نپولین کے سامنے محمّد کریم کو زنجیروں میں جکڑ کر پیش کیا گیا وہ اس کی بہادری اور دلیری سے بہت متاثر تھا اس نے کہا تم نے میرے بہت سے اہم اور طاقتور فوجی مارے ہیں اور اس کی سزا موت ہوسکتی ہے لیکن میں تمھاری بہادری اور ملک کو بچانے کے جذبے کی قدر کرتا ہوں اور تمھیں ایک موقعہ دیتا ہوں کہ اگر تم میرے مارے جانے والے فوجیوں کا قصّاص ادا کردو تو تمھاری جان بخشی ہوسکتی ہے۔محمّد کریم نپولین کے فوجیوں کے ہمراہ شہر کے بڑے بڑے تاجر اور مالدار حضرات کے پاس پہونچا اور اسے یہ یقین تھا کہ یہ لوگ اس کے سامنے اپنا خزانہ ڈھیر کردیں گے کیونکہ ان کی خاطر اس نے ایک طویل جنگ لڑی ہے لیکن نتیجہ اس کے برعکس تھا ان سب نے منہ پھیرلیا وہ ناکام نامراد شرمندگی سے سر جھکائے نپولین کے سامنے حاضر ہوا تو نپولین نے کہا میں تمھیں اس لئے نہیں موت کی سزا دوں گا کہ تم نے میرے فوجی مارے ہیں بلکہ اس لئے سزا دوں گا کہ تم ایک جاہل قوم کے لئے لڑتے رہے ۔ جن کو تمھارا کوئی احساس نہیں ہے۔عمران خان بھی ایک جاہل قوم کے لئے لڑ رہا ہے ایک ایسی قوم کے لئے جس کے نزدیک قوم کا پیسہ چوری کرنا اور ان پیسوں سےعیّاشیاں کرنا اور غربت مٹانے کے بجائے اور بڑھادینا کوئی جرم نہیں ہے لیکن یہودی سے شادی کرنا یا چھپ کر شادی کرنا بہت بڑا جرم ہے۔مجھے نہیں معلوم اس قصّے میں کتنی حقیقت ہے لیکن آج کے حالات پر بالکل صحیح ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں