Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 501

بے نام جزیرہ

یہ وہ جزیرہ تھا جہاں بے حس لوگ رہا کرتے تھے خود غرضی اور ظلم کا دور دورہ تھا۔آج یہ جزیرہ سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب چکا ہے اور اس کا کوئی نام لیوہ بھی کوئی نہیں ہے۔سمندری تحقیقاتی ادارے کو اس کے آثار ملے اور انہوں نے اسے سمندر کی گہرائی میں دریافت کیا اور وہ بھی حیران ہیں کہ ایک پورا شہر سمندر میں دفن ہے۔اس کا زکر بھی تاریخ میں موجود ہے یہاں کے رہنے والوں میں ہر طرح کی برائیاں موجود تھیں۔ چاروں طرف سے سمندر میں گھرے اس جزیرے پر کئی سمندری طوفان بھی آئے جن میں جانوں کا نقصان بھی اٹھانا پڑا لیکن پھر بھی یہاں کے لوگوں کو عقل نہ آئی طاقتور کمزوروں پر حاوی تھا انصاف نام کی کوئی چیز یہاں موجود نہ تھی اور جہاں انصاف نہ ہو ایسی کسی جگہ کو اس زمین پر قائم رہنے کا کوئی حق نہیں یہی قدرت کا انصاف تھا کہ اس جزیرے کو سمندر برد کردیا گیا۔زمانہ طالب علمی میں علّامہ اقبال سے کسی غیر مسلم نے سوال کیا کہ اسلام میں سب سے اچھّی بات کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اسلام کی روح انصاف ہے وہ معاشرہ اسلامی معاشرہ نہیں کہلاسکتا جہاں مکمل انصاف نہ ہو انصاف کے بغیر اسلامی معاشرہ بے سکون رہتا ہے جس ملک میں انصاف ختم ہونے لگتا ہے تو وہاں عدالتوں کو چھوڑ کر لوگ خود انصاف کرنا شروع کردیتے ہیں گویا مجبوراً قانون کو ہاتھ میں لینا پڑتا ہے ۔انقلاب فرانس اور انقلاب ایران اس کی واضع مثال ہیں۔امیر تیمور کے زمانے میں جب لوگوں نے انصاف اپنے ہاتھوں میں لینا شروع کیا تو اس نے تمام عدالتوں کے قاضی بدل ڈالے اور جرائم ختم ہوگئے۔دنیا کے کئی ممالک میں عدالتوں کا نام تو موجود ہے لیکن مکمل انصاف کسی بھی جگہ نہیں ہے لیکن نا انصافی کی شرح اتنی کم ہے کہ عام لوگوں پر اس کا بہت زیادہ اثر نہیں پڑ تا ہے لیکن ایسا ملک جہاں انصاف ایک تماشہ ہو۔انصاف کے نام پر تمام فوائد مخصوص لوگوں کو حاصل ہوں اور عام لوگوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہو وہاں بے سکونی ہونا لازمی ہے۔ہر روز ایک نئی اور عجیب کہانی جنم لیتی ہے کسی بھی قسم کا واقعہ ہو اس میں ملکی سیاست ملوّث ہوجاتی ہے حالانکہ اس واقعے کا سیا ست سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ہے۔سیاست دانوں کے بڑے بڑے بیانات جن سے حقیقت کا دور دور تعلّق نہیں ہوتا ہے عوام اتنے بے حس ہوتے جارہے ہیں کہ وہ ٹی وی ٹاک شو صرف تفریح کے لئے دیکھتے ہیں۔ان میں اگر کسی مسائل پر کبھی بات بھی کی جاتی ہے تو کوئی توجّہ نہیں دیتا ہے۔سیاست دانوں کی نوک جھونک ایک روسرے کو برا بھلا کہنا۔ایک دوسرے کے غلط کاموں کو منظر عام پر لانا اور پھر ٹی وی اینکر سنجیدہ سے سنجیدہ موضوع کو کامیڈی شو بنانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔اور قوم کو صرف تفریح کی فکر ہوتی ہے۔دنیا کے تمام ممالک میں لوگ سربراہ یا حکومتی محکموں میں اس لئے نہیں ہوتے کہ وہ محبّ وطن ہیں۔بلکہ وہ ان کی نوکری ہوتی ہے کسی ملک کا صدر یا وزیراعظم محبّ وطنی کی بنیاد پر اس مقام پر نہیں ہوتا ہے بلکہ اس میں اتنی قابلیت ہوتی ہے کہ وہ ملک کو چلا سکے اور حکومتی امور کو بخوبی انجام دے سکے اور اپنی اس صلاحیت اور تعلیم کی وہ تنخواہ لیتا ہے جو کہ پبلک کے ٹیکس سے ادا کی جاتی ہے اس لحاظ سے وہ قوم کا نوکر ہوتا ہے صرف وہ ہی نہیں بلکہ حکومت میں شامل تمام وزراءاور عہدے دار اور جو لوگ بھی ملکی امور میں کن کے ساتھ ہوتے ہیں وہ سب اس بنیاد پر کام نہیں کرتے کہ وہ صرف محبّ وطن ہیں یہ ان کی نوکری ہوتی ہے اور وہ عوام کے نوکر ہوتے ہیں۔جس قوم میں اس قسم کی سوچ ہوتی ہے صرف وہی قومیں ترقّی بھی کرتی ہیں۔ہمارے یہاں سیاسی فوائد کے لئے کردار کشی کی جاتی ہے جونکہ ہمارے مذہب میں اور معاشرے میں شراب پینا بد فعل ہے کیونکہ حرام بھی ہے لہذا اس کو ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔کسی بھی امیدوار پر یہ الزام لگادیا جاتا ہے کہ یہ شرابی ہے زانی ہے۔حالانکہ اگر وہ پیتا بھی ہے تو اس سے اس کی قابلیت ،دیانت داری اور محبّ وطنی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور نہ ہی ملک کو نقصان پہونجنے کا اندیشہ ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو غیر مسلم ممالک میں کوئی بھی شراب نہیں پیتا۔شراب پینا کوئی اچھّا عمل نہیں ہے اور ہمارے مذہب میں سختی سے ممانعت ہے اور گناہ ہے۔لیکن سیاست میں جب کسی امیدوار پر یہ الزام لگایا جاتا ہے تو الزام لگانے والے اور اعتراض کرنے والےصرف وہی لوگ ہوتے ہیں جن کا تعلّق مخالف پارٹی سے ہوتا ہے۔مثلا” اگر لوگ عمران خان کو شرابی یا زانی کہتے ہیں اگر دیکھا جائے تو ان میں زرداری کے لوگ بھی ہوتے ہیں اب زرداری جیسے شخص کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ وہ کتنے وقت کا نمازی ہے یا کسی بد فعل میں نہیں ہے۔اسی طرح سے نواز شریف ہیں ،الطاف حسین اور ان کی پارٹی سے نکلی ہوئی گجک اور دوسرے کئی راہنما جن کے چیلے عام جام اپنے مخالفین کے خلاف بد گوئیاں کرتے نظر آتے ہیں۔صورت حال یہ ہے کی کوئی شخص اپنے لیڈر کی نہ تعلیم دیکھ رہا ہے نہ قابلیت اور نہ ہی کردار چور اچکّے بددیانت بدکردار لوگوں کو منتخب کرنے کی وجہ ہم زبان ہم قوم یا ہم کردار نظر آرہی ہے جوکہ ملک میں موجود تھوڑی بہت شرافت کے لئے لمحہئ فکریہ ہے۔ ہم نے کبھی اپنی قوم کا مزاج ایسا نہیں دیکھا کہ ان کو کسی دیندار سربراہ یا پارٹی کی ضرورت ہے بھٹّو سے لے کر آج تک اس قوم نے ایسے ہی سربراہ چنے ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ ایک شخص کو اٹھاّرہ سال پہلے 14سال قید دو کروڑ روپے جرمانہ 21 سال کے لئے نا اہلی کی سزا سنائی گئی جس پر بدعنوان عدالتی نظام اور سیاسی چالوں کی وجہ سے عمل در آمد نہ ہوسکا اس شخص کو قوم نے پھر وزیراعظم بنادیا جب کہ اس کی بددیانتی چوری کسی سے چھپی نہ تھی۔ آ ج کی صورت حال کافی مختلف نظر آرہی ہے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان تمام معاملات کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے اگر ایسا ہے تو سلوٹ ہے پاک فوج کو کہ جس نے ہر مشکل مرحلے میں قوم کی حفاظت کی ہے گو کہ کرپشن پر ہاتھ ڈالنے کا عمل تھوڑا سست نظر آرہا ہے لیکن خوش آئیند ہے اب تک پوری قوم صرف امیدوں پر ہی زندہ ہے لہذا کسی کی طرف سے کوئی اچھّا عمل امید کی کرن سمجھا جاتا ہے اس وقت قوم کی امیدیں عمران خان سے وابستہ ہیں خدا کرے جو کچھ نظر آرہا ہے وہ سراب نہ ہو اور آگے چل کر اس پر عمل ہوتا رہے نواز شریف کی طرح سب کو کٹہرے میں لایا جائے تو مستقبل میں بہتری کی امید ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں