Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 268

تجارت

سودے بازی یا تجارت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں لیکن اب سودے بازی شاید مایوب لفظ سمجھا جاتا ہے اس لئے زیادہ استعمال نہیں ہوتا، خاص طور پر انسانی تجارت میں بالکل نہیں ہوتا، کچھ سودوں میں کہا جاتا ہے، سودا ہو گیا یا ہو رہا ہے۔ سودے بازی کو البتہ اب جن معنوں میں ڈھالا گیا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں تجارت کے نام سے سودے بازی ہو رہی ہے یا تجارت میں سودے ہو رہے ہیں۔
تجارت کی تاریخ بہت پرانی ہے، زمانہ قدیم سے بلکہ پتھر کے زمانے سے تجارت کا سلسلہ چلا آرہا ہے گو کہ آج کی نسبت طریقہءکار مختلف تھا لیکن تجارت کی ضرورت جلد انسان نے محسوس کرلی تھی جیسے جیسے انسان وحشی دور سے تہذیب کی سیڑھی کی جانب بڑھا، پرانا طریقہ کار اپنی مدد آپ کا طریقہ بھی بدلتا چلا گیا۔ شروع کے دور میں بارٹر سسٹم کے تحت اشیاءکے بدلے اشیاءتجارت کا طریقہ کار ٹھہرا۔ یہ سلسلہ بہت عرصہ قائم رہا پھر دھات کے سکے بنائے جانے لگے اس سے پہلے کچھ عرصہ چمڑے کے سکے بھی بنائے گئے لیکن زیادہ عرصہ استعمال نہ ہوسکے اس سے پہلے دھات کے سکے اور کاغذ کے نوٹوں کا کوئی تصور نہیں تھا لہذا دھات کے سکے اور اس کے بعد کاغذ کے نوٹوں سے تجارت ہونے لگی۔
رومن ایمپائر کے خاتمے کے بعد مغربی یوروپ میں تجارت تقریباً تباہ ہو چکی تھی لیکن افریقہ، مشرق وسطیٰ، انڈیا، چین اور شمال مشرقی ایشیا کے درمیان تجارت اسی طرح قائم تھی اور مغرب میں تھوڑے بہت یہودی یوروپ کے عیسائیوں اور مشرق کے مسلمانوں کے درمیان تجارت کا ذریعہ بنے ہوئے تھے۔
چوتھی صدی عیسوی میں وسط ایشیا تجارت کا اہم مرکز تھا، وسط ایشیا براعظم ایشیا کا ایک بڑا علاقہ ہے جس کی سرحدیں کسی سمندر سے نہیں ملتی ہیں۔ روس نے جن ممالک کو وسط ایشیا کا نام دیا تھا وہ ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان پر مشتمل ہے جب کہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق بشمول یہ تمام ممالک، منگولیا، چین، تبت، ایران، افغانستان، شمالی پاکستان اور بھارتی پنجاب بھی شامل ہیں۔ وسط ایشیا میں ریشم سڑک یا سلک روڈ تجارت کا ایک اہم ذریعہ تھی اب ایک مرتبہ پھر دنیا کے کئی ممالک بارٹر سسٹم کو اپنا رہے ہیں جس میں صرف مال کے بدلے مال تجارت ہو رہی ہے۔ بارٹر سسٹم میں ایک پیچیدہ مسئلہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ چیزوں کی حیثیت اور اہمیت میں اتار چڑھاﺅ کے باعث مال کا صحیح اندازہ لگانا مشکل تھا لیکن یہ سودے ضرورت کے حساب سے ہوتے تھے، کہاں کس چیز کی کتنی ضرورت ہے، آج بھی یہی ہو رہا ہے، سیاست میں بھی ضرورت کے مطابق سودے بازی ہوتی ہے، لوگ اسی حساب سے پارٹیاں بھی تبدیل کرتے ہیں کہ کس پارٹی میں ہماری قیمت کتنی ہے، اسے انسانی تجارت میں شامل کرنا بے جا نا ہوگا۔ بعض اوقات پارٹیاں تبدیل کرنے کا جوا مہنگا بھی پڑ جاتا ہے کہ نئی پارٹی میں ان کی حیثیت چھوٹے ذرا پانی لے کر آئیں بھی ہو سکتی ہے اور اس سے آگے بڑھنے کا کوئی چانس نظر نہیں آتا تب ان کی حالت اس مثال پر صادق آتی ہے کہ لگے میں پھنسی ہڈی نا اگلی جائے اور نا نگلی جائے۔ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ اور ناجانے کیا کیا۔
ممبر پارلیمنٹ میں اور ایک عام ووٹر میں یہی بات مشترک ہے کہ سب اسی سودے بازی کی دوڑ میں لگے ہوتے ہیں پھر بین الاقوامی سطح پر یہی سودے بازی یا تجارت بڑے ممالک اپنے مفادات کی خاطر چھوٹے ملک کے بکنے والے سیاست دانوں یا میڈیا کے اہم افراد کو خرید لیتے ہیں بہرحال بات ہو رہی تھی سودے بازی کی کہ یہ دنیا یہ کائنات سب ایک سودے بازی کے اصول کے تحت چل رہی ہے، کچھ دو اور کچھ لو اسی وجہ سے پوری کائنات میں توازن قائم ہے۔ انسان، جانور، چرند، پرند ستارے، سیارے سب اس سودے میں شامل ہیں۔ زندگی کی جسم سے سودے بازی ہے کہ جسم کو کھانا پینا ملتا رہے تو زندگی قائم رہے گی۔ انسان اپنی گزر اوقات کے لئے جو بھی کام کرتا ہے تو اس امید پر کرتا ہے کہ دن، ہفتہ یا مہینے کے آخر میں اسے اس کا معاوضہ ملے گا یہ کام لینے والے کا وعدہ ہوتا ہے اور کام کرنے والا اس وعدے پر بھروسہ کرتا ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ انسان کے اس وعدے پر تو یقین ہے لیکن خدا کے وعدے پر شکوک میں مبتلا ہے یہاں دنیا اور آخرت کی سودے بازی میں تھوڑا فرق ہے۔ دنیاوی سودے بازی میں تو یقین ہے کہ اس کا معاوضہ ملے گا، آخرت کے بارے میں لوگ تذبذب کا شکار ہیں، یقینی اور بے یقینی کی کیفیت ہوتی ہے، خدا جب یہ وعدہ کررہا ہے کہ تم اگر میرے احکامات پر عمل کرو گے تو اس کے بدلے میں تمہیں دنیا اور آخرت میں اس کا اجر دوں گا تو بے شمار لوگوں کو اس وعدے کا یقین نہیں ہے۔ انسان جب بھی کوئی نیک کام کرتا ہے تو یہ سوچ کر کرتا ہے کہ اسے اللہ کی طرف سے اجر ملے گا یہ اس کا یقین ہے جو اسے نیک کام کرنے کی طرف مائل کرتا ہے اور جن کو اس بات کا یقین نہیں ہے یا ان کا یقین متزلزل ہے وہ نیکی کی طرف راغب نہیں ہوتے، دنیاوی سودوں میں تو کچھ دو اور کچھ لو کا اصول کام کرتا ہے لیکن آخرت کے اس سودے میں آپ پر نوازشیں کرنے والا آپ سے جو کچھ مانگ رہا ہے، دنیا میں رہنے اور آخرت کے لئے عبادات کرنے کے جو احکامات دیئے جارہے ہیں اس کا بھی نفع بھی آپ کو ہی مل رہا ہے، اگر ہے یقین کامل۔ بعض افراد نیکی اور عبادت کا صلہ دنیاوی مال و دولت اور پرتعیش زندگی کی صورت میں چاہتے ہیں اور جب نہیں ملتا تو بددل ہو کر نیکی اور عبادت سب چھوڑ دیتے ہیں اگر کسی غریب آدمی کی پیسے سے مدد کرکے یہ سوچا جائے کہ اس کے بدلے غیب سے پرتعیش زندگی ملے گی تو غیب سے براہ راست اس غریب آدمی کی ہی براہ راست مدد کیوں نا ہو جائے، کسی کی مدد کرکے مال و دولت یا پرتعیش زندگی تو نہیں ملتی البتہ دنیاوی تکالیف میں کمی آجاتی ہے، جس آدمی کی آپ نے مدد کی اس کی نیکیوں کی ہی وجہ سے غیب نے آپ کو اس کی مدد کا وسیلہ بنایا اور اس مدد سے غیب سے آپ کی بھی کچھ جائز خواہشات پوری ہو سکتی ہیں اور اگر کچھ پریشانیاں ہیں تو کم ہو سکتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں