Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 488

ترقّی کا کمال

دنیا نے کہا اگر حالات بہتر کرنے ہیں تو آبادی پر کنٹرول کرو اور اس کے لئے طرح طرح کے پروگرام ترتیب دئے گئے۔ لوگوں کو اس بات پر اکسایا گیا کہ کم بچّے خوشحال گھرانا۔لیکن چین ایک ایسا ملک تھا جس نے اس نظرئے کو رد کردیا اور کہا کہ اگر حالات سدھارنے ہیں تو آبادی میں اضافہ کرو۔اور چین نے یہ کردکھایا آج ترقّی کے منازل طے کرتا ہوا کہاں سے کہاں پہونچ گیا ہے 1949ءمیں چین معاشی طور پر بہت کمزور ہوچکا تھا۔چینی رہنما ماوزے تنگ نے آبادی بڑھانے پر زور دیا اور اس کے دور میں چین کی آبادی دگنی ہوگئی۔ یعنی 550 ملین سے 900 ملین تک جا پہونچی۔اس وقت چین کی آبادی ڈیڑھ بلین سے تجاوز کرگئی ہے اور سب کے سب خوشحال ہیں ۔خشکی کے لحاظ سے چین رقبے میں دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اس کا رقبہ 35 لاکھ مربع میل ہے جب کہ پہلے نمبر پر روس ہے۔چین کے بائیس صوبے ہیں لیکن وہاں کے باشندوں کی شناخت صوبے سے نہیں ہوتی وہ سب کے سب چینی کہلاتے ہیں وہ صوبائی شناخت کے بجائے ملکی شناخت کو ترجیح دیتے ہیں ۔اسی طرح چین میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ان کے پاس کوئی لسّانی مسئلہ نہیں ہے۔معاشی طور پر چین دنیا کا سب سے تیزی سے ترقّی کرنے والا ملک ہے نیو کلیر پاور ہے اس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی زمینی فوج ہے اور اس کے ڈیفنس کا بجٹ دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے خلائی سفر میں رواں دواں روس اور امریکہ کے بعد تیسرا نمبر چین کا ہے سپر پاور ہونے کی طرف تیزی سے گامزن اب آتے ہیں ہم چین کے گزرے حالات پر۔۔چین میں بادشاہت کا خاتمہ جس کا دورانیہ تقریبا” دو ہزار سال کاتھا 1912 میں ہوا اور ” ریپبلک آف چائنا ” نے جنم لیا اس سے پہلے چین بے شمار اندرونی اور بیرونی جنگوں میں الجھا رہا کبھی ترقّی کی طرف اور کبھی تنزّلی کی طرف چلتا رہا اندرونی اور بیرونی جنگوں میں اتنی بڑی تعداد میں انسانی جانوں کاضیاع بھی ایک تاریخ ہے۔ جس سے چینی قوم نے سبق سیکھا اور قربانیوں کی لاج رکھتے ہوئے درست راستے کو اپنایا کاش ہماری قوم بھی یہ سبق سیکھ سکے چین کی ان جنگوں میں 1851 سے 1881 تک کی خانہ جنگی جو انسانی تاریخ کی سب سے تباہ کن جنگیں کہلاتی ہیں جس میں انسانی جانوں کے ضیاع کا مختلف مورخین نے مختلف تخمینہ لگایا ہے جو کہ 20 ملین سے 200 ملین تک کا ہے جو کہ پہلی جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والے لوگوں کی تعداد سے زیادہ ہے 1912 میں ریپبلک آف چائنا بن جانے کے بعد بھی بدقسمتی اور تباہی کا دور ختم نہیں ہوا چین زرا سا اپنے قدموں پر کھڑا ہوا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوگیا اور 1937 سے 1945 تک چین نے بہت نقصان اٹھایا اور اس کے 20 ملین شہری پھر مارے گئے ۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد پھر اندرونی شورشیں سر اٹھانے لگیں اور اس مرتبہ پھر چین خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا جس کا خاتمہ 1949 میں ہوا اس وقت چین معاشی بحران کا شکار تھا پہلی اکتوبر 1949 کو ماوزے تنگ نے چارج سنبھالا اور چائنا کا نام پھر تبدیل ہو کر پیپلز ریپبلک آف چائنا ہوگیا۔۔ اس ہی دوران ماوزے تنگ نے آبادی بڑھانے پر زور دیا۔پاکستان کو بنے ہوئے صرف دو سال ہی ہوئے تھے اس کے باوجود کافی عرصے پاکستان چین کی مدد کرتا رہا یہ مدد صرف پیسے کی نہیں تھی لیکن ترقّی کی طرف گامزن ہونے کے لئے مختلف شعبوں میں پاکستان نے مدد کی۔ بہرحال پاکستان کی تاریخ 1947 سے شروع ہوءاور چین دو سال بعدبالکل تباہ ہوجانے کے بعد نئے سرے سے اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کررہا تھا۔تمام چینی باشندوں نے کمرکس لی اور برے حالات سے نکلنے اور ترقّی کی طرف گامزن ہونے کے لئے متّحد ہوکر قدم بڑھائے۔اور سخت محنت کے بعد اپنے ملک کو مشکل حالات سے نکال لیا۔ماوزے تنگ کا کہنا تھا کہ ملک کو اچھے حالات کی طرف لانے کا سارا کریڈٹ کسی بھی لیڈر کو نہیں بلکہ چینی عوام کو جاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ 1947 سے شروع ہوتی ہے اور چین کی 1949 سے اور آج چین سپر پاور بننے سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کی محنت اور اتحاد کا دخل ہے لیکن اس وقت کے چینی لیڈر بھی اپنے ملک اور عوا م سے مخلص تھے نا کوئی ملکی خزانے کی چوری میں ملوّث تھا اور نا ہی عوام سے نوالا چھین کر اپنی تجوریاں بھررہے تھے اور یہ بدقسمتی ہمارے ملک کے ساتھ رہی جب خزانہ ہی خالی کردیتے تھے تو ترقّی کیا خاک ہوتی۔ ان حالات میں عوام میں سے جن کو بھی موقع ملا انہوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے کیوں کےپورا معاشرہ ہی سیاسی لیڈروں کے پیچھے کرپشن کی طرف چل پڑا ملک کی ترقّی اور بچّوں کے مستقبل سے کسی کو سروکار نا رہا آج لمبا ہاتھ مار دو کل کی کل دیکھی جائے گی۔ آج تمام لیڈر تمام نمائندے اپنا اپنا کھیل کھیل رہے ہیں اپنے اپنے علاقوں میں عوام کے درمیان علاقوں کی بنیاد پر زبانوں کی بنیاد پر نفرتوں کو جنم دے دیا گیا ہے صرف سیاست چمکانے کے لئے۔ہر زبان کے ہر علاقے کے عوام کے نمائندے بے ایمان چور اور عوام کے لئے کچھ نا کرنے والے اور ہر بات کا الزام ایک دوسرے کو دے کر اپنا الّو سیدھا کررہے ہیں۔میرا تعلّق کراچی سے ہے لہذا پہلے کراچی کی بات کروں گا کراچی والوں کے ساتھ بھٹّو کے زمانے سے جو کیا گیا وہ ایک علیحدہ کہانی ہے لیکن جو کراچی والوں کو حق دلانے کے لئے کھڑے ہوئے تھے ان تمام بے غیرتوں نے کیا کیا صرف اور صرف ایک مسئلہ تھا کوٹہ سسٹم کراچی والوں کو صرف کوٹہ سسٹم کا خاتمہ چاہئے تھا ۔کوٹہ سسٹم یہ کہہ کر لگایا گیا کہ اس سے اندرون سندھ کے لوگوں کو بھی فائدہ پہونچے کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ ایسا اندرون پنجاب اندرون بلوچستان اندرون پختونخواہ کے لوگوں کے بارے میں کیوں نہیں سوچا گیا صرف سندھ ہی کیوں۔یہ تمام لوگ چاہے وہ فاروق ستّار ہوں مصطفی’ کمال یا الطاف حسین ان لوگوں نے صرف کراچی والوں کو بے وقوف بنایااور اپنا الّو سیدھا کیا۔ان لوگوں نے کبھی بھی کوٹہ سسٹم ختم کرنے کی بات نہیں کی۔ہر وقت کا رونا قوم کو صرف یہ بتانا کہ تمھارے ساتھ ظلم ہورہا ہے دوسروں کو الزام دینا اور اپنی جیبیں بھرنا۔ اسی طرح اندرون سندھ میں زرداری نے کیا۔اور پنجاب میں نواز گروپ نے کیا لوگ صرف اسی بات پر خوش تھے کہ سڑکیں بن گئیں پل بن گئے بسیں ٹرینیں جدید قسم کی آگئیں کسی کو یہ فکر نہیں کہ لوگ بھوکے مررہے ہیں روز گار نہیں ہے اور ان تمام چیزوں کی آڑ میں ان کے پورے خاندان نے پیسے بنائے اور بے وقوفوں سے واہ واہ بھی سمیٹی یہ سب آپس میں ملے ہوئے تھے سب کو سب کی کہانی معلوم تھی سیاسی مخالفت اپنی جگہ صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے لیکن پاکستان کو مل بانٹ کر کھایا گیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں