تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 641

ترکی بہ ترکی

آہستہ آہستہ چلتی ہوئی وہ جس مکان کے سامنے ٹھہرتی اس مکان کے مالک کے چہرے خوشی سے چمک جاتے، یہ ایک اونٹنی تھی جس کی سواری کوئی عام ہستی نہیں تھی، یہ وہ ہستی اشرف المخلوقات میں سب سے افضل ہستی تھی۔ اس اونٹنی پر سوار جو ہستی تھی وہ اللہ تعالیٰ کی سب سے محبوب ترین ہستی جس کی ذات کو دنیا میں رحمت بنا کر اتارا گیا۔ مکہ سے مدینہ شریف ہجرت کے موقع پر مدینہ کے لوگوں کی خواہش تھی کہ حضور اکرم ان کو شرف میزبانی بخشیں۔ ہر شخص کی خواہش تھی کہ وہ حضور اکرم کی خدمت میں دیدہ و دل فرش راہ کریں۔ وہ ذات بھی کسی ایک کے ساتھ امتیاز کرنا پسند نہیں کرتی، اعلان کردیا کہ آپ کی سواری کی اونٹنی جس صحابیؓ کے گھر پر ٹھہر جائے گی اس ہی ذات کو شرف میزبانی بخشا جائے گا۔ اونٹنی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی مدینہ شریف کی گلیوں سے گزرتی رہی، پھر ایک گھر کے پاس آکر ٹھہر گئی۔ محسوس ہوتا تھا کہ اس اونٹنی کو معلوم تھا کہ ہمارے پیارے نبی کس ہستیؓ کے مہمان بنیں گے۔ مدینہ کے لوگوں نے دیکھا کہ اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری کے مکان پر ٹھہر گئی۔ مدینہ شریف انصار حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مقدر پر رشک کرنے لگے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ میزبان رسول ان لوگوں کا میزبان بنا جن کو بعد میں اتنی شوکت و عظمت بخشی تقریباً آدھی دنیا پر ان کی حکومت قائم ہو گئی۔
حضرت ابو ایوب انصاری نے حضور اکرم کی اس بشارت کے مطابق قسطنطنیہ کی فتح کے موقع پر جنگ میں حصہ لے کر مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کیا۔ جب اس ترک قوم نے اسلام کے حلقے میں شمولیت اختیار کی تو اس ترک قوم کی شان و شوکت میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ایک وقت وہ بھی آیا انہوں نے خلافت اسلامیہ کے تحت تمام مسلمانوں کو اپنے پرچم کے سائے تلے جمع کرلیا۔ ترکوں کو جب بھی اہل قیادت ملی اس قوم نے ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ دنیا حیران ہو گئی۔ یہ ہی وجہ ہے طیب اردگان پچھلے انتخابات تقریباً 52 فیصد لوگوں کی حمایت سے حکومت کو قائم رکھا۔ پچھلے دنوں جمہوریت کے خلاف فوج کی بغاوت کو پورے ترکی کے مسلمانوں نے متحد ہو کر ناکام بنایا۔ اس کو دیکھ کر تمام دنیا انگشت بدندان ہے۔ فوج کے خلاف بغاوت میں طیب اردگان کے حمایتوں کے ساتھ ان کے مخالفین نے مل کر ناکام بنایا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے ترک فوج کے سپاہیوں نے بھی بہت سے مقامات پر عوام پر ٹینک یا گولیاں چلانے سے احتراز کیا کیونکہ وہ بھی ترک قوم کا حصہ تھے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہوا تھا جب پاکستان میں بھٹو کے خلاف تحریک چل رہی تھی، تو اس موقع پر لاہور جس کو فوج کے حوالے کیا ہوا تھا عوام پر اپنے حکمرانوں کی ہدایت کے باوجود گولیاں چلانے سے انکار کیا گیا۔ بعد میں اس ہی فوج کی حمایت میں جب پرویز مشرف نے بارہ اکتوبر 1999ءکو نواز شریف کی حکومت کا تختہ پلٹا تو پاکستان بھر کے عوام نے اس خوشی کے موقع پر اتنی مٹھائیاں تقسیم کیں کہ دکانوں پر مٹھائیاں ختم ہو گئیں۔ کہتے ہیں کہ جیسی عوام ویسے ہی حکمران۔ فوجی حکمران آیا تو عوام کے رنگ میں رنگ گیا۔ یا عوام نے اس حکمران کا انداز اختیار کرلیا۔ سیاسی حکمراں آیا وہ بھی اس ہی عوام کے رنگ میں رنگ گیا۔ برائیاں جتنی حکمرانوں میں تھی اس سے زیادہ ان کو اقتدار میں لانے والوں میں تھی۔ ترک ایک قوم ہے اس کا موازنہ اس بھیڑ سے نہ کیا جائے جو پاکستان کے مختلف علاقوں میں بستی ہے۔
2013ءکے انتخابات میں جو نتائج آئے ان کو دیکھ کر یہ ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ قومی انتخابات نہیں بلکہ علاقائی تھے۔ ہر علاقے کے لوگوں نے اپنے علاقے سے ان لوگوں کو منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجا جن کے اثرات اپنے مخصوص علاقوں تک محدود تھے۔ 2013ءکے انتخابات میں پنجاب سے تقریباً تمام افراد نواز لیگ سے منسلک تھے۔ یعنی تمام پنجابی تھے، اس طرح صوبہ سرحد جس کو کے پی کے کہتے ہیں وہاں سے صرف پٹھان امیدوار کامیاب ہوئے، سندھ کے اندرونی علاقوں سے سندھی منتخب ہوئے، بالائی علاقوں سے اردو بولنے والے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں آئے۔ اس ہی طرح بلوچستان میں بلوچ علاقوں سے بلوچی امیدوار، پختون علاقوں سے پختون منتخب ہوئے، پھر یہ تقسیم در تقسیم کا عمل اور باریک ہو گیا جب بلدیاتی انتخابات 2015ءمیں منعقد ہوئے تو تقسیم اس قدر زیادہ ہو گئی کہ پنجاب میں ذات پات برادریوں کی بنیاد پر بلدیاتی نمائندے منتخب ہوئے یعنی سندھ کے اندرونی علاقوں سے پیپلزپارٹی کے حمایت یافتہ سندھی نمائندے کامیاب ہوئے۔ بالائی سندھ نے ایم کیو ایم کے حمایت یافتہ کامیاب ہوئے، پنجاب میں نواز لیگ کے حمایت یافتہ، کے پی کے میں عمران خان کے حمایتی، یہی صورت حال بلوچستان میں دکھائی دی۔ حکومت کے ہر شعبہ میں اور سول سوسائٹی میں بھی انتشار کی کیفیت نظر آئی۔ صرف ایک ہی منظم ادارہ دکھائی دیتا ہے جو کے پاکستانی عوام کے تقسیم در تقسیم کے عمل سے مختلف ہے، وہ ہے فوج، مگر یہاں کے عوامی تقسیم کی یہی کیفیت ترکوں کی فوج میں دکھائی دی جہاں پر وہاں کے کمانڈروں نے بغاوت کی لیکن ان کے تمام سپاہیوں نے عوام پر گولیاں چلانے سے انکار کردیا۔ یعنی ترکی کی فوج میں جو تقسیم دکھائی دی وہ ہی تقسیم پاکستان کے عوام میں نظر آرہی ہے۔ اس ہی طرح ترک قوم نے ایک اس اتحاد، تنظیم اور یقین محکم پر عمل پیرا ہو کر ترکی کو دنیا کی ایسی مثال بنا دیا جس پر دنیا میں ہر کوئی حیران ہے۔ ان سے پہلے ہندوستان میں تحریک آزادی کے موقع پر ایسا ہی کارنامہ انجام دیا گیا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے جب پورے ہندوستان کے مسلمان قائد اعظم کی قیادت میں متحد ہو گئے تو انہوں نے تاریخ میں وہ کارنامہ انجام دیا کہ جیسے کہ اب ترک قوم نے بغاوت کو ناکام بنایا۔ قائد اعظم کی قیادت میں سارے ہندوستان کے مسلمان جن کی زبان ثقافت کلچر رہن سہن مختلف تھا جو کہ دوسرے علاقوں کے مسلمانوں سے نا آشنا تھے اس کے باوجود انہوں نے متحد ہو کر ایسا کارنامہ انجام دیا کہ وہ بھی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے انہوں نے اس خطہ زمین کے لئے آزادی کی تحریک چلائی جس کا جغرافیائی وجود نہیں تھا دنیا میں کسی ملک پر جس کی اپنی جغرافیائی سرحدیں موجود ہوتی ہیں جب ان پر غیر ملکی آکر قبضہ کرلیں ان کے خلاف تحریک آزادی چلا کر کامیابی حاصل کرنا ایک مختلف کامیابی ہوتی ہے مگر کسی ایک ایسے خطہ کے لئے جس کی سرحدیں آزادی حاصل کرنے پر بنائی جائیں وہ مختلف ہونے کے ساتھ دو طرفہ کامیابی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا قیام ایک معجزہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسا ہی معجزہ ترک قوم نے اس دور میں دکھایا ہے۔ ترک قوم کے اس کارنامہ پر وہاں کے عوام کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے تو اس کا موازنہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہنے والوں سے نہیں کیا جا سکتا یعنی موجودہ پاکستان کے رہنے والے پنجابی، سندھی، پٹھان، مہاجر، بلوچوں سے نہ کیا جائے بلکہ ان کا موازنہ کرنا مقصود ہے تو ان کو ہندوستان بھر کے تمام علاقوں کے مسلمانوں سے کیا جائے جنہوں نے علاقائی تعصب سے دور ہو کر دور دراز علاقوں کے مسلمانوں سے چاہے ان کی زبان پنجابی ہو، سندھی ہو، پشتو ہو، بلوچی ہو یا اردو ہو، سب ایک ہی رنگ میں رنگ کر ایک متحد قوم تھے۔ اس قوم کی تصویر موجودہ ترک مسلمانوں میں نظر آتی ہے، یہ ترک اپنے ملک کو وہی اسلام کا قلعہ بنا رہے ہیں جس کا خواب مولانا محمد علی جوہر قائد اعظم اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جن کی قیادت میں ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے مل کر 27 رمضان کو پاکستان کی بنیاد رکھی۔ آج وہی کام ترکی کے عوام نے انجام دیا اور دنیا کو ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں