پاکستان اور 8 فروری 2024ءانتخابات 294

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

صحافت ایک دفعہ پھر عدالت میں طلب کرلی گئی ہے اس دفعہ کی حلفیہ بیان کی اشاعت کے سلسلے میں۔ صحافت ایک امانت اور آزادی رائے ہر ایک کا بنیادی حق اور دونوں میں توازن رکھنا ایک مشکل ترین مرحلہ، رپورٹنگ سے لے کر ایڈیٹوریل یا ادارتی بورڈ سے منسلک چاہے وہ پرنٹ میڈیا یا الیکٹرونک سے تعلق رکھتا ہو۔ ہر فرد یہ بوجھ اٹھائے پھرتا ہے۔ صحیح اور مصدقہ خبریں دینے سے لے کر پسند و ناپسند اور جانب داری سے گریز رکھنا ہے اس پیشے کی اہم ترین شرط ہے۔ صحافت کی تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہے جہاں بہترین لکھنے والوں پر قدغن لگائی گئی، کبھی خود ان کے اداروں کی جانب سے اور کبھی ان کی طرف سے جن کا ذکر کیا گیا ہو۔ اخبارات اور جرائد کو مشکل حالات سے دوچار کردیا گیا مگر ایماندارانہ صحافت اپنے راستوں پر گامزن رہی۔
مثالیں ایسی بھی ہیں کہ صحافت نے قوموں کی تربیت اور پرورش میں اہم کردار ادا کئے۔ بدقسمتی یہ کہ موجودہ دور میں ایک اصطلاح ”زرد صحافت“ کی بھی ایجاد ہوئی، ممکن ہے اس کا وجود ماضی میں بھی رہا ہو مگر جس زور و شور سے خود صحافی ایک دوسرے پر ”زرد“ ہونے کا اعلان کرتے ہیں وہ اس سے قبل صرف ذومعنی تبصروں میں ہی بیان کئے جاتے تھے۔ ایسے نظریہ کے مخالف تحریروں میں ردوبدل کرنا یا مضامین روک لینا تو مشہور تھا مگر ان کے عوض مراعات حاصل کرنا عام نہیں تھا اس کے علاوہ سیاسی وابستگیوں سے بھی صحافی دوری اختیار رکھتے تھے۔
اس وقت اس تازہ حلفیہ بیان جو کہ ایک سابق جسٹس کی طرف سے آیا ہے اور اخبارات میں سرخیوں کے ساتھ شائع ہوا ہے، عدالت نے صحافیوں کو شوکاز نوٹس جاری کردیئے ہیں اور اس پر سیاسی تبصرے اور بیانات حزب اختلاف اور حکومت دونوں کی طرف سے شروع ہو گئے ہیں۔
حکومت تو اس وقت ویسے ہی مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ سینٹ اور قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس ایک دفعہ منسوخ کرنے کے بعد اب دوبارہ بلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اتحادیوں نے شک و شبہات کا طبل بجانے کے بعد پھر حکومت کو ہمراہی کا یقین دلایا ہے۔ حکومت تو ابھی تحریک لبیک پاکستان کے معاملے میں سر نہیں اٹھا پائی تھی جس نے تحریک انصاف کی حکومت کو ایک دشوار صورت حال سے دوچار کیا۔
پاکستان کے سیاسی افق پر ابھرنے والی ایک نئی مذہبی اور سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے ایک دفعہ پھر اپنے مطالبات حکومت پاکستان کے سامنے رکھتے ہوئے احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا اعلان کردیا۔ پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس ریاست میں کئی طریقوں سے مذہبی کارڈ کا استعمال کیا گیا ہے، کبھی سیاسی جماعتوں کی جانب سے حکومت وقت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے اور کبھی خود حکومتوں کی طرف سے اور ہمیشہ اس کی گردش میں آتے رہے سادہ لوح عوام۔
یہ جماعت 2017ءمیں باقاعدہ طور پر وجود میں آئی۔ خادم حسین رضوی اس کے بانی رہے جو کہ لاہور کے ایک مدرسے میں خطیب کے فرائض انجام دے رہے تھے اور بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ جب پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے ایک محافظ ممتاز قادری نے قتل کیا تو خادم رضوی نے اس قتل کی حمایت کی اور اپنے خطبوں میں اس عمل کو کھل کر سراہا جس کے نتیجے میں محکمہ اوقاف کی طرف سے انہیں نوکری سے فارغ کردیا گیا۔ اس کے بعد خادم حسین رضوی متحرک ہو گئے اور ناموس رسالت کے نام سے تحریک کی داغ بیل ڈالی اور ممتاز قادری کی حمایت میں بھی عملی طور پر سرگرم ہو گئے اور حکومت کی پابندیوں کے باوجود علامہ اقبال کے مزار پر جلسہ منعقد کیا۔ ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد یہ اعلان کیا کہ وہ ایک تحریک لبیک پاکستان کے نام سے باقاعدہ مذہبی جماعت کی بنیاد رکھنے جارہے ہیں اور اس طرح اسے 2017ءمیں رجسٹر کروایا گیا اور مختلف مطالبات کے ساتھ مختلف مواقع پر احتجاجوں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ 2020ءمیں خادم حسین رضوی کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے سعد حسین رضوی کو اس جماعت پر امیر کے طور پر نامزد کردیا گیا۔ خادم حسین رضوی کے جنازے میں لاہور میں ایک کثیر تعداد شامل ہوئی جس سے اس جماعت کی مقبولیت کا اندازہ لگایا گیا۔ اس جماعت نے مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی قدم رکھا اور 2018ءکے انتخابات میں کئی مقامات پر تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی مگر اس تحریک کے احتجاجی مظاہروں کے دوران تشدد کے بے شمار واقعات رونما ہونے کی وجہ سے جس میں کئی لوگوں کے زخمی اور متعدد پولیس اہلکاروں کے جاں بحق ہونا بھی شامل ہے کی وجہ سے اسے کالعدم قرار دینے کا عمل کیا گیا اور بعض وجوہات کی بناءپر جماعت کے سربراہ سعد حسین رضوی کو حراست میں لے لیا گیا۔ اس کے علاوہ کئی کارکنان بھی مختلف الزامات میں گرفتار کئے گئے۔
پچھلے کئی دنوں سے ایک دفعہ پھر یہ تحریک احتجاج پر ہے اور اس دفعہ اپنے پرانے مطالبوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف جھتوں کی صورت میں مختلف شہروں سے چل کر دھرنے کی صورت اختیار کر چکی ہے یہ ایک مستقل سلسلہ ہے۔ سیاسی جماعتیں وفاقی دارالحکومت کی طرف کا رخ کرتی ہیں اور اسلام آباد میں آکر بیٹھ جاتی ہیں اور حکومت پر دباﺅ ڈال کر مطالبات پورے کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ احتجاج ہر شہری اور جماعت کا قانونی حق ہے مگر یہ بھی لازم ہے کہ یہ مظاہرے پرامن رہیں اور کسی قسم کی بھی مالی یا جانی نقصان کسی بھی فریق کو نہ اٹھانا پڑے۔
مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے رہنے چاہئے اور گفت و شنید کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جانا چاہئے۔ حالیہ معاملے میں ایک دفعہ پھر تشدد کا عمل سامنے آیا ہے۔ کئی پولیس اہلکار نہ صرف تشدد کا شکار ہو کر جاں بحق ہوئے ہیں بلکہ کئی براہ راست فائرنگ کی زد میں آکر شہید ہوئے۔ اس کے علاوہ زخمیوں کی ایک بڑی تعداد ہے دونوں فریقین کی جانب۔
لگتا ہے کہ حکومت اس تحریک کے مقابلے میں اپنی رٹ قائم کرنے میں بری طرح سے ناکام ہوئی ہے۔ جو مسئلے مظاہرین کی طرف سے اٹھائے گئے وہ گزشتہ واقعات پر مبنی رہے۔ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے، سعد رضوی کی رہائی کے ساتھ کارکنان کی رہائی بھی دہرائی گئی۔ حکومت نے جھتوں کو روکنے کی کوششوں کے ہمراہ اس کی پرتشدد کارروائیوں کی سختی سے مذمت کی اور وزراءکے سخت بیانات کا سلسلہ شروع ہوا جس میں اس بات کی کھل کر وضاحت کی گئی کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور حکومت کسی طور بھی ایسے عناصر سے نرمی نہیں برتے گی جو اس کے اختیارات کو چیلنج کرے گا مگر بہت جلد ہی حکومت کی طرف سے مذاکرات کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا اور ایک نئی حکومتی مشاورتی ٹیم اور دیگر جماعتوں کے علمائے کرام کو بھی شریک کیا گیا۔ مذاکرات کس حد تک کامیاب ہوئے اس کا تو فی الحال کوئی اندازہ نہیں ہو رہا ہے مگر جو بیانات مظاہرین کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان کی طرف سے آرہے ہیں وہ حکومت کے پسپا ہونے کے شواہد ضرور بیان کررہے ہیں۔ مظاہرین کی طرف سے یہ کہنا کہ ہم اب صرف ذمہ دار لوگوں سے مذکارات کررہے ہیں خود ایک غیر ذمہ دارانہ بیان ہے۔ جھوٹے اور ناقابل بھروسہ حکومتی ارکان سے بات چیت نہیں ہو سکتی۔ کہنے والے ایک عالم ظاہر کررہے ہیں کہ وہ اپنا پرانا حساب موجودہ وزیر اطلاعات سے برابر کرنے کی کارروائی میں ہیں یا پھر جماعتی ارکان کی طرف سے یہ بیان کہ ہمارے لوگ پرتشدد نہیں کچھ باہر کے لوگ ایسے شامل ہو جاتے ہیں۔ ہجوم میں جو ان کارروائیوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے، کیا پھر یہ تحریک ان لوگوں کی نشاندہی کرکے انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کرتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پرجو عکس دکھائے جارہے ہیں ان میں پولیس اہلکاروں کو نہ صرف زخمی کیا گیا ہے بلکہ ان سے عاشق رسول ہونے کے نعرے لگوائے جارہے ہیں۔ یہ مناظر ہندوستان کی اسکرینوں پر تو بارہا دیکھا گیا کہ جہاں مسلمانوں پر تشدد کرکے انہیں ہندو مذہبی نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا مگر اسلامی ریاست میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو زخمی کرنے کے بعد اسے عاشق رسول ہونے کا سرٹیفیکیٹ دے یہ ایک انتہائی فکر انگیز منظر ہے۔ اس ملک کے معاشرے کے ہر طبقے اور فرد کے لئے۔ وہ پولیس اہلکار جو مظاہرین کے ہاتھوں شہید ہوئے کیا ان کے عاشق رسول ہونے پر کچھ شکوک تھے؟ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان پر یہ الزام عائد کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ جماعتی ارکان اس وقت یہ بھی کہہ رہے کہ فرانسیسی سفیر کا کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ مسئلہ کبھی اٹھایا ہی نہیں گیا حالانکہ حکومتی حلقے اور خارجی امور کی وزارت اس بات کی بارہا درخواست کرتی رہی کہ اس مطالبہ سے گریز کیا جائے کہ پاکستان اس قسم کے اقدام کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
حکومت مذاکرات کے ذریعے کیا حاصل کرلے گی۔ کیا آئندہ ایسے احتجاجات سے چھٹکارا پایا جا سکے گا۔ تحریک انصاف کے کیا اس وقت اپنے سخت موقف کو تبدیل کرکے مذاکرات کی طرف مائل ہونے کے پیچھے کیا کچھ اور عوامل اور محرکات کارفرما ہیں۔ حکومت نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں کہ جماعت کے اوپر کالعدم ہونے کی پابندی کو ختم کرکے اسے سیاسی دھاروں میں شامل رہنے کی آزادی دیدی گئی ہے۔ اس کے کارکنان رہا کرنے شروع کردیئے ہیں۔ سعد رضوی کی رہائی چونکہ عدالتی دائروں میں آتی ہے اس لئے اس پر کوئی یقین دہانی نہیں کی گئی ہے مگر وہ جماعتی ارکان جو اس وقت کئی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی شہادت کا باعث ہیں ان کے متعلق حکومت کی کیا حکمت عملی ہو گی یا جو شہریوں کی املاک کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں ان ملوث لوگوں سے باز پرس کی جائے گی۔
ابھی تک معاہدے اور مذاکرات کی تفصیل حکومت کی طرف سے سامنے نہیں آئی ہیں مگر کیا حکومت تحریک لبیک کی سیاسی طاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے مذاکرات پر آمادہ ہوئی ہے۔ کیا آئندہ انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھایا جانا بھی مدنظر ہے۔ سیاست ایک عجیب و غریب کاروبار ہے اس میں کچھ بھی، کہیں بھی اور کبھی بھی کی توقع رکھی جا سکتی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اس تمام کی گردش کی زد میں آنے والے معصوم عوام ضرور حیران و پریشان یہ سوچنے پر مجبور رہے ہیں کہ
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں