Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 507

تنہا گروپ

اللہ تعالیٰ نے جب انسان تخلیق کیا تو وہ مصرف ایک تھا، اکیلا ایک ساتھ بہت سارے انسان تخلیق نہیں کئے۔ اس کے بعد مزید انسان پیدا کئے لیکن اکائی اپنی جگہ رہی، غور کریں، دنیا میں ہر چیز ایک ہی بنائیں اور پھر ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری بنتی چلی گئیں اور کچھ چیزیں ایسی جو جاندار تو نہیں لیکن حرکت میں ہیں لیکن ایک کے بعد دوسری نہیں بن سکی۔ عورت بھی ایک انسان ہے لیکن اس کو علیحدہ سے نہیں بنایا گیا اسے بھی مرد کی پسلی سے بنایا لہذا انسان بھی صرف ایک ہی بنایا اور ہم سب اس کی شاخیں ہیں جس طرح ایک پھل کا درخت ہوتا ہے، درخت ایک ہی رہتا ہے لیکن اس کی شاخیں بے شمار ہوتی ہیں، ہم انسان تو ہیں لیکن ہر انسان اپنے مقام پر تنہا ہے، ایک ہے، جب ہی کہا گیا ہے کہ اوپر جانے کے بعد ہر شخص تنہا ہو جائے گا، نہ کوئی دوست یار ہو گا نہ ماں باپ اور بھائی بہن اور نہ ہی کوئی رشتہ دار۔ روئے زمین پر ہر ذی روح تنہا ہے اور وہ زمین پر بسنے والے تمام جانداروں سے مختلف ہے، ہر شخص دوسرے سے علیحدہ ہے، یہ علیحدگی انسان کے جسم میں دے دی گئی ہے۔ ظاہر کردی گئی ہے، بتا دی گئی ہے۔ انگلیوں کے نشانات کے ذریعہ ڈی این اے کے ذریعے ثابت ہو جاتا ہے کہ ہر شخص ایک دوسرے سے علیحدہ ہے۔ سب جدا جدا ہیں، انگلیوں کے نشانات کی طرح انسانی دماغ بھی ایک دوسرے سے علیحدہ علیحدہ ہیں۔
اللہ ایک ہے اور اس نے جو بھی چیز تخلیق کی، اکائی کی ہے۔ انسان جانور پھل پھول سبزیاں ان سب اکائی کی چیزوں میں اور خدا کی ذات میں یہ فرق ہے کہ ان تمام چیزوں سے ان ہی کی طرح کی اور چیزیں پیدا ہوئیں لیکن خدا کی ذات وہ واحد ذات ہے جو ایک ہے اور صرف ایک ہی رہے گی۔ انسان کے تنہا ہونے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو تنہا نہیں چھوڑا۔ انسان کی ضروریات کی تمام چیزیں اللہ ہی مہیا کرتا ہے اور انسان کو تنہائی سے بچانے کے لئے ایسے اصول اور قوانین سے روشناس کرایا کہ جن کو اپنا کر ایک جماعت ایک گروپ بن سکے۔ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل ہو، آپس میں اتحاد بھائی چارگی ہو اور ایک دوسرے کے مددگار بن سکیں۔ انسان نے اگر یہ تمام اصول اپنائے ہوتے اور ان کو قابل عمل بنا دیتا تو یہ دنیا جنت سے کم نہ ہوتی لیکن افسوس کہ انسان نے اسے اپنی حرکتوں اور من مانیوں کی بناءپر جہنم میں تبدیل کردیا حالانکہ لوگ کہتے ہیں کہ میرا ذہن فلاں شخص سے ملتا ہے۔ ہم آپس میں دوست ہیں۔ ہم خیال ہیں، اسی طرح ہم خیال، ہم ذہن لوگوں کے گروپ تشکیل پاتے ہیں۔ مذہبی گروپ، سماجی گروپ، سیاسی گروپ، لسانی گروپ، جرائم پیشہ گروپ وغیرہ وغیرہ لیکن کیا واقعی ان گروپس میں شامل تمام افراد کے ذہن ایک جیسے ہوتے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ نہیں، یہ سب دراصل دل بہلاوے کی باتیں ہیں۔ دراصل ان سب کے مفادات اپنی اپنی جگہ ہوتے ہیں اور مشترکہ ہوتے ہیں اور جیسے ہی کسی ایک کے مفاد کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے وہ فوراً علیحدہ ہو جاتا ہے۔ چاہے وہ دو میں ہو یا گروپ میں۔ اس کو اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے، جہاں تک مذہب اسلام کی بات ہے تو اس میں سب کا مفاد ہی نظر آتا ہے اس میں زرہ برابر بھی اور کسی کو بھی خسارہ نہیں ہوتا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مذہب میں دنیا کو اس حد تک شامل کرلیا گیا ہے کہ دنیاوی مفادات کے لئے مذہبی ہدایات کو کنارے کردیا جاتا ہے۔ اگر مذہب اور دنیا کے معاملات کو علیحدہ علیحدہ انداز میں نبٹایا جائے تو یہ فرق معلوم ہو جائے گا کہ مذہبی معاملات میں گھاٹے کا کوئی سودا نہیں ہے بلکہ نفع ہی نفع ہے۔ جب کہ دنیاوی معاملات میں نفع اور نقصان دونوں ہی شامل ہیں۔ مذہبی معاملے میں خسارہ اس وقت ممکن ہے جب کہ وہ مذہب کے منفی ہو اور جو چیز مذہب کے منفی ہوگی وہ پھر مذہبی نہیں کہلائے گی۔ افسوس کی دوسری بات یہ ہے کہ دنیاوی معاملات میں اختلاف رکھیں، لڑیں جھگڑیں لیکن کم سے کم مذہبی معاملات میں تو ایک ہو جائیں، بیکار کی تمام باتوں اور اختلافات کو چھوڑ کر مذہبی معاملات میں ایک ہو کر قرآن شریف کی ہدایات پر عمل کریں، تو کئی مسائل سے انفرادی اور اجتماعی طور پر چھٹکارہ مل سکتا ہے۔ ہماری مقدس کتاب کی دلچسپ بات یہ ہے کہ جس زمانے کے لوگوں نے بھی اسے پڑھا ہے۔یہی محسوس کیا ہے کہ یہ ان کے ہی دور کی باتیں ہیں۔ مثلاً آج کے دور پر نظر ڈالیں اور سورة بقرہ آیت 83 دیکھیں ”تم سے قول و قرار لیا کہ باہمی خون ریزی مت کرنا ایک دوسرے کو ترک وطن نہ کرانا تم نے اقرار تو کیا لیکن ایک دوسرے کو قتل بھی کرتے ہو اور ترک وطن بھی کراتے ہو اپنوں کے مقابلے میں مخالف قوموں کی مدد کرتے ہو، گناہ اور ظلم کے ساتھ۔ اور اگر ان لوگوں میں سے کوئی گرفتار ہو کر تم تک پہنچ جاتا ہے تو ایسوں کو کچھ خرچ کر کراکر رہا کروادیتے ہو حالانکہ تم ک وان کا ترک وطن کرادینا بھی ممنوع ہے۔ اس آیت سے موجودہ کئی واقعے ذہن میں آتے ہیں مثلاً ریمنڈ ڈیوس کو رہا کراکر بھجوا دینا، ابھی نندن کو اور اسرائیلی پائلٹ کو رہا کرادینا اور جو کچھ آج کے حالات میں ہو رہا ہے، قرآن شریف کی کئی آیتوں میں موجود ہے۔ سورة بقرہ کی ایک دوسری آیت میں ہے کہ ”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کے لئے کررہے ہیں۔
آج کے حالات دیکھ لیں، مختلف مذہبی گروپ بنے ہوئے ہیں اور فساد وہی پھیل رہا ہے اور ہر گروپ کہتا ہے ہم تو لوگوں کی اصلاح کررہے ہیں۔ انسان نے بے شمار چیزیں جانوروں اور پرندوں سے سیکھی تھیں لیکن اب سب کچھ بھلا کر جانوروں سے بھی بدتر ہوتا چلا جارہا ہے۔ ہم وطن، ہم مذہب، ہم زبان کا گروپ بنا کر چلنا بُرا نہیں ہے اور نہ ہی گروپ بنا کر ایک دوسرے کی مدد کرنا بُرا ہے۔ اگر خلوص کے ساتھ ہو اور کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے تو بہت اچھا ہے۔ گروپ بندی ایک فطری عمل ہے۔ بھیڑیوں کے غول میں صرف بھیڑئیے اور ہرن کے غول میں صرف ہرن ہی نظر آتے ہیں۔ اسی طرح تمام جانور گروپ کی شکل میں ہوتے ہیں۔ اسی میں ایک دوسرے کی بقاءہے۔ تاروں پر چڑیوں کا جھنڈ ہی بیٹھا نظر آئے گا۔ بیچ میں کوئی کوّا نہیں بیٹھا ہو گا۔ اس طرح کووّں کے گروپ میں کوئی چڑیا نظر نہیں آئے گی۔ لیکن انسانوں میں ہم وطنوں میں گروپ بندی ہم مذہب میں گروپ بندی ایک دوسرے پر الزام تراشی چھوڑ کر سہارا لے کر ایک دوسرے کو بدنام کرنا ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور یہ تمام خرابیاں ہمارے ہم وطن ہمارے ہم مذہب لوگوں میں کچھ زیادہ ہی نظر آرہی ہیں۔ اگر ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھلا کر متحد ہونے کی کوشش کریں جو کہ ایک مشکل کام ہے لیکن ناممکن نہیں ہے تو اس ہی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ذہن تو نہیں مل سکتے لیکن ایک دوسرے کے مفاد میں اتحاد کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہاں ہر شخص کو اپنا ذاتی مفاد زیادہ عزیز ہے اور اس دھن میں وہ اپنا بھی اور دوسروں کا بھی نقصان کر بیٹھتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں