Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 298

جیو تو اپنے لئے

جب ہم کی بات ہوتی ہے تو ہم سے مراد اکثریت ہے جس میں ہم کسی نا کسی طور شامل ہیں۔ ایک ہم وہ بھی ہوتا ہے جو تکبر میں استعمال ہوتا ہے یعنی ہم کہ گمان یہ ہوتا ہے کہ ہم سے برتر کوئی نہیں جب کہ حال یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی اپنے لئے نہیں جیتے ہماری پوری زندگی کا اختیار دوسروں کی پسند دوسروں کی خواہشات دوسروں کی مرضی اور خوشی پر ہوتا ہے۔ آپ کوئی شرٹ پہنتے ہیں تو کیا اس لئے آپ کو اچھی لگے گی نہیں بلکہ اس لئے کہ دوسروں کو اچھی لگے۔ خواتین میک اپ کرتی ہیں تو اس لئے نہیں کہ وہ خود کو اچھی لگیں بلکہ دوسروں کو اچھی لگیں۔ ہم اپنی تمام زندگی دوسروں کے لئے جیتے ہیں اور جب زندگی ہم سے روٹھ کر جانے لگتی ہے تو اسے منانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ہماری زندگی پر دوسرے کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ہماری زندگی پر دوسروں کا حق کس طرح ہوتا ہے اگر ہم اپنی ہر خوشی ہر خواہش پر نظر ڈالیں تو احساس ہو گا ہماری ہر خواہش پر خوشی دوسرے کی مرضی پر منحصر ہے۔ ہم کوئی کپڑا کوئی بھی ڈریس پہنتے ہیں تو ہماری سوچ یہ ہوتی ہے کہ یہ دوسروں کو کیسے لگے گا اور اگر دوچار لوگ کہہ دیں کہ یار یہ آپ پر اچھا نہیں لگ رہا تو آپ فوراً اسے بدل لیں گے بنا یہ سوچے کہ وہ آپ کو کتنا اچھا لگ رہا ہے اور اسے پہن کر آپ کتنی خوشی محسوس کررہے ہیں۔ اپنی خوشی پر دوسروں کی مرضی غالب آگئی۔ ہماری اپنی پسند کچھ نا رہی ہم یہ نہیں دیکھتے کہ یہ ہمیں کیسا لگے گا۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بس دوسروں کو اچھا لگے۔
اسی طرح گاڑی ہے، مکان ہے، غرض دنیا کی کوئی بھی چیز ہم حاصل کرتے ہیں اس میں ہماری پسند کا دخل کم اور دوسرے کا زیادہ ہوتا ہے۔ لوگ آپ کی گاڑی، آپ کے مکان کا رنگ تک تبدیل کروادیتے ہیں۔ زندگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب تک دوسرے ہمارے بارے میں سوچتے ہیں ہم اپنے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتے۔ بچپن سے جوانی تک ماں باپ اور ہمارے بڑے ہمارے لئے سوچتے ہیں، ہمیں ہر چیز مہیا کرتے ہیں، ہماری ہر چیز کا خیال رکھتے ہیں اور ہم اپنے آپ سے بے گانہ بے فکر رہتے ہیں اور جب ہم عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو پھر ہم دوسروں کی زندگی کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں۔ اپنے لئے جینے کا موقعہ ہی نہیں ملتا، لوگ کیا کہیں گے دنیا کیا سوچے گی بس دنیا کی خواہش کے مطابق جینا چاہتے ہیں، ایک شخص ہے جو کہ صرف اپنے لئے سوچتا ہے اپنے لئے جیتا ہے جسے کبھی یہ فکر نہیں ہوتی کہ دنیا کیا کہے گی وہ اپنی خوشی میں خوش رہتا ہے، کبھی راہ چلتے کسی سڑک کے کنارے ایک ملنگی ٹائپ کا شخص بیٹھا ہوتا ہے، بڑے بڑے الجھے ہوئے بال بے ہنگم داڑھی مونچھیں، اس کے بدن پر قمیض نہیں ہوتی صرف ایک لنگی پہنے آلتی پالتی مارے بیٹھا ہوتا ہے۔ مٹھی میں سگریٹ اٹکی ہوتی ہے چہرے پر بے انتہا سکون اطمینان بے فکری اور کش لگا رہا ہوتا ہے، ہنس رہا ہوتا ہے، ان لوگوں کو دیکھ کر جو فٹ پاتھ پر تیزی سے بھاگے چلے جارہے ہیں، بسوں اور ویگنوں میں پریشان بیٹھے ہوئے یا لٹکے ہوئے ہیں، ماتھے پر فکر کی لکیریں چہرے پر بے سکونی ان میں سے ساٹھ یا ستر فیصد مقابلے میں ہیں اپنے پڑوسیوں سے رشتے داروں سے دوستوں سے جو کہ کچھ ان سب کے پاس ہے وہ حاصل کرنا ہے، جان کی بازی لگا کر اور یہ ملنگی ان پر قہقہے لگا رہا ہے اسے دنیا کی کوئی فکر نہیں ہے کہ دنیا اس کے بارے میں کیا سوچ رہی ہے، کیا کہے گی، وہ صرف اپنے لئے خوش ہے اسے کسی کی فکر نہیں۔ ذرا سوچیں اس کے پاس تعلیم نہیں ہو گی، پیسہ نہیں ہو گا، کوئی اچھی نوکری یا کاروبار نہیں ہوگا اور جن لوگوں کے پاس یہ سب کچھ موجود ہے وہ اس ملنگی کے حلئے کو نہیں صرف اس کی سوچ کو اپنا لیں تو دنیا جنت ہو جائے گی، کبھی کبھی ہم اپنے آپ کو اپنی سوچ کو دوسروں کے ہاتھوں میں دے دیتے ہیں مثلاً دو مسلمان دونوں کا علیحدہ علیحدہ مذہبی پارٹی سے تعلق، مسلک یا فرقے کا فرق، تھوڑی بہت تبدیلی کرکے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ وہ دونوں اشخاص اپنے لئے نہیں یا اپنے دین کے لئے نہیں بلکہ اپنی پارٹی کے لئے زندہ ہیں۔ دونوں کا ایک دوسرے سے لڑنا یہاں تک کہ قتل کر دینا ان کو یہ تسکین دلاتا ہے کہ وہ دین کی حفاظت کے لئے لڑ رہے ہیں جب کہ دین ایک ہی ہے، کوئی تفریق نہیں، کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ وہ دین کے لئے نہیں اپنی پارٹی اور اس پارٹی کے سربراہ کے لئے لڑ رہے ہیں، وہ شاید دین کی بے شمار باتوں سے نابلد ہی ہوں گے لیکن جان دینے کے لئے تیار ہیں کیونکہ ان کے باپ دادا کا تعلق بھی اسی جماعت سے تھا اگر وہ ایک دوسرے کو قتل کردیں تو کیا شہید کہلائے جانے کے قابل ہیں۔ شہادت تو دین کی خاطر کافر سے لڑ کر مر جانے کا نام ہے۔ یہ سب اپنے لئے نہیں اس پارٹی اور اس کے عالم کے لئے جی رہے ہیں اسی طرح سیاسی پارٹی کی محبت اور اس کے لیڈر کے لئے خون کے اصل رشتے اصل محبت میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔ رشتوں میں فاصلہ ہو جاتا ہے ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اپنی اپنی سیاسی پارٹی سیاسی لیڈر کے لئے جی رہے ہیں بے شمار ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے سیاسی لیڈر کی گھریلو خاندانی اور اندرونی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اس کے ماضی اس کے کرتوتوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور جان دینے کو تیار ہیں ان کو خود نہیں معلوم کہ یہ سب کیوں کررہے ہیں اپنے لئے کیوں نہیں جینا چاہتے اور پھر اچانک ایک دن احساس ہوتا ہے کہ اب تک فریب کی دنیا میں رہ رہے تھے اور یہ احساس اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے اوپر بڑھاپا آتا ہے۔ سب کچھ ختم ہو جاتا ہے ہم اپنے آپ کو اچھے سے اچھا بنانے کی کوشش کرتے تھے صرف دوسروں کے لئے اپنے لئے تو ہم جئے بھی نہیں اور جب ہمارے اوپر بڑھاپا طاری ہوتا ہے اور ہم اپنے لئے جینا چاہتے ہیں تو وہی لوگ ہمیں جینے نہیں دیتے۔ ہم سے تمام لوگوں کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے ہم کیا پہنتے ہیں، کیا کھاتے ہیں، کیا خواہشات ہیں کسی کو کوئی مطلب نہیں ہوتا، ہمارے نام کے ساتھ بے چارے کا لفظ لگ جاتا ہے۔ بے چارہ ضعیف ہے، بے چارہ عمر رسیدہ ہے، بے چارہ بڈھا ہو گیا ہے۔ ہمارے مرنے تک یہ بے چارے کا لفظ ہمارا پیچھا کرتا رہتا ہے۔ ایسا ہی ہوتا ہے کہ کبھی ہمارے چاہنے والے ہمارے قریبی لوگ ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں لیکن اس خیال میں بھی ہم بے چارے کے لئے ہمدردی ہوتی ہے، ترس ہوتا ہے۔ ہمارے بڑھاپے، ہماری ضعیفی اور بے چارگی کا احساس ہوتا ہے۔ ہمیں سہارا دینے کی کوشس ہوتی ہے اور بعض بے چارے بوڑھے لوگوں کو تو یہ ہمدردی یہ ترس یہ احساس اور یہ سہارا بھی میسر نہیں ہوتا۔
اپنے خونی رشتے ایک بے کار شے سمجھنے لگتے ہیں، بوجھ سمجھتے ہیں اور اس بوڑھے کو اپنے لئے بھی جینے نہیں دیتے دراصل ہم سب ایک دوسرے کی زندگیوں میں اتنے گم ہیں کہ اپنے بارے میں سوچنے کا موقعہ ہی نہیں ملتا، ہم کسی دوسرے کی زندگی میں مشگول ہیں اور کوئی ہماری زندگی میں پوری طرح براجمان ہے۔ دوسرے کے عمل، رہن سہن، عادتیں ذریعہ معاش کی وجہ سے ہم پریشان ہیں اور بہت سا وقت اسی سوچ میں گزار دیتے ہیں اور جب ہمارے اعضاءجواب دینے لگتے ہیں۔ زندگی کی بے شمار رنگینیوں میں لوگ ہمیں شامل نہیں کرتے تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ کاش ہم کبھی اپنے لئے بھی جی لیتے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں