پاکستان اور 8 فروری 2024ءانتخابات 81

حالات بدلے نہیں

مدوجزر قوموں کی تاریخ کا حصہ رہے ہیں، قومیں مشکل ترین اور تلخ ترین حالات سے گزر کر ہی سنبھلتی ہیں۔ ماضی کی دشواریوں سے سبق سیکھتی ہیں اور بہتر مستقل کی طرف قدم بڑھاتی ہیں، اس سفر میں متعدد عوامل ہمراہ ہوتے ہیں، ہر اہم ہمرکاب اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے اپنے حصار میں رہتے ہوئے ساتھ چلنے والوں کی حدود کا احترام کرتا ہے۔ قوموں کی زندگی میں بگار وہاں سے شروع ہوتا ہے جب کوئی ایک عنصر اپنے کو مقتدر گردانتے ہوئے دیگر کے حقوق کی پامالی کی بنیاد ڈالتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ کے ابتدائی ابواب سے لے کر حالیہ حالات تک وہی کہانیاں دہرائی جارہی ہیں اور اب یہ اعتراف کر لینے میں کوئی عجب نہیں رہ جاتا کہ وہ ملک جو انتہائی قربانیوں کے عوض وجود میں آیا، غاصبوں کے ہاتھوں چڑھ گیا اور غاصب کوئی غیر نہیں بلکہ اپنے ہی ثابت ہوئے۔ بعض صورتوں میں تو اپنے محافظ ہی کے راہزن ہونے کے شواہد سامنے آنے لگے۔ پاکستان اندرونی خلفشار اور بد اعمالیوں کی بھینٹ چڑھتا چلا گیا۔ ملک دو لخت ہوا۔ شاید کیا یقیناً اب تو یوں ظاہر ہونے لگا ہے کہ مشرقی پاکستان کا مغربی پاکستان سے علیحدہ ہونا ان کے لئے باعث برکت ہی ٹھہرا۔
پاکستان کا ہر شہری اس وقت حیران و پریشان حکومت بمقابلہ ریاست کا مناظرہ دیکھنے میں مصروف ہے۔ ریاست کا اہم ترین ستون ایک دفعہ پھر گردشوں اور سازشوں کے نشانے پر ملک میں انارکی تقریباً پھیل چکی ہے۔ پارلیمان کی ساکھ اور حرمت 13 جماعتی اتحادی حکومت کے ہاتھوں تنزلی کی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ شکست کے خوف سے گھبرایا ہوا جھتہ انتخابات کو کالعدم دینے کے لئے ہر قسم کی کوششوں میں مصروف ہے۔ عدالت عالیہ کے حکم کی تعمیل سے انحراف کے نت نئے طریقے نکالے جارہے ہیں اور اس کے علاوہ انسانی حقوق کی پامالی عروج پر ہے اور اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کو زیر غور رکھتے ہوئے ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ تمام انتہائی اقدام ایک ایسی کمزور حکومت جو 13 اتحادیوں کے بل بوتے پر کھڑی ہو کے بس کی بات نہیں جب تک کہ کہیں سے یہ یقین دہانی نہ موصول ہوتی ہو کہ ”ہم کھڑے ہیں“
نا اہل سیاستدانوں کے ہاتھوں ریاست پاکستان کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ نشان عبرت ہے، آنے والی نسلوں کے لئے۔ حکومت اور حزب اختلاف بلکہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین وہ مذاکرات اختتام پذیری کے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جن کے ذریعے انتخابات کی ایک تاریخ پر متفق ہونا تھا۔ عدالت عالیہ نے یہ ایک انتہائی معزز موقع دونوں فریقوں کو فراہم کیا تھا مگر قیاس و گمان کے مطابق یہ عمل ایک بار پھر اس امر کو تقویت دے گیا کہ حکومت اس سارے عمل کو صرف تاخیری حربے کے طور پر استعمال کرنے کی مرتکب ہوئی۔ دوران مذاکرات تحریک انصاف کے کارکنوں کی گرفتاریاں اور خاص طور پر تحریک انصاف کے صدر اور ایک پرانے سیاسی گھرانے کے فرد کے طور پر پہچانے جانے والے پرویز الٰہی کے گھر پر کوئی گھنٹو کی کارروائی، جس سے بظاہر حکومت بے خبر اور نگراں حکومت کے تمام اعلیٰ عہدیدار ملک سے باہر بہت ہی دلچسپ صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ جس کا اگر تجزیہ عمل میں لایا جائے تو کئی پردہ نشینوں کے ذکر آجائیں گے۔ یوم مزدور کی تحریک انصاف کی ریلیاں ان تمام حلقوں کو ایک دفعہ پھر پریشانیوں سے دوچار کر گئی ہیں جہوں نے کچھ حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کرنے کی روش اپنانے کی کوشش کی، عوام کی بالادستی پر یقین رکھنے کا اعلان کرنے والوں کے لئے تو یہ ایک انتہائی خوش آئند امر ہونا چاہئے کہ عوام نے اس اعلان کے بعد ان کے ہاتھ مضبوط کرنے کا ریفرنڈم پاس کروادیا مگر حالات کچھ ایسا کہتے نظر آرہے ہیں کہ حالات بدلے نہیں بلکہ یہ ایک توسیع ہے اس ”مائنس ون“ فارمولے کی جس کی یقین دہانی کروائی گئی تھی کچھ عرصہ پہلے جنرل باجوہ کے دور میں۔
13 جماعتی حکومت خود اس وقت باوجود اس کے کہ تضادات کا شکار نظر آتی ہے اس نظریہ پر ضرور متفق ہے کہ جب تک عمران خان کو پاکستان کے سیاسی افق سے ہٹایا نہیں جائے گا ان کے راستے ہموار نہیں ہوں گے۔ اگر جائزہ لیا جائے تو پیپلزپارٹی کو اس مسئلے پر کوئی تشویش نہیں ہونی چاہئے۔
تحریک انصاف تاحال سندھ میں پوری طرح قدم نہیں جما سکی ہے۔ اس میں تحریک انصاف کے سندھ سے تعلق رکھنے والے اراکین کی کارکردگی ایک اہم ترین سبب رہی ہے اسی طرح دوسری چھوٹی جماعتوں کے لئے بھی جو دو یا چار نشستوں پر کامیاب ہوتی رہی ہیں، کوئی اتنا بڑا دھچکا کی توقع نہیں ہے۔ اس وقت کل طور پر نواز لیگ ہے جو اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے سرگرداں ہے، ن لیگ کا ووٹر اس تمام مرحلے میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ وہ تمام کارکن جو ن لیگ کے اچھے و برے حالات میں ہمیشہ اس سے منسلک رہے ان میں اب بیکراں مایوسی پھیل رہی ہے۔ خاص طور پر موجودہ حالات میں جس طور سے اتحادی حکومت عدلیہ اور دیگر اداروں سے برسر پیکار ہو رہی ہے اور انتخابات سے گریزاں ہونے کی کوششوں میں مصروف ہو گئی ہے۔ 90 کی دہائی اور آج کے عوام کے نقطہ نظر میں اب انتہائی فرق آچکا ہے۔ موجودہ آبادی 35 سال سے کم کی اکثریت ہے جس کا دائرہ اختیار وسیع تر ہے۔ اسے دنیا میں رونما ہونے والی بیشتر سیاسی واقعات کا علم رہتا ہے۔ وہ موازنہ کرتی ہے اپنے اور عالمی حالات کا اور اس کے ساتھ ساتھ ان تمام Stratgies کا جو اس سلسلے میں اختیار کی جاسکتی ہیں۔ ن لیگ کا نسبتاً کم عمر کارکن اس کے علاوہ اپنی معاشی زبوں حالی اور اس کے نتیجے میں نہ صرف عالمی مالیاتی اداروں اور مہربان دوست ممالک کے اس سلوک پر بھی نادم نظر آتا ہے جو اس کی عزت نفس کو مجروح کرتی ہے۔ ن لیگ کو اپنے طرز عمل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ حکومتیں جاگیر نہیں ہوتیں، عوام کی بہبود کے لئے اور عوام کی ہوتی ہیں۔ اس وقت ن لیگ کا رویہ آئین و ریاست کی نفی کرتا ہوا صرف اور صرف شریف خانوادے سے متعلق سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ نئی نسل کو اپنے قریب لانے اور اس کا اعتماد حاصل کرنے میں برعکس عمران خان کی سیاسی میدان میں موجودگی کے۔ پنجاب ن لیگ کا گڑھ رہا ہے مگر اس وقت ن لیگ کا داخلی انتشار بھی نمایاں طور پر اس کے کارکنوں کے لئے بدلی کا سبب بنا ہے۔ تبدیلیاں ترقی کا لازمی جزو ہیں۔ ن لیگ کو اپنی صفوں کو درست کرنا ہوگا اور نئے دروازے کھولنے ہوں گے۔ ن لیگ اس تمام وقعوعات میں سب سے زیادہ متاثر کن پڑی ہے۔ تمام پارلیمانی تراکیب کے باوجود اس وقت 13 اتحادی جماعت کے ہاتھوں سے حالات نکلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ ایک فیصلہ دے چکی ہے۔ مذاکرات بات بناتے نظر نہیں آرہے، امکان یہ بھی ہے کہ شاید عدلیہ پر بھی کاری ضرب لگانے کے انتظامات ہو رہے ہیں۔ اس کی بھی خبریں ہیں کہ سیاسی شہادت کی امیدیں بھی کی جارہی ہیں تاکہ آئندہ کے لئے راستہ کھلا رہ سکے۔ بساط لپیٹنے کے لئے یقینی طور پر سہاروں کی ضرورت اور مدد درکار ہے۔ اندازے یہ ہی ہیں کہ حالات کسی طور بدلے نہیں ہیں صرف ایک نیا انداز طرزعمل اختیار کر لیا گیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں