Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 402

داڑھی کی آڑھ

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات اسلام کا ہی ایک ابتدائی حصہ تھیں اور ہمارے نبی جو کہ آخر الزماں ٹھہرائے گئے ان کے آتے ہی اور ان کی موجودگی میں آخری کتاب قرآن شریف کے نازل ہو جانے کے بعد یہ تعلیمات مکمل ہو کر مذہب اسلام کے نام سے دنیا میں روشناس ہوئیں۔ اوّل دو پیغمبروں کی پیروی کرنے والوں نے ان تعلیمات کو مزید آگے نہیں بڑھایا اور انہیں ادھورا چھوڑ دیا اور نا صرف ادھورا چھوڑا بلکہ وقت اور حالات کے مطابق کافی تبدیلیاں ہی کردی گئیں لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مذہب علیحدہ علیحدہ ہونے کے کئی سو سال بعد بھی غیر مسلمنوں نے اور مغربی دنیا نے مسلمانوں کے تہذیب و تمدن کو اپنایا جس کا اقرار آج بھی کیا جاتا ہے۔ گردن سے لے کر ٹخنے تک جسم ڈھانپنے کو تہذیبی لباس کہا گیا جو کہ آج مذہبی پیشواﺅں تک رہ گیا ہے اس لئے نہیں کہ یہ لباس ان کی وردی ہے یا ان کا فرض ہے بلکہ یہ لباس سب کا ہے۔ عبا، شلوار قمیض، پاجامہ کرتا، تہذیبی لباس کا ہی ایک حصہ ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ لباسوں میں تبدیلیاں آئیں لیکن مقصد پورا جسم ڈھانپنا ہی ٹھہرا۔ ہمارے مذہب میں خصوصاً ہمارے ملک میں مذہبی حلیہ رکھنا یعنی داڑھی سر پر ٹوپی شلوار قمیض یا عبا پہننا ایک مخصوص طبقے کے لئے ہو گیا تھا یعنی وہ لوگ جو مولوی یا مولانا کہلاتے ہیں حالانکہ مذہب کے مطابق تو ہر شخص کو اس کی پیروی کرنا چاہئے، پہلے ایسے لوگوں کا نا صرف حلیہ مذہبی ہوتا تھا بلکہ کردار بھی اسلامی اصولوں کے مطابق تھا۔ ایسے لوگوں کی معاشرے میں بہت عزت تھی، صادق و امین کہلاتے تھے، لوگ اعتماد کرکے کاروباری سودے بلا جھجھک اور زبانی معاہدے کر لیتے تھے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے شیطان صفت اور بدعنوان لوگوں نے اپنے آپ کو اس اسلامی اور مذہبی حلئیے میں ڈھال لیا کہ لوگوں کو دھوکا دینے میں آسانی ہو اور شرپسندی، بے ایمان، دھوکہ دہی اور دہشت گردی کرکے ان لوگوں کے کردار کو بھی مشکوک بنا دیا جو اللہ کے راستے پر گامزن ہیں۔ لوگ اب مذہبی حلئے والے اور علماءسے بدظن ہوتے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اور عام مولوی یا مولانا کے بارے میں جو باتیں سننے کو ملتی ہیں پہلے کوئی ان کا تصور بھی نہیں کرتا تھا کیونکہ کچھ لوگوں نے بدعنوانیاں کرنے کے لئے اور کرسی کی لالچ میں مذہبی لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب مذہبی جماعتیں اپنی حدود سے آگے بڑھ کر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے مذہبی جذباتی لوگوں کو استعمال کرکے دہشت گردی کرنے اور حکومت کو بلیک میل کرنے پر اتر آتی ہیں تو پھر ان پر پابندی لگانا پڑ جاتی ہے۔
حال ہی میں تحریک لبیک پاکستان پر وزارت داخلہ کی جانب سے پابندی لگا دی گئی ہے اور یہ پابندی انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت عائد کی گئی ہے، یہ قانون 1997ءمیں رائج کیا گیا تھا اور اس کی شق B11 کے تحت تحریک لبیک پاکستان کو پابند کردیا گیا ہے اس پابندی کے مطابق پابند جماعت کے تمام دفاتر سیل کردیئے جاتے ہیں تمام فائلز اور ریکارڈ قبضے میں لے لیا جاتا ہے، تمام اثاثے منجمد ہو جاتے ہیں، یہ لوگ چندے وغیرہ نہیں لے سکتے اور نا ہی کسی طرح کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں یوں سمجھ لیں کہ موجودہ جماعت کے نام کی حد تک ہاتھ پیر باندھ دیءجاتے ہیں۔ ماضی میں یہ پارٹیاں نام بدل کر پھر میدان میں آجاتی تھیں لیکن سنا ہے کہ نام بدل کر آنے پر بھی کچھ قانون بنائے گئے ہیں کہ روک تھام ہو سکے لیکن پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے کیونکہ کے عدلیہ کا نام تو نہیں بدلا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس طرح کی جماعت پر پابندی لگنے کے بعد چند سہولیات بھی دی گئی ہیں یعنی کالعدم قرار دی جانے والی جماعت تیس دن کے اندر وزارت داخلہ میں اس فیصلے کے خلاف ایل کر سکتی ہے اگر یہاں سے اپیل خارج ہو جائے تو پھر ہائی کورٹ کا رُخ کیا جا سکتا ہے۔ اب یہ ہائی کورٹ کے جج پر منحصر ہے کہ وہ اس جماعت سے ہمدردی رکھتا ہے یا اس کا مخالف ہے کیوں کہ ہائی کورٹ میں جانے والے کئی مقدمات کافی عرصے سے سوالیہ نشان ان کے فیصلوں کی وجہ سے بنے ہوئے ہیں۔
ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص جو بیس پچیس آدمی جمع کرکے کسی مسجد میں درس دینے بیٹھ جاتا ہے اور جب آہستہ آہستہ اس کے چاہنے والوں کی تعداد بڑھتی ہے تو فوراً ایک مذہبی جماعت کی بنیاد ڈال کر مسجد سے باہر بھی اپنی سرگرمیاں شروع کر دیتا ہے اور چندے کی اپیلوں اور افرادی قوت سے مالی طور پر اپنے آپ کو مستحکم کر لیتا ہے اور پھر فوراً ہی اس مذہبی جماعت کو سیاسی جماعت بنا لیتا ہے۔ پھر یہ جماعت مذہب کو استعمال کرکے لوگوں کے جذبات سے کھیل کر ان کو اپنے سیاسی مقاصد میں استعمال کرتے ہیں اور بے جا مطالبات اور مظاہروں سے حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں۔
خادم حسین رضوی لاہور کی ایک مسجد میں خطیب تھے، جب ان کے دلچسپ انداز گفتگو کی وجہ سے درس کا سلسلہ دراز ہوا تو لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو انہوں نے مسجد سے باہر بھی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔ جب 2011ءمیں ممتاز قادری گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے جرم میں گرفتار ہوا تو خادم حسین رضوی کو موقعہ مل گیا اور انہوں نے لوگوں کو جمع کرکے اس کی رہائی کے لئے احتجاج شروع کردیا۔ سلمان تاثیر کو گستاخ رسول اور ممتاز قادری کو رسول اللہ کا سپاہی کہہ کر لوگوں کے جذبات کو مشتعل کیا اور لوگوں کی اچھی خاصی تعداد ان کے ساتھ ہو گئی۔ اس کے بعد جب ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی تو انہوں نے اسلام آباد میں دھرنا دینے کی اپیل کی کہ رسول اللہ کے سپاہی کو اور ناموس رسالت پر لبیک کہنے والے کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ جذبات لوگ اس مرتبہ ایک بڑی تعداد میں ان کے ساتھ ہو گئے اور وہیں انہوں نے مذہبی جماعت تحریک لبیک یا رسول اللہ کی بنیاد ڈالنے کا اعلان کیا۔ پھر 2017ءمیں رسالت کے قانون میں ترمیم کے خلاف مہم چلائی۔ ایک مرتبہ پھر اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا یہ ایک ایسا حساس معاملہ تھا اور کچھ وزراءکی غلطیاں بھی تھیں جس کی وجہ سے لوگوں کی تمام حمایت خادم حسین رضوی کے ساتھ ہو گئی اور ان کی جماعت ایک بڑی طاقت ابھر کر سامنے آگئی پھر انہوں نے وہی کیا جو تمام مذہبی جماعتیں لوگوں کی حمایت اور طاقت حاصل کرنے کے بعد کرتی ہیں یعنی فوراً اپنی جماعت کو سیاسی جماعت رجسٹر کروالیا۔ پہلے 2017ءکے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا بعد میں باقاعدہ طور پر 2018ءکے عام انتخابات میں چاروں صوبوں سے حصہ لیا اور دو سیٹیں بھی حاصل کیں۔ اور اب چونکہ بے شمار جنونی ان کے ساتھ ہیں، مذہب کو استعمال کرکے بڑی طاقت بن چکے ہیں۔ خادم حسین رضوی کے انتقال کے بعد تنظیم کی باگ ڈور ان کے بیٹے سعد رضوی نے سنبھال لی ہے چونکہ ان کا کردار بھی مشکوک ہے لہذا جماعت میں اختلافات پیدا ہو چکے ہیں اب یہ حکومت کے ساتھ معاہدوں پر معاہدے کررہے ہیں وہ کیا معاہدے ہیں چونکہ معاملہ بہت حساس ہے لہذا تمام معاہدے پردے میں ہیں لیکن پچھلے دنوں جو کچھ کیا گیا شاید ایک اچھے مسلمان کے لئے وہ قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ کتنی بھی دلیلیں دی جائیں لیکن احتجاج کے دوران جو کچھ ہوا وہ قابل مذمت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں