دنیا میں اس وقت 195ممالک ہیں۔ ان میں سے چند ہی ممالک ہیں جو ہمہ وقت خبروں کی لپیٹ میں رہتے ہیں۔ اگر آپ سوچنے بیٹھیں تو شائید بہت سے ممالک کے آپ کو نام بھی نہیں معلوم ہوں گے کیونکہ دنیا کو ان ممالک سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، یہ نا کسی دوسرے ملک کے لئے کسی فائدے کا باعث ہیں، نا ہی ان کی جغرافیائی اہمیت ہے، مختلف ممالک کی دوستی اور دشمنی دونوں کسی نا کسی مفاد کی وجہ سے ہوتی ہے۔
بے لوث، پرخلوص اور سچی محبت لوگوں کے درمیان تو ہو سکتی ہے، وہ بھی کسی نا کسی رشتے کی بناءپر لیکن دو ملکوں، دو حکومتوں یا سربراہان کے درمیان دوستی صرف اور صرف باہمی مفادات کی بناءپر ہوتی ہے جو دراصل دوستی نہیں سفارتی تعلقات ہیں، اسے دوستی کا نام کسی صورت نہیں دیا جا سکتا۔ اس وقت دنیا میں تین شیر ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں اور تینوں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لئے ان چھوٹے ممالک کا تعاون چاہتے ہیں جو جغرافیائی لحاظ سے ان کے مفاد میں کام کرسکتے ہیں یا پھر ان کی معیشت کو مزید مستحکم کرنے اور طاقت ور بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس تعاون کے لئے وہ ان ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں اور ہمارے جیسے جذباتی لوگوں کی آنکھیں محبت کے اس اظہار پر نم ہو جاتی ہیں اور ہم گانے لگتے ہیں ”دوستی ایسا ناطہ جو سونے سے بھی مہنگا“ یا پھر ”یاری میری کہتی ہے یار پہ کردے سب قربان“۔ یہ جذباتی باتیں زمینی حقائق سے بہت دور کی ہیں اور زمینی حقائق یہی ہیں کہ یہ دوستی صرف باہمی مفاد کے لئے ہوتی ہے مثلاً ہماری چین سے دوستی۔ پہلے ذرا چین کی تاریخ پر ایک روشنی ڈال لیں۔
چین کی تاریخ بہت پرانی ہے، ایک اندازے کے مطابق لاکھوں سالوں پر مشتمل ہے، شائید دنیا کی سب سے پرانی تہذیب کہا جا سکتا ہے کیوں کہ اندازے کبھی یقینی نہیں ہوتے۔ چین میں پہلی بادشاہت ایک اندازے کے مطابق 1800 سال قبل مسیح سے 1200 قبل مسیح تک رہی اور یہ اندازہ بھی کھدائی سے ملنے والی شہادتوں سے لگایا گیا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جو آس پاس کے چھوٹے چھوٹے علاقوں کو فتح کرتا ہوا بعد میں ایک بڑے ملک کی شکل اختیار کر گیا۔ پہلے چین کے آس پاس بے شمار چھوٹے چھوٹے علاقے تھے اور موجودہ چین ان علاقوں پر مشتمل تھا جو خودمختار تھے، ہر علاقے پر کسی نا کسی بادشاہ نما شخص کا قبضہ تھا۔ یہ سب ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے رہتے تھے۔ آہستہ آہستہ لڑتے بھڑتے علاقے ایک دوسرے میں ضم ہوتے گئے اور چین نے ایک بڑے ملک کی شکل اختیار کر لی۔ چین میں خانہ جنگی کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے اور ایک طویل عرصے پر محیط ہے جس میں بے شمار افراد ہلاک ہوئے، اس میں قبیلوں، مذاہب اور زبانوں کا بھی عمل دخل تھا۔ آہستہ آہستہ چھوٹے علاقے طاقت کے زور پر ختم ہوتے گئے اور بڑی ریاست عوامی جمہوریہ چین کے نام سے ابھری۔ 700 عیسوی سے تقریباً 800 سال تک چین نے کافی ترقی کی۔ آرٹ اور ٹیکنالوجی میں دنیا میں پہلے نمبر پر آیا۔
1300 عیسوی میں قبلائی خان کے دور میں ایک مرتبہ پھر چین خانہ جنگی کی لپیٹ میں آیا جس میں بے انتہا نقصان اٹھانا پڑا۔ ایک مرتبہ پھر محنت کرکے 1800 عیسوی تک چین سنبھل چکا تھا لیکن 1851ءعیسوی میں پھر ایک مرتبہ خانہ جنگی ہوئی اور 1862 تک جاری رہی جس میں دو کروڑ افراد ہلاک ہوئے، اس کے چند سالوں بعد بادشاہت کا خاتمہ ہوا لیکن چین دو حصوں میں بٹ گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد چین معاشی طور پر ختم ہو چکا تھا۔ 1945ءکے بعد خانہ جنگی کا سلسلہ جاری رہا بالاخر 1949ءمیں کمیونسٹ پارٹی نے حکومت کی باگ و ڈور سنبھالی اور جمہوریہ چین قائم کی۔ اس وقت حالات بے انتہا ابتر تھے اور پاکستان اس وقت بہت اچھے حالات میں تھا یوں سمجھیں کہ چین کو 1949ءمیں آزادی ملی اور معیشت تباہ شدہ ملی۔ چین کے غیر ممالک سے تعلقات بھی نہیں تھے اور امریکہ سے تعلقات میں کافی کشیدگی تھی۔ امریکہ نے کمیونسٹ حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن پاکستان نے فوراً ہی تسلیم کرلیا۔ پاکستان نے امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کو مثبت بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور مسلسل کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ تعلقات میں بہتری آئی اور پہلی مرتبہ امریکہ کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے چین کا دورہ کیا اس کے علاوہ اقوام متحدہ میں چین کو شامل کرنے کے لئے بھی پاکستان نے مرکزی کردار ادا کیا۔ اس کے بعد چین نے اس بات کو محسوس کر لیا کہ دنیا میں اپنا مقام بنانے کے لئے سخت محنت کرنا پڑے گی۔ دنیا میں نا جانے کیا کیا ہوتا رہا لیکن چین کے عوام سر جھکائے خاموشی سے اپنا کام کرتے رہے۔ چین میں اس وقت سے ابھی تک ہر طرح کی برائیاں موجود ہیں، جو ہمارے ملک میں ہیں، چوری، دھوکہ دہی، بے ایمانی، سیاست دانوں اور حکومتی عہدے داروں کی کرپشن شروع سے قائم ہیں جو ثبوت کے ساتھ پکڑا جاتا ہے اسے سزا بھی ملتی ہے۔ لیڈروں کے کرپٹ ہونے کے باوجود عوام نے ان کی تقلید نہیں کی اور ہر خرابی کا ذمہ دار ان کو نہیں ٹھہرایا بلکہ اپنا کام محنت سے کرتے رہے۔ ان کو معلوم تھا کہ اس سسٹم میں صرف ہم ہی ختم کرسکتے ہیں اپنے آپ کو سیدھا رکھ کر اور انہوں نے کر دکھایا، تمام برائیوں کے باوجود چین سپرپاور کی طرف گامزن ہے۔ چین اور پاکستان کی دوستی مضبوط ہے لیکن حکومتوں کی دوستی میں جذبات نہیں بلکہ مفادات دیکھے جاتے ہیں۔ پاکستان سے دوستی سے پہلے جب بھارت کے ساتھ چین کا سرحدی تنازعہ شروع نہیں ہوا تھا، چین اور بھارت کی دوستی بڑھتی جارہی تھی کیونکہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت تھی، پاکستان کے وزیر اعظم نے چو این لائی سے دوستی مضبوط کرنے اور تعاون بڑھانے کی کوشش کی لیکن اس وقت چو این لائی پاکستان سے مضبوط کرکے انڈیا کو ناراض کرنا نہیں چاہتے تھے لہذا کوئی گرم جوشی نہیں دکھائی۔ آہستہ آہستہ سرحدی تنازعات نے سر اٹھانا شروع کیا اور اس مسئلے پر دونوں ملکوں چین اور بھارت کے تعلقات میں سردمہری آنا شروع ہوگئی۔ اس دوران پاکستان کے وزیر اعظم حسین سہروردی تھے لہذا ان کو مشورہ دیا گیا کہ یہ بہت مناسب وقت ہے، چین کو بھارت کے سحر سے نکال کر اپنے ساتھ ملایا جا سکتا ہے لہذا حسین سہروردی نے ایک مرتبہ پھر دوستی کے رشتے کو مستحکم کرنے کے لئے چو این لائی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ 1962ءکی چین بھارت جنگ کے بعد چین نے محسوس کیا کہ اسے پاکستان کی ضرورت رہے گی لہذا یہ دوستی مضبوط ہونا شروع ہو گئی جسے میں دوستی نہیں باہمی مفادات کا نام دیتا ہوں۔ اس وقت پوری قوم کی نظریں چین کی طرف ہیں وہاں ہمارا ناخدا ہے جب کہ سوچنا یہ چاہئے کہ ابھی وقت ہے ہم اپنے آپ کو صحیح کرلیں، محنت کریں، اپنے ملک کو چین کے برابر لانے کی کوشش کریں تاکہ مفادات برابری کی بنیاد پر ہوں۔ جس وقت سی پیک کے منصوبے کے بعد چینیوں نے پاکستان آنا شروع کیا تو ایسی خبریں آئین جن سے یہ نتیجہ نکلا کہ چینیوں کا رویہ بالکل ان انگریوں جیسا ہے جب وہ اپنی ایسٹ انڈیا کمپنی کاروبار کے نام سے ہندوستان لائے تھے وہ مقصد ہی تجارت تھا اور حالیہ مقصد بھی سی پیک منصوبہ تجارت ہی ہے۔
گوادر ایک ایسا علاقہ ہے جس پر تمام بڑے مگرمچھوں کی نظریں ہیں۔ پاکستانی حکومت اور تمام لیڈروں کو اور پاکستانی عوام کو جو کچھ کرنا ہے بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہے، ہمیں دوستی میں جذباتی نہیں ہونا چاہئے بلکہ کاروبار کو کاروبار سمجھ کر کرنا چاہئے، بے جا جھکنا مناسب نہیں ہے۔
217