تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 278

زرداری، عمران، نواز اور الطاف پر بھاری

ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں آصف علی زرداری اپنے مخالفین کا نشانہ بننے کے بجائے مخالفین کو اپنا نشانہ بنانے کے کامیاب کھلاڑی ثابت ہو رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، شاہنواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اپنے مخالفین کا نشانہ بن کر قربانی کی مثال ثابت ہوئے جب کہ آصف علی زرداری نے آہستہ آہستہ مخالفین کو اپنے راستے سے ہٹانے میں بہت کامیاب رہے اور آج بھی وہ ایک طرف نواز شریف کو فوج سے لڑانے کے باوجود عسکری حلقوں کی بہترین چوائس بن کر سامنے آرہے ہیں۔ ایک طرف انہوں نے سندھ میں گزشتہ بارہ سالوں میں بلاشرکت غیرے اپنی حکومت قائم رکھی اور فوج کی توپوں کا رُک پہلے الطاف حسین کی طرف اور اب نواز شریف کی طرف کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ آج عمران خان کی حکومت خطرے میں ہے اور سندھ میں ان کی اجارہ داری ہے، وہ جام صادق کے استاد ثابت ہورہے ہیں اور عمران خان کا متبادل بھی۔
مشرقی پاکستان کو علیحد کرنے کے بعد جب یحییٰ خاں نے سویلین مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کا عہدہ مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی کے حوالے کیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ سندھ کا گورنر اپنے ٹیلینٹڈ کزن ممتاز علی بھٹو کو بنایا۔ جس نے بعد میں جب وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنی کابینہ کا اعلان کیا تو اس میں بلدیاتی کا وزیر جام صادق علی کو بنادیا۔ جام صادق علی کو بلدیاتی کا عہدہ خاص طور پر بھٹو صاحب کے حکم کے تہت دیا گیا تھا۔ اس زمانے میں اگر بلدیات کی وزارت کا کام کراچی کے اساسوں کی بندر بانٹ تھی، یہ بات بھٹو کو اچھی طرح معلوم تھی کہ اس کام کے لئے سب سے بہترین اعلیٰ کار کون ہو سکتا ہے۔ جام صادق علی نے سب سے پہلے یہ کام شروع کیا کہ کس طرح کراچی کی ڈیموگرافی کو تبدیل کیا جائے، اس کا سب سے بہترین طریقہ تھا کہ یہاں کی زمینوں کو اپنے ان مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ بھٹو کو یہ معلوم تھا کہ دو علاقوں کے دو طبقے کسی بھی طرح ان کو پسند نہیں کرتے جس کا اندازہ 1970ءکے انتخابات میں ہو چکا تھا۔ ایک طرف تو انہوں نے خردماغ جرنلوں کو استعمال کرکے مشرقی پاکستان کے عوام کو اپنا نشانہ بنایا اور مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان کو الگ کرکے اس علاقے پر اپنی حاکمیت پر اپنی گرفت مضبوط کرلی اس کے بعد سب سے بڑی رکاوٹ کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص کی غیر سندھی آبادی تھی جو کہ مشترکہ طور پر مہاجر، پنجابی، پٹھان کی حیثیت سے ان کے خلاف کھڑی ہوئی تھی اس کا توڑ انہوں نے اس طرح نکالا کہ کچھ غیر سندھی ارکان کو نمائشی وزارتیں دے کر قوتوں کو یہ باور کروایا کہ وہ کتنے غیر متعصب ہیں، دوسری طرف چالاک ترین سندھیوں کو بہت ہی اہم وزارتیں سونپیں۔ جس میں ایک جام صادق علی تھا۔
جام صادق علی نے سندھ میں یہ کام کیا کہ ایک طرف کراچی کی قیمتی زمینوں کی اس طرح سے لوٹ مار مچائی کہ ہر کوئی ان کے در کا سوالی بن کر قدموں میں آن گرا۔ یوں انہوں نے کراچی کی زمینوں کو بے دردی سے بانٹنا شروع کردیا۔ بھٹو کو جب یہ خبر ملی کہ جس کے لئے جام صادق علی کو معمور کیا تھا وہ تو اس سے بڑھ کر کام کر دکھا رہا ہے تو اس حوالے سے ایک لطیفہ بھی مشہور ہوا کہ ایک بار کراچی میں بھٹو نے جام سے کہا جام خیال رکھنا قائد اعظم کا مزار بھی نہ دوسروں کے حوالے کر دینا۔ جام صادق نے یہ کام بڑی خوبصورتی سے انجام دیا اس نے ایجنسیوں کو بھی خوب نوازا، اپنے دوستوں، وڈیروں کو بھی خوب مزے کروائے اور کچھ کراچی کے بڑے لوگوں کو بھی اس حمام میں ننگا کیا، اس طرح ایک وقت وہ آیا جب فوجی آمروں کو ضرورت پڑی تو انہوں نے جام صادق کو سندھ کا طاقتور حکمراں بنا دیا اور بھٹو خاندان کے خلاف استعمال کیا۔
ان جنرلوں نے کراچی میں ایک تنظیم کی بھی تشکیل کی جس کے سربراہ الطاف حسین بھی طم تراق سے کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کے عوام سے منتخب ہو کر بلا شرکت غیرے حاکم بن چکے تھے۔ جام نے ایک طرف الطاف حسین کو پیر صاحب کا خطاب دے کر ان کی خوشنودی حاصل کی دوسری طرف فوجی حکمرانوں کی فرمائشوں کے مطابق سندھ میں راج کرنا شروع کردیا اور آہستہ آہستہ فوجی حکمرانوں کے ساتھ مل کر الطاف حسین اور مہاجروں کی جڑیں کاٹنا شروع کردیں۔ بلاشبہ الطاف حسین اس وقت مہاجروں کے ہیرو بن کر مہاجروں کے نوٹ، ووٹ اور خون بھی حاصل کررہے تھے اور مہاجر نوجوان ان کی ایک آواز پر نوٹ، ووٹ کی سپورٹ کے ساتھ ساتھ ان کے نام پر خون دینے کے لئے بھی تیار رہتے تھے۔ اگر ایسی قوت بھٹو صاحب کو میسر ہوتی تو وہ اپنی عوام کو آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچا دیتے جو بغیر سپورٹ کے بھی انہوں نے یہ کام اپنے قوم کے لئے کیا۔ الطاف حسین نے انی جماعت ایم کیو ایم کو اس طرح منظم کرنا شروع کردیا کہ اس سے خوفزدہ ہو کر طاقتور حلقے اس کو اپنے قابو کرنے کے منصوبے بنانے لگے ان مقتدر حلقوں نے ایک طرف ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھ کر باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے اس کو سولی پر لٹکا کر اپنی قوت میں بے پناہ اضافہ کرلیا تھا، دوسری طرف الطاف حسین کو اپنے اتحادیوں سے لڑوا کر سب کو اس کے خلاف متحد کردیا اس کام کے لئے جام صادق بہترین مہرہ ثابت ہوا جس کو بعد میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی ذہین صاحبزادی بے نظیر کے خلاف بھی استعمال کیا۔
دوسری طرف سندھ کی سب سے تیزی سے ابھرتی ہوئی منظم طاقت جو اپنی تنظیم سازی کی وجہ سے ہر ایک کے لئے خطرہ بنتی جارہی تھی اس کا توڑ بھی جام صادق کو استعمال کرکے کیا۔ اس طرح مہاجروں کی سب سے منظم طاقتور جماعت اور مضبوط تنظیم کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ جو اب تک کی سویلین جماعتوں میں سے سب سے زیادہ منظم جماعت بن کر ابھر رہی تھی۔ اس طرح الطاف حسین کو ملک بدر ہونے پر مجبور کردیا، اس کا میں جام صادق علی نے اپنی ذہانت اور چالاکیوں کا بھرپور استعمال کیا اور ایک مدت کے بعد طبی موت سے دوچار ہوگئے۔
جام صادق علی اپنے دور کا چالاک ترین انسان تھا جس نے ایک سیٹ کے بل بوتے پر پورے صوبہ پر حکومت کی جس نے ایک طرف طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل کرکے اپنے جیسے وڈیروں کو بھی سندھ کی سیاست میں ایک موثر نمائندگی دلوائی۔ دوسری طرف الطاف حسین سے اپنی دوستی کا بھی بھرپور فائدہ اٹھایا۔ بے نظیر کے سیاست میں آنے کے بعد جام صادق علی کا کردار ثانوی حیثیت اختیار کرتا چلا گیا کیونکہ انہوں نے اس کام کے لئے اپنے شوہر آصف علی زرداری کو معمور کیا۔ آصف علی زرداری نے ملکی سطح پر بے نظیر کی حکمرانی کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ سندھ کے اندر ان کے مخالفین کو اپنے ساتھ ملایا یا پھر ان کو راستے سے ہٹا دینا شروع کردیا جس کا سب سے پہلا شکار ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے مرتضیٰ بھٹو بنا۔ اس کے قتل کا ذمہ دار کبھی طاقتور حلقوں کو قرار دیا گیا، کبھی بین الاقوامی حلقوں پر الزام لگایا اور اپنے آپ کو صاف بچا کر سب کی آنکھوں سے دور رکھا۔ ایک طرف اس کام کے لئے انہیں طاقتور حلقوں کی بھی حمایت حاصل تھی اس لئے بہت کم لوگوں نے مرتضیٰ بھٹو کے قتل میں ان کو شریک جرم سمجھنے سے انکارکردیا۔
آصف علی زرداری نے جام صادق علی کے انداز کو کمال تک پہنچایا۔ وہ ایک طرف اس عسکری حلقوں کو آنکھیں بھی دکھاتا دوسری طرف ان کی مدد بھی کرتا، خاص طور پر جب اس کو اس بات کا یقین ہوتا کہ وہ سندھ میں رہنے والے اپنے مخالفین کو اپنے راستے سے ہٹانے میں کتنا کامیاب ہوتا، وہ ایک طرف الطاف حسین کی قوت سے بھی آگاہ تھا دوسری طرف اس کو اپنے لئے ایک خطرہ بھی سمجھتا تھا، وہ الطاف حسین سے براہ راست ٹکرانے سے گریز کرتا، کبھی الطاف حسین سے 40/60 کے فارمولے کی بات کرتا، دوسری طرف اپنے ساتھی ذوالفقار مرزا کے ساتھ رحمان ملک کو بھی ان کی بیخ کنی کے لئے استعمال بھی کرتا۔ ایک طرف الطاف حسین کو اشتعال دلا کر یا نشہ آور اشیا کا شکار بنوا کر ایسے بیانات کی طرف راغب کرتا جو کہ عسکری حلقوں کو ان کے تدارک کے لئے فیصلہ کن اقدامات اٹھانے پر مجبور کردیتے۔
الطاف حسین نے گزشتہ تیس چالیس سالوں سے مہاجر سیاست نے مرکزی اور فیصلہ کن حیثیت اختیار کرنے کے باوجود اپنے ہم زبانوں کی تین نسلوں کے لئے بے پناہ مسائل کھڑے کر دیئے، جنہوں نے الطاف حسین کو سپورٹ کے ساتھ ووٹ بھی ٹوٹ کر دیئے اور وقت آنے پر نوٹ کے ساتھ خون کے نذرانے بھی بڑھ چڑھ کر دیئے مگر جواب میں مسلسل تباہی کی جانب گرتے چلے گئے۔ مہاجروں کی تباہی میں مقتدر حلقوں کے ساتھ ساتھ جام صادق علی، آصف علی زرداری کے علاوہ الطاف حسین کی ایم کیو ایم برابر کی شریک رہی ہے جس کا سراسر نقصان مہاجروں کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی بے پناہ اٹھانا پڑا۔
آج مہاجر نسلیں جس تباہی سے دوچار ہیں ان کا نوجوان طبقہ جتنا مایوس ہے اس کا تصور پاکستان بنانے والے اس کے بانیوں نےھ کبھی نہ کیا ہوگا۔ جس طرح قائد اعظم کا ساتھ دے کر برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی ہزار سالہ بالادستی کو ایک طرف رکھ کر پاکستان کی تعمیر کی اور اپنے آپ کو پورے برصغیر سے محدود کرکے پاکستان کی حد تک محدود کرلیا اس پاکستان میں بھی انہیں سندھ کے شہری علاقوں میں لا کر بسایا جہاں پر اب وہ تیسرے درجے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔
مہاجروں نے الطاف حسین پر اعتماد کیا، الطاف حسین نے زرداری پر اس ہی طرح اب نواز شریف بھی زرداری پر بھروسہ کا شکار ہو رہا ہے یوں عمران خان کے بعد زرداری ہی فوج کا انتخاب بنا رہے گا، ایک زرداری الطاف، نواز اور عمران پر بھاری۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں