Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 513

زمانہ بدل گیا

زمانہ کتنا بدل چکا ہے، محبّتیں، خلوص ،قدریں ،روا داری سب کچھ فنا ہوچکا ہے۔ مادّیت نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔لوگوں کی سوچ اتنی بدل چکی ہے کہ اب اپنی ذات پر بھی شک ہونے لگا ہے کہ ہم یا تو اس ماحول کو قبول نہیں کرپائے یا پھر ہم ذہنی طور پر آگے نہیں بڑھے اور ابھی تک پرانے فرسودہ متروک خیالات کے ساتھ نئے دور میں رہ کر نئے قوانین میں رخنہ اندازی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ شخصیت پرستی کا بخار۔۔ مادیت کے اس دور کا ایک اہم سوال۔۔آپ کرتے کیا ہیں ؟ہر گفتگو اس سوال کے بعد ہی آگے بڑھتی ہے ۔آپ اگر کسی بڑے لوگوں کی محفل میں ہیں تو کوئی انجانا سا شخص ہاتھ میں کسی مشروب کا گلاس پکڑے آپ کے پاس ٹہلتا ہوا آئے گا اور سلام دعا کے بعد پہلا سوال ہوگا کہ آپ کرتے کیا ہیں۔اگر آپ نے کہا کہ میں ایک معمولی سا آدمی ہوں یا کو ئی معمولی سی نوکری کرتا ہوں تو وہ اچھا اچھا کرتا ہوا برا سا منہ بناکر کسی اور کی طرف گھوم جائے گا۔اور اگر آپ نے یہ ظاہر کیا کہ آپ کوئی بہت بڑی توپ ٹائپ کی چیز ہیں تو اس کا لہجہ اچانک عاجزانہ ہوجائے گا پہلے تو وہ آپ کی بے ڈھنگی شخصیت کے بارے میں جھوٹی تعریف کے چند بول آپ کی نظر کرے گا اور فورا” ہی آپ کو ڈنر کی دعوت دے دے گا اور اس حد تک اپنائیت کا اظہار ہوگا کہ ریسٹورینٹ کی کیا ضرورت ہے میرے گھر پر ہی ڈنر کریں۔یہ سلسلہ پارٹیوں کی حد تک نہیں ہے اب یہ زور شور سے سوشل میڈیا پر ہورہا ہے فرینڈ شپ ہوتے ہی آپ سے رابطہ کیا جائے گا اور سوال یہی ہوگا کہ اپنے پروفائل میں تو لمبی لمبی چھوڑی ہیں لیکن آپ کرتے کیا ہیں ۔اگر آپ نے کہا کہ آپ کوئی معمولی کام کرتے ہیں چاہے آپ امریکہ میں رہ رہے ہوں۔تو دوبارہ رابطہ نہیں ہوگا مجھے اس کا خاصہ تجربہ ہوچکا ہے اور کئی لوگوں سے جان بھی چھوٹ گئی۔ پہلے زمانے میں منع کیا جاتا تھا کہ کوئی ایسی بات نہ کرو جس سے کسی کی دل آزاری ہو کسی کا دل ٹوٹ جائے آج اگر یہی بات کسی سے کہہ دی جائے تو جواب ملتا ہے ارے بھائی اگر کہہ دیا تو کیا ہوگیا کون سی قیامت آگئی اور اگر دل ٹوٹتا ہے تو ٹوٹے دل آزاری ہوتی ہے تو ہو ہماری بلا سے ہم نے کسی کا ٹھیکہ تھوڑی لیا ہو ا ہے۔ذہن کتنے بدل چکے ہیں سوچ کا معیار کتنا گھٹیا ہوچلا ہے۔احساس مردہ ہوچکا ہے جب چاہو جس کی چاہو بے عزّتی کردو نہ کہنے والے کو کوئی احساس اور نہ سننے والے پر کوئی اثر ہوتا ہے۔یوروپ اور امریکہ میں رہنے والے بعض افراد کا تو یہ حال ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے پلنے بڑھنے اور پڑھنے لکھنے کے بعد کچھ لوگوں پر قسمت کی دیوی مہربان ہوئی اور ان کو امریکہ یا یوروپ کا چانس مل گیا تو اپنی اوقات ہی بھول گئے پاکستان کا ذکر ہمیشہ حقارت یا مزاحیہ انداز میں ہوگا ہر وقت پاکستان کی خرابیاں بیان کرتے رہیں گے اور اگر امریکہ اور یوروپ کے معاشرے کی کچھ برائیوں یا جرائم کے بارے میں کجھ تبصرہ کردیا جائے۔یا حکومت کی کسی غلط پالیسی کے بارے میں بات کی جائے تو ایسے آگ بگولا ہوجاتے ہیں جیسے ان کے خاندان کو برا کہہ دیا ہو آپے سے باہر ہوجائیں گے اور جہالت کی انتہا دیکھئے کہ فورا” کہہ دیں گے یہاں کی برائی کرتے ہو تویہاں کیوں رہ رہے ہو واپس چلے جاو¿ یہاں کی شہریت کیوں لی ہے ۔تو عرض ہے کہ بھائی شہریت تمام انسانی حقوق کے ساتھ لی ہے صرف پاو¿ں چاٹنے کے لئے نہیں لی ہے ۔اور انسان ہی رہنے کے لئے لی ہے اگر آپ کو پاکستان سے زیادہ اور اچھا کھانے کو ملنے لگا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاو¿ں چاٹنا شروع کردو اچھا کھانے کو تو یہ جانوروں کو بھی دیتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے خوبصورت گھر بھی دیتے ہیں آپ تو ویسا نہ بنو یہاں کی برائی نہیں سن سکتے تو بھائی پاکستان کو برا کہنے کا کیا حق ہے ۔اگر کسی خرابی کی بات کی جائے تو پھر دونوں جگہ کی خرابیاں بیان کریں۔ قدریں کس طرح سے کھوچکی ہیں کہ بچپن میں جب ہمارے والد صاحب کے پرانے دوست ہم سے کہتے تھے کہ ہم تمھارے والد اور دوسرے دوست بھی بچپن میں تمھاری طرح ہی کھیلا کرتے تھے تو ہمیں اپنے والد کے بچپن کے بارے میں جاننے کا اشتیاق پیدا ہوجاتا تھا اور بڑے شوق اور انہماک کے ساتھ سنا کرتے تھے۔ لیکن اب زمانہ کتنا بدل گیا ہے کہ میرا کئی عرصے بعد اپنے پرانے محلّے ناظم آباد جانے کا اتّفاق ہوا گھر کے سامنے جہاں ہم بچپن میں سڑک پر محلّے کے دوسرے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلا کرتے تھے عین اسی جگہ پر ہمارے دوستوں کے بیٹے کرکٹ کھیل رہے تھے میں نے ایک لڑکے کے قریب جاکر کہا پتہ ہے میں اور تمھارے والد اسی عمر میں اور اسی مقام پر کرکٹ کھیلا کرتے تھے تو اس نے ناگواری سے کہا تو کیا ہوا سب کا بچپن ایسا ہی ہوتا ہے اس میں نئی کون سی بات ہے اب شاہد سلمان یہ پڑھ کر ضرور مجھ سے سوال کریں گے کہ کس کا بیٹا تھا۔بہرحال مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے واقعی میں نے اس سے کوئی احمقانہ بات کہہ دی ہے۔
غالب نے کہا تھا کہ مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں ۔اب کہا جاتا ہے کہ رشوتیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں۔ اب لوگ بغیر کسی حیرانی کے اپنے جائز کام کے لئے بھی اطمینان سے جیب میں ہاتھ ڈال کر رشوت اس طرح دیتے ہیں جیسے سبزی دال چاول یا پان سگریٹ خریدنے کے لئے پیسے دے رہے ہوں۔لوگوں کی سوچ بھی زمانے کے ساتھ ساتھ کتنی بدل چکی ہے۔اگر کسی سے برسبیل تزکرہ کہا جائے کہ یار یہ رشوت ،ملاوٹ ،چور بازاری کتنی عام ہوچکی ہے۔پہلے تو وہ سر سے پیروں تک نگاہ ڈالے گا اور پھر پوچھے گا بھائی کیا باہر سے بہت عرصے بعد آئے ہو اور اگر یہیں رہتے ہو تو بڑی احمقانہ بات کی ہے یہ کوئی نئی بات ہے کیا ،ایسا تو ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے آج کے دور میں زرا سی چیزیں اور شامل ہوگئی ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے ۔بھائی دنیا اسی طرح چلتی ہے۔ یعنی یہ سب کچھ سسٹم میں اس طرح شامل ہوچکا ہے کہ نہ کسی کو برا لگتا ہے اور نہ ہی کو ئی احتجاج کرتا ہے۔ آج جو چور بازاری ،رشوت اور ہر طرح کی بدعنوانیاں اس طرح اور ایسے اعتماد کے ساتھ ہورہی ہیں جیسے یہ سب کچھ غلط نہیں ہے بلکہ یہ قانون میں شامل ہے ہر غیر قانونی کام اس طرح ہورہا ہے جیسے یہ قانون کے مطابق ہو۔اور اب معاشرہ اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ سدھرنے کے آثار ہی نظر نہیں آرہے ہیں۔تو ان سب کا اور معاشرے کو اس مقام تک لانے کا ذمّہ دار کون ہے ؟ نہیں جناب سیاست دان نہیں بلکہ ہم خود ہیں ہر غلط کام کو ہر بدعنوانی کو ہم نے دل سے قبول کیا اور کبھی اس پر احتجاج نہیں کیا بلکہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کی۔ہمیں معلوم تھا کہ مارکیٹ میں بیٹھا ہوا مصالحہ بنانے اور بیچنے والا چنے کے چھلکے لال اینٹوں اور لکڑیوں کا برادہ کھانے پینے کی چیزوں میں شامل کرکے بیچ رہا ہے ہم پھر بھی خاموشی سے اس سے خریداری کرتے رہے کہ ایسا تو ہوتا ہے یہ تو سسٹم کا حصّہ ہے رشوتیں دے کر ناجائز کام کرواتے رہے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جائز کام بھی بغیر رشوت کے بند ہوگئے۔ بجلی چرانے کے لئے اپنے گھر میں کنڈے لگانے کے بعد فخریہ اپنے دوستوں رشتے داروں کو بھی لگواکر دئیے۔ہم نے سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی کبھی نہ احتجاج کیا نہ غلط بیوپاریوں کا بائیکاٹ کیا۔ہر زمانے میں دیکھا گیا اور سنا گیا کہ پولیس جب کسی کو پکڑ کر لے جاتی ہے تو پیسے لے کر چھوڑ دیتی ہے۔ہم نے کبھی جمع ہوکر نہ دھرنا دیا نا کوئی احتجاج کیا بلکہ خاموشی سے پیسے دے کر بندے چھڑ والئے اس کام کو بھی ایسے کیا جیسے کوئی قانونی کام ہو اب نوبت یہاں تک آگئی کے یہی کام حکومتی سطح پر ہونے لگا بڑے بڑے چوروں ملک ریاض نواز شریف اور دوسرے بدنام زمانہ چوروں سے ڈیل کرو پیسے لو اور ان کو رہا کردو چھوٹے چوروں کو پولیس پیسے لے کر رہا کرتی ہے اور بڑے چوروں سے حکومت پیسے لے کر رہا کررہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں