Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 316

زندگی

زندگی کب شروع ہوئی اور کس طرح یہ ایک لمبی بحث ہے جو ایک زمانے سے چلی آرہی ہے اور صدیوں سے تحقیقاتی مراحل میں ہے۔سائنسدان ہر زمانے میں اپنی اپنی معلومات کے مطابق مختلف دعوے کرتے چلے آرہے ہیں۔اور ہر نئے زمانے کے سائنسدان پرانے دعوو¿ ں کومسترد کرکے کوئی نیا دعوی ‘ کردیتے ہیں۔ اپنےاپنےمذہب اور عقیدے کے مطابق جو کچھ لوگوں کو بتایا جاتا ہے وہ اس پر یقین رکھتے ہیں۔جب بھی کوئی شخص یہ سوال کرتا ہے کہ زندگی کیا ہے تو ہمارا دھیان صرف اور صرف انسانی زندگی کی طرف جاتا ہے۔جب کہ زندگی صرف انسان ہی کے پاس نہیں ہے اس کے مختلف رنگ وروپ ہیں۔ہر وہ چیز جو اپنے بل پر حرکت کرے۔سانس لے پھلے پھولے اس میں زندگی کی حرارت ہوتی ہے۔چرند پرند کیڑے مکوڑے پھل پھول پودے درخت سب زندگی سے بھرپور ہیں۔درخت جو پھل پھول یا سبزیاں دیتے ہیں انسان ان کی بڑی خدمت کرتا ہے۔اور اس خدمت کا سبب پھل اور سبزیاں ہیں۔میرے ایک دوست کا مرغیوں کا فارم ہے۔وہ ان مرغیوں کی بہت دیکھ بھال کرتا ہے ان کی صفائی ستھرائی کا بھی بہت خیال رکھتا ہے ،ان کو اچھی سے اچھی غذا دیتا ہے اور جب مرغیاں فارم کی کھلی فضائ میں دوڑ رہی ہوتی ہیں تو ان کو دیکھ دیکھ کر خوب خوش ہوتا ہے۔یہ سب وہ مرغیوں کی زندگی کے لئے نہیں بلکہ اپنی زندگی قائم رکھنے کے لئے کررہا ہے۔کیوں کہ ان تمام مرغیوں کو لوگوں کی غذا بننا ہے اور میرے دوست کی حیب بھرنا ہے یہی ہے مرغیوں کی زندگی۔برفانی علاقے میں دریا کے اوپر برف کی ایک سل بن گئی ہے۔برف کی چادر کے نیچے مچھلیاں تیر رہی ہیں جو کہ گہرائی سے اوپر کی طرف آگئی ہیں انہیں یہ گمان ہے کہ برف کی یہ موٹی سی چھت ان کی حفاظت کرے گی اچانک برف کی چادر کو چیرتا ہوا ایک نیزہ آتا ہے اور ایک مچھلی کے پیٹ میں گھس جاتا ہے اور مچھلی کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا اس برفانی علاقے میں رہنے والے کو اپنی زندگی قائم رکھنے کے لئے اس مچھلی کی جان لینا ضروری ہے۔ایک زندگی قائم رکھنے کے لئے کسی دوسری زندگی کا دیا بجھانا پڑتا ہے۔بلّی چوہے کے پیچھے دوڑ رہی ہے اور چوہا اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ رہا ہے بلّی اپنی بھوک مٹانے اور اپنی زندگی قائم رکھنے کے لئے دوڑ رہی ہے اور چوہا اپنی زندگی بچانے کے لئے دوڑ رہا ہے مقصد ہے زندگی۔چھت پر پڑے ہوئے گوشت کے ٹکڑے کو چیل نے بہت اوپر سے دیکھا۔آسمان سے چھت کی طرف لپکی۔گوشت کے ٹکڑے تک پہونچنے سے پہلے ہی ایک طاقتور اور پھرتیلی چیل نے غوطہ لگایا اور گوشت کا ٹکڑا لے اڑی۔کمزور چیل کو جگہ بدلنا پڑے گی زندگی قائم رکھنا ہے تو اس جگہ جانا پڑے گا جہاں اس سے کمزور چیلیں اڑتی ہیں۔چڑیا گھونسلے میں دو ننھے بچّے چھوڑ کر کھانا لینے گئی ہے۔قریب آتی ہے منہ میں دانہ ہے بچّے منہ کھولے انتظار میں ہیں اس سے پہلے کہ دانہ بچّوں کے منہ میں ڈالے کوّے نے جھپٹّا مارا اور چڑیا کو لے اڑا چڑیا بے بسی سے بچّوں کی طرف دیکھ رہی ہے کہ کاش دانہ کھلانے کی مہلت مل جاتی یہی ہے زندگی ۔ہمارے اوپر ان جانداروں کے دکھوں کا اثر کیوں نہیں ہوتا ان کی بھی تو ایک زندگی ہے لیکن جب ہم انسانوں کے بارے میں اتنے بے رحم ہیں تو پھر یہ پرندے اور جانور کیا حیثیت رکھتے ہیں کام پر سے گھر آتے ہوئے غریب مزدور لکڑیاں اکھٹّا کرتے ہوئے ایک گٹّھر بناکر رسّی سے باندھ کر گھر لا رہا ہے کہ اس کی بیوی ان لکڑیوں کو آگ میں جھونک کر سارے گھر کے لئے روٹیاں تھوپے گی اور زندگی قائم رکھنے کے لئے پیٹ کی آگ بجھے گی لیکن جب بہت سے انسانوں کو پکڑا جاتا ہے رسّی سے باندھا جاتا ہے اور آگ میں جھونک دیا جاتا ہے زندہ جلادیا جاتا ہے صرف نفرت کی بنیاد پر اور وہ تمام انسان تڑپتے ہوئے جل کر راکھ ہوجاتے ہیں اس سے دوسروں کی زندگی قائم رہنے کی کوئی وجہ تھی اور نہ ہی کسی کے پیٹ کا جہنّم سرد ہوا کیا اسی کا نام ہے زندگی۔بوڑھی عورت کی آنکھوں سے زندگی سے بھرپور دو آنسو ٹپکے اور خاک میں مل گئے کیوں کہ اس کے جوان سپوت کی لاش اس کے سامنے بکھری پڑی ہے جو نامعلوم دہشت گردوں کی گولیوں کا شکار ہوگیا۔ایک اس عورت کے پاس اس کی ناتواں زندگی تھی دوسرا اس کا بیٹا جو اس کی زندگی تھا ایک زندگی ختم ہوچکی ہے اور دوسری ناتواں زندگی بھی اس کے غم میں روتے روتے ختم ہوجائے گی۔اور اس کا ذمّہ دار کوئی نہ?ں ہے کوئی بھی نہیں۔مٹیالے اجالے میں کرسی پر بیٹھا ہوا ضعیف شخص جو عمر کی زیادتی سے اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ باوجود کئی کوششوں کے کرسی سے کھڑا نہیں ہوسکتا ہے لاٹھی قریب رکھی ہے لیکن لاٹھی پر زور دینے کے لئے ہاتھوں میں طاقت نہیں ہے۔جوانوں کے پاس اتناوقت نہیں ہے کہ اسے اٹھاکر سہارا دے کر باہر لے جائیں کہ وہ بھی ایک تازہ ہوا کا جھونکا چاہتا ہے برابر کی کرسی سے ایک بچّہ اٹھا اور بھاگتا ہوا باہر نکل گیا بوڑھے نے حسرت سے اسے دیکھا اور سوچا کبھی اس طرح کی زندگی اس نے بھی گزاری ہے لیکن شائید اس بچّے نے یہ نہ سوچا ہوگا کہ اس نے بھی اس بوڑھے کی طرح ایک دن اس طرح کی زندگی گزارنی ہے گھر کے تمام افراد ڈائننگ ٹیبل کے گرد بیٹھے کھانا کھارہے ہیں انواع و اقسام کے کھانے ٹیبل پر سجے ہوئے ہیں سامنے ٹی وی چل رہا ہے اچانک ٹی وی پر ایک بچّے کو دکھایا جاتا ہے جو ہڈّیوں کا ڈھانچا ہے زمین پر لیٹا ہوا ہے اور اتنی طاقت بھی نہیں ہے کہ روسکے بڑی بڑی آنکھوں سے کیمرے کی طرف دیکھ رہا ہے اس کی آنکھوں میں ہزاروں سوالات ہیں جن کو پڑھنے اور سمجھنے والا کوئی بھی نہیں ہے بیگم صاحبہ نے ایک نظر ٹی وی کی طرف دیکھااور منہ میں نوالہ رکھتے ہوئے کہا !!ہائے بے چارہ ،،فورا” ہی منظر بدلا اور اسکرین پر ایک مشہور سنگر گانا گاتے ہوئے آگیا اور تمام لوگوں کی توجّہ اس پر مرکوز ہوگئی سنگر پر اور اس کے گانے پر سیر حاصل تبصرہ شروع ہوگیا جو ایک گھنٹے تک جاری رہا کسی بچّے کی آخری سانسوں پر افسوس کا لمحہ ہوا کے جھونکے کی طرح گزرگیا اور کسی کامیاب سنگر کی ثناءمیں ایک گھنٹہ کیا یہی ہے زندگی۔پیروںمیں گھنگرو باندھے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے رقص کرتی ہوئی زندگی اور اس پر نوٹ لٹاتے ہوئے اور شراب کے گھونٹ لیتی ہوئی زندگی۔ بنچوں پر بیٹھے ہوئے نشے سے چور بے گھر افراد اور کچھ ڈرگ کے اثر میں گم سم کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے کہ تم اس مقام تک کیسے پہونچے تمھارا مسئلہ کیا ہے زندگی جو تمھیں عطا کی گئی اسے آہستہ آہستہ زہر کی نظر کیوں کررہے ہو ،سیاست دان اسٹیج پر کھڑا چلّارہا ہے مجھ سے غریبوں کا دکھ درد نہیں دیکھا جاتا حکمران عیّاشیاں کررہے ہیں ملک میں غربت و افلاس بڑھتا جارہا ہے۔حکومت کے خلاف احتجاج کرو یہ لیجئیے گھیراو¿ جلاو¿ شروع ہوگیا دکانوں اور گاڑیوں کو آگ لگانا توڑ پھوڑ اس ہنگامے میں کچھ ایسے افراد بھی ہلاک ہوگئے جو اپنے گھر کے واحد کفیل تھے۔کچھ ایسی دکانیں اور کاروبار تباہ ہوئے جن کے مالکان کا کل اثاثہ اور ذریعہ آمدنی یہی کچھ تھا۔ہنگاموں پر قابو پالیا گیا حالات معمول پر آگئے غربت ختم کرنے کے اس احتجاج کے نتیجے میں مزید چار سو خاندان غریبوں کی صف میں شامل ہوگئے سیاست دان کے گھر میں پارٹی ہورہی ہے بکرے ذبح ہورہے ہیں رانیں بھونی جارہی ہیں باہر ننّھے ننّھے بچّوں کے ہاتھ بھیک کے لئے پھیلے ہوئے ہیں ۔یہی ہے زندگی۔۔یہ ایک پرانا محلّہ ہے دوسرے کئی محلّوں کی طرح یہاں سب لوگ ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں ایک دوسرے کے حالات سے باخبر ہوتے ہیں اور خوشی غم میں ایک دوسرےکے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں ایک مخصوص کردار اس طرح کے ہر محلّے میں ہوتا ہے بی امّاں جو گھر گھر جھانکتی پھرتی ہیں انہیں محلّے کا اخبار بھی کہا جاتا ہے۔بی امّاں ایک گھر میں داخل ہوئیں۔آو¿ بی امّاں کیسی ہو ،،اللہ کا شکر ہے ابھی تک تو سلامت ہیں اور ہاں وہ امام صاحب کی بیٹی کی بات پکّی ہوگئی ہے کچھ ہی دنوں میں شادی ہونے والی ہے۔ارے واہ بی امّاں ہی تو تم نے بڑی اچھّی خبر سنائی دونوں میاں بیوی بے چارے بہت پریشان تھے۔۔صحیح کہہ رہی ہو بی بی میں نے بھی کئی جگہ رشتے لگائے کچھ نے معمولی شکل و صورت کی رجہ سے انکار کردیا اور کچھ نے جہیز کی وجہ سے اب جو رشتہ ہوا ہے وہ لڑکا رنڈوہ ہے دو بچّے بھی ہیں امام صاحب کی لڑکی پھر بھی خوش ہے کہتی ہے کم سے کم میرے ماں باپ کو تو سکون ملے گا۔اور ہاں صغیر احمد کے لڑکے کو بھی نوکری مل گئی ہے ،جب سے بے چارے ریٹائر ہوئے ہیں یہی پریشان تھے کے بیٹے کو نوکری مل جائے۔پڑھایا لکھایا مگر بیٹے کی نوکری خریدنے کے لئے پیسے نہیں تھے اور نہ ہی تعلّقات تھے ان کے گھر تو عید کا سماں ہے اور عید کا سماں تو چنّو بھائی کے گھر بھی ہے آخر دس سال بعد اولاد ہوئی ہے اور وہ بھی لڑکا ،،،ابھی الفاظ بی امّاں کے منہ میں ہی تھے کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور پورا محلّہ زمیں بوس دھماکہ خود کش تھا بس یہی ہے زندگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں