تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 530

سرفراز

کرکٹ کے ورلڈکپ کا بخار اپنے عروج پر ہے۔ پاکستان سے جدا ہونے والے مشرقی بازو بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم دنیا کی مضبوط ترین ٹیم کرکٹ کواٹر فائنل میں جا پہنچی ہے۔ پاکستان کی ٹیم ویسٹ انڈیز اور بھارت کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونے کے بعد ابھی تک کواٹر فائنل کے مرحلے سے دور ہے۔ جب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے مقابلوں میں بھارت اور پاکستان کے شائقین اپنی اپنی ٹیموں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے جوش و خروش کے مظاہرے کرتے تھے وہاں پاکستان کی ٹیم کے حمایتوں میں بنگلہ دیشی باشندے بھی بڑے جوش و خروش سے پاکستان کی ٹیم کی حوصلہ افزائی کررہے تھے اس موقع پر جب بھارتی میڈیا نے بنگالی بھائیوں سے کہا کہ یہ اس پاکستانی ٹیم کی سپورٹ کررہے ہیں جس کے لوگوں نے 1971ءمیں بنگلہ دیش میں لاکھوں بنگالیوں کا قتل عام کیا اور تمہارے ساتھ نا انصافی کی۔ اس موقع پر ان بنگلہ دیشی نوجوانوں کا کہنا تھا کہ پاکستانی ہمارے مسلمان بھائی ہیں، ماضی میں جو کچھ ہوا اس کو بھول جانا چاہئے وہ سب سیاست تھی ہم تو اپنے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لئے آئے ہیں۔ بنگلہ دیش کی ٹیم نے کسی بین الاقوامی مقابلے میں پہلی بار کواٹر فائنل میں پہنچنے میں کامیابی حاصل کی ہے، پورے بنگلہ دیش میں جشن کا سماع ہے۔ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم جو کہ ابھی نوخیز ہے اس نے اس کامیابی کو اپنی ٹیم ورک اور محنت کی مرہون منت قرار دیا ہے ان کی کرکٹ ٹیم میں پورے بنگلہ دیش کے ہر علاقے سے بہترین ٹیلنٹ کو منتخب کرکے بہترین کرکٹ ٹیم کا انتخاب کیا گیا اس ملک میں کوئی کوٹہ سسٹم نہیں کہ ڈھاکہ یا چٹاگام کھلنا یا جیسور کے کھلاڑیوں میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا یہی وجہ ہے کہ قیام بنگلہ دیش تک ایک بھی بنگالی کھلاڑی پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ جب کہ اس موقع پر پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں امتیاز روا رکھا جاتا تھا۔ یہ دیکھا جاتا تھا، کون سا کھلاڑی لاہور سے ہے، یا کراچی سے، یا ملتان سے ہے یا مردان سے ہے۔ ٹیم کا انتخاب علاقائی بنیادوں پر ہوتا تھا۔ یوں کسی خاص علاقے کا بہترین ٹیلنٹ اس وجہ سے ضائع ہو جاتا کہ وہ کوٹہ سسٹم کا شکار ہو جاتا۔ ایک زمانے میں کراچی کے حنیف محمد پر جاوید برکی اور سعید احمد کو فوقیت دی جاتی۔ بعد میں جاوید میاں داد پر سلیم ملک کو فوقیت دی جاتی تھی۔ یوں کراچی کے باسط علی، محسن کمال جیسے بہترین کرکٹ کے کھلاڑی اس ہی امتیاز کا شکار ہوئے۔ موجودہ کرکٹ ٹیم میں فواد عالم جیسے کھلاڑی نے اندرون ملک اور بیرون ملک اپنے کھیل سے ماہرین کو بہت متاثر کیا تھا اس جیسے کھلاڑی کے ساتھ امتیاز برتا گیا اس ہی طرح موجودہ ٹیم میں متبادل وکٹ کیپر کے طور پر بڑی مشکل سے جگہ بنانے والے سرفراز احمد کو شامل کیا گیا۔ پھر کرکٹ ٹیم کی تین میچوں میں ناقص کارکردگی کے بعد دنیا کی مضبوط ترین ٹیم میں سرفراز کو شامل کیا گیا۔ سرفراز نے اپنی موجودگی سی ٹیم میں دو مشکل پوزیشنوں کو مستحکم کیا۔ پہلے اس نے ناصر جمشید کی ناقص کارکردگی کے بعد اوپننگ بیٹنگ کو مضبوط بنایا اور 49 گیندوں پر 49 رنز بنا کر رن آﺅٹ ہوا، بعد میں پھر اس نے وکٹ کیپر کے طور پر عمر اکمل کے ناکام ہونے کے بعد اپنے بالرں عرفان وہاب اور راحت کی بہترین بولنگ کا ساتھ دے کر چھ کیچ پکڑ کر کیا۔ اس سے پہلے عمر اکمل نے ان بولروں کی محنت ان کے کیچ گرا کر ضائع کی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کبھی ناقص کارکردگی کرتے کرتے کسی ایک کھلاڑی کی بناءپر کبھی بہتر کھیل جاتی یا مخالف ٹیم کی بدتر کارکردگی کے باعث کوئی میچ با مشکل جیت پاتی یہی وجہ رہی کہ ورلڈکپ کے شروع ہونے سے پہلے پہلی چار بہترین ٹیموںمیں پاکستان کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ ٹیم میں کبھی شکست پر یا تو کسی ایسے کھلاڑی کو جس کا کوئی پرسان حال نہ ہو اس کو بَلی چڑھا کر میڈیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہوتی یا کسی سلیکٹر کو بَلی کا بکرا بنایا جاتا۔
آج کل کرکٹ میں بہت پیسہ چل رہا ہے، بورڈ کے پاس بڑا بجٹ ہوتا ہے اس کا زیادہ حصہ نئے ٹیلنٹ یا کھلاڑیوں کے بجائے مینجمنٹ پر خرچ ہوتا ہے جن کو بڑی تنخواہوں کے ساتھ ساتھ اضافی الاﺅنسس کی مد میں بڑی رقم ملتی ہے۔ دنیا بھر میں بورڈ کے خرچ پر عیاشی کے مواقع بھی حاصل ہو جاتے ہیں اس کے عوض مرضی کی ٹیم سلیکٹ کروائی جاتی ہے، کسی عہدے دار نے اگر انصاف کرنا چاہا تو اس کو فوراً ان تمام مراعات سے فارغ کرکے من پسند افراد کو متعین کیا جاتا ہے۔ دکھاوے کے طور پر کسی ایسے شخص کو اہم عہدے پر رکھا جاتا ہے جس کی ساکھ بہتر ہو مگر کام وہی ہوتا ہے کہ جس کو نوازنا ہو اس کو کسی نہ کسی مستحق کھلاڑی کو نظرانداز کرکے کسی چہیتے کو ٹیم میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ جب یہ چہیتوں کی ٹیم کسی مضبوط ٹیم سے ٹکراتی ہے تو اس کا وہی حشر ہوتا ہے جو پہلے ابتدائی میچوں میں پاکستان کی کرکٹ کا ہوا۔ اگر کرکٹ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا موازنہ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم سے کیا جائے تو بنگلہ دیش کی کرکٹ جس تیزی سے بہتر سے بہتری کی طرف گامزن ہے اتنی ہی تیزی سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم بد سے بدتری کی طرف گامزن ہے۔ ایک وقت وہ بھی آسکت اہے جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم افغانستان، امارات اور آئرلینڈ کی ٹیموں کے زمرے میں آجائے۔ کمنٹری بکس میں بیٹھے ہوئے بکیوں اور کرکٹ کے مافیا کو ملک کے وقار سے زیادہ اپنی اپنی سیٹوں اور جوئے کی فکر رہتی ہے۔ خدا کرے کہ اب بھی ہوش آجائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں