Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 398

سفارش

ہمارے معاشرے میں خاص طور پر ہمارے معاشرے میں سفارش کا لفظ ایک گالی کی مانند ہے۔ سفارش کو کچھ اس طرح سے استعمال کیا گیا ہے کہ جب بھی یہ لفظ سنا یا پڑھا جاتا ہے تو منہ میں کڑواہٹ آ جاتی ہے۔ جب کہ سفارش کسی بھی معاشرے، کسی بھی ملک میں ایک اہم چیز سمجھی جاتی ہے۔ ایک دور تھا جب کوئی معاشرہ کوئی تہذیب، کوئی ملک وجود میں نہیں آیا تھا تو ہر شخص کو صرف اپنی ذات سے مطلب تھا لیکن جب تہذیب اور معاشرے نے جنم لیا، ملک وجود میں آئے، انسانوں کو انسانوں کی ضرورت محسوس ہوئی تو معاشرے کے ساتھ ساتھ سفارش کو ایک اہم اصول سمجھا گیا۔ سفارش لازم و ملزوم قرار دی گئی اور کوئی معاشرہ بغیر سفارش کے پنپ نہیں سکتا۔
دنیا میں ہر جگہ ہر مقام پر ہر کام سفارش سے ہی ہوتا ہے۔ اسے آپ سفارش کہہ لیں، وسیلہ یا تعاون، اس کے بغیر جمود طاری ہو جاتا ہے اور یہی حقیقت ہے لیکن ہمارے جیسے ممالک میں سفارش کے ساتھ بہت بُرا سلوک ہوا ہے۔ نا انصافی کچھ اس طرح ہوئی کہ ناکارہ نا اہل لوگوں کو سفارش کی بنیاد پر وہ عہدے، وہ نوکریاں دی گئیں جن کی شرائط پر وہ پورے نہیں اُترتے تھے اور سفارش سے ہی جائیدادیں، زمینیں تک عطا کی گئیں۔ اس غیر قانونی سفارش سے ایک طرف تو لائق اور اہل افراد کے ساتھ نا انصافی، حق تلفی، دوسری طرف محکمے کو اور ملک کو نقصان۔
سفارش دو طرح کی ہوتی ہے۔ قانونی اور اخلاقی سفارش، غیر قانونی، غیر اصولی اور غیر اخلاقی سفارش۔ معاشرے اور مذاہب کے ساتھ ہی سفارش یا وسیلے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت ہمیشہ ہی حضرت موسیٰؑ کو وسیلہ ہی سمجھتی رہی کہ جن کے ذریعے وہ اللہ تعالیٰ کی مہربانیاں حاصل کریں، قرآن شریف میں کئی ایسے واقعات ہیں۔ سورة بقرة میں من و سلویٰ کے دوران لوگوں نے حضرت موسیٰؑ سے کہا کہ آپ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ سے گزارش کریں کہ ہم ایک ہی غذا کھاتے کھاتے عاجز ہو گئے ہیں، لہذا ہمارے لئے زمین سے پیاز، سبزی اور دالیں اگائے اور ہمیں اپنی دوسری نعمتوں سے نوازے۔ اس کے بعد ان درخواستوں یا سفارش کا سلسلہ ہر جگہ دیکھنے میں آتا ہے۔ بادشاہوں، نوابوں کے دور میں اس کے بعد کے اور آج کل کے دور میں ہر جگہ یہ سب سفارشوں سے ہی ہو رہا ہے۔ تمام نظام اسی طرح چل رہا ہے۔ بات کسی خاص قوم، ملک یا کسی خاص معاشرے کی نہیں ہو رہی ہے۔ بات ہو رہی ہے انسانی معاشرے کی، پوری دنیا کے انسانوں کے ذہن اور ان کی فطرت کیونکہ معاشرہ لوگوں کے آپس میں ملنے جلنے، ایک دوسرے کے قریب آنے سے بنتا ہے۔ انسان کو انسان کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے۔ ایک دوسرے کے تعاون سے کام ہوتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں داخلے کمپنیوں میں جاب ترقیاں یہ سب ایک دوسرے کے تعاون سے ہی ہوتی ہیں۔ خرابی بس وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں ایک نا اہل شخص کو دوسروں پر ترجیح دی جائے۔ کسی دوسرے کا حق مارا جائے۔ تاریخ بڑی دلچسپ ہے، چاہے وہ برصغیر ہند و پاک کی ہو، امریکہ، ایشیا، یوروپ، افریقہ کسی بھی جگہ کی اہم یا بڑی شخصیت کو تاریخ کے جھرکوں سے دیکھیں تو ایک چیز بہت عام نظر آئے گی۔ شاعر، ادیب، عالم، سیاست دان، کلاکار، ایکٹر غرض زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کس طرح سے کامیاب اور مقبول ہوئے، آپ ان کے شروع کے حالات زندگی کے بارے میں معلوم کریں۔ ان نامور اشخاص کو بچپن یا جوانی میں کوئی نا کوئی شخص باپ، دادا، چچا وغیرہ اپنے ساتھ بادشاہ کے دربار میں یا کسی عالم یا استاد کے پاس یا کسی نواب کے پاس لے جا کر کسی مدرسے یا مسجد میں جا کر سفارش کرتے ہیں کہ اس کو علم دیا جائے اور ان کی سفارش پر اس بچے یا نوجوان پر خصوصی توجہ دی گئی اور اسے تراش کر ہیرا بنا دیا۔ ایسے لوگوں نے نام بھی پیدا کیا۔ کامیاب رہے، اور ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔ اس بچے یا نوجوان کی جب سفارش ہو رہی ہو گی تو ممکن ہے تھوڑے ہی فاصلے پر کوئی بچہ یا نوجوان بیٹھا ہو جو اس سفارش سے زیادہ ذہین ہو، لیکن اس کے پاس ایسا کوئی ذریعہ یا جان پہچان نہ ہو کہ اس کی سفارش ہو سکے، ہو سکتا ہے کہ اس کو موقع ملتا تو وہ دنیا میں بہت نام پیدا کرتا لیکن وہ گمنامی کی زندگی میں چلا گیا۔ لیکن یہاں نا اس کا قصور ہے اور نا ہی کسی اور کا صرف وقت اور حالات نے اسے ناکام اور کسی دوسرے کو کامیاب کردیا تو نامور آدمیوں کی کامیابی میں کسی نہ کسی کی سفارش کا دخل تھا۔
علامہ اقبالؒ کے والد شیخ نور محمد خود بھی عالم تھے اور کئی جید علماءسے ان کے تعلقات تھے، ان ہی میں ایک مولانا غلام حسین بھی تھے، اپنے وقت کے نامور عالم تھے، علامہ اقبال جب چھوٹے تھے تو ان کے والد ان کو مولانا غلام حسین کے پاس لے گئے جو کہ ایک مسجد میں درس دیتے تھے اور انہوں نے کہا کہ اس میرے بچے کو بھی کچھ علم دیں۔ دوسرے لفظوں میں چونکہ عالم صاحب ان کے والد کے دوست تھے تو تعلقات کی بناءپر یہ درخواست قبول کرلی۔ پھر علامہ اقبال کے والد کے ایک اور دوست مولانا سید میر حسن نے ان کو جدید تعلیم سے روشناس کرایا اور ان کو ایک انگلش اسکول میں داخل کروادیا یعنی ہر قدم پر سفارش، سہارے یا وسیلے کی ضرورت پڑی۔ بقول محترمہ فاطمہ جناح کے ان کے بھائی قائد اعظم محمد علی جناحؒ تعلیم میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے اور نا ہی والد صاحب کے کاروبار میں کوئی دلچسپی تھی لہذا ان کے والد نے لندن میں اپنے ایک دوست سر فریڈرک لیف سے ان کے لئے بات کی اور انہوں نے اپنے تعلقات کی بناءپر قائد اعظم کو گراہم شپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی میں ایک تربیتی کورس کے لئے داخل کروادیا۔ وہاں سے ان کے مزید تعلقات اور کامیابی کے دروازے کھلے، لیکن بنیادی طور پر سفارش کی ضرورت پڑی۔ مشہور شاعر داغ دہلوی کی والدہ نے شوہر کی وفات کے بعد بہادر شاہ ظفر کے بیٹے مرزا فخرو سے شادی کرلی لہذا ان کی رسائی محل اور دربار تک ہوئی اور وہاں انہیں بہادر شاہ ظفر کے استاد ذوق سے سیکھنے کا موقعہ ملا۔
گاندھی جی بھی تعلقات اور سفارش پر افریقہ میں بھارتی فرم دادا عبداللہ اینڈ کمپنی تک پہنچے اور وہاں سے آگے بڑھتے رہے۔ فی زمانہ سفارش بہت ضروری اور اہم چیز ہے۔ وہ نوجوانوں بے وقوف کہلاتے ہیں جو کہتے ہیں میں اپنی قابلیت پر مقام حاصل کروں گا، سفارش پر نہیں، لیکن اس قابلیت کو منظرعام پر لانے کے لئے ”سفارش“ ضروری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں