Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 215

سوشل میڈیا

پچھلے دنوں پہ در پہ ایسے واقعات اور حالات نے جنم لیا کہ ایک لمحے کو ذہن ماﺅف ہو گیا، ہمارے ملک کے معاشی حالات تو دگرگوں تھے ہی، سیاسی حالات نے بھی ہلچل مچا دی، ہر چیز تتر بتر ہو گئی، اندھیر نگری چوپٹ راج، جس کی مرضی وزیر اعظم بن جائے اور جو چاہے وزیراعلیٰ کی پگڑی باندھ لے، کوئی پوچھنے والا نہیں، بلکہ پوچھنے والوں نے بھی ہاتھ جھاڑ لئے، پورا ملک بے یارومددگار ہو گیا ہے۔ لٹیروں کی چاندی، قاتلوں کی ضمانت اور رہائی، پھر ہم نے سوچا کیوں بلاوجہ اتنی ٹینشن لی جائے۔ ڈیپریشن میں کیوں جایا جائے۔ پھر سوچا اس سارے گھورکھ دھندے سے نکل کر کچھ اچھا سوچا جائے سو دھیان گیا سوشل میڈیا کے تجربات پر خاص طور پر فیس بک پر کیوں کہ ہم نے جو اپنی جوانی کا دور گزارا اس میں سیل فون، انٹرنیٹ کا کوئی تصور ہی نہیں تھا البتہ محبتیں تھیں جو پرائمری کلاسوس سے ہی شروع ہو جاتی تھیں اور اس کے اظہار کا صرف ایک ہی طریقہ ہوتا تھا یعنی خط، جسے پہنچانے اور وصول کرنے کے ذرائع ناپید تھے، بڑی مشکلات سے خطوط پہنچائے اور وصول کئے جاتے تھے۔ موٹر سائیکل والے التبہ موقع نکال کر محبوبہ کو سیر سپاٹے کرادیتے تھے جن کے گھروں میں فون تھے وہ بزرگوں کی کڑی نگاہ میں رہتے تھے۔ اگر کسی نے غلطی سے فون اٹھا لیا تو سارے گھر کے کان اس طرف ہوتے تھے۔ بہرحال جوانی گزری اور روزگار کا پہیہ گھومنا شروع ہو گیا۔ بیوی، بچوں کے چکر میں ساری رومانیت ہوا ہو گئی پھر ایسے مقام پر سیل فون انٹرنیٹ آیا جب ہم آلو ٹماٹر کی لائن میں لگے ہوئے تھے۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں جوانی کی حدوں کو چھو رہے تھے اور اس وقت سوشل میڈیا اپنے عروج پر تھا۔ بغیر سیل فون اور سوشل میڈیا کے نوجوان نسل کی زندگی ادھوری تھی اور وہ حیران ہوتے تھے کہ ہم نے زندگی کا اتنا لمبا سفر بغیر سیل فون کے کیسے گزار لیا، وہ ہمیں کسی دوسری ہی دنیا کی مخلوق سمجھتے تھے۔ بغیر فون بھی جینا کوئی جینا ہے، یہ تو آکسیجن ہے آکسیجن۔
بہرحال جب ہم غم روزگار سے فارغ ہو گئے یعنی ریٹائرڈ ہو گئے اس وقت تک ایک بیٹا اور دو بیٹیاں رشتہ ازدواج میں بندھ چکے تھے، ایک دن میرا چھوٹا بیٹا جو کہ ابھی زیر تعلیم تھا کہنے لگا ”بابا آپ خالی بیٹھے بیٹھے بور نہیں ہوتے؟ آپ سوشل میڈیا سے شغل کیوں نہیں کرتے“ نا بابا نا، میں نے کانوں کو ہاتھ لگایا یک تو یہ سیل فون کو سمجھنا ہی مشکل ہے، بڑی مشکل سے اسے چلانا آیا ہے، نمبر محفوظ کرو، وائس میل چیک کرو، یہی کافی ہے، نہیں بابا یک مرتبہ اگر آپ کو سوشل میڈیا کا مزہ لگ گیا تو آپ ساری دنیا بھول جائیں گے اور دوبارہ جوان بھی ہو جائیں گے۔ اچھا ہم نے بڑی حیرت اور اشتیاق سے پوچھا آخر یہ سوشل میڈیا ہے کیا بلا؟ بابا واٹس اپ، فیس بک، ٹوئیٹر، آج ہر طرف اس کا راج ہے، گھر بیٹھے آپ ساری دنیا سے جڑ جائیں گے، یہ ساری کتھا سن کر تو ہمیں بھی خواہش پیدا ہوئی کہ ذرا اس کو بھی دیکھیں۔ آپ فکر نا کریں بابا، میں آپ کو سب سکھا دوں گا اور آپ اتنے مصروف ہو جائیں گے کہ آس پاس کا ہوش ہی نہیں رہے گا تو پھر سکھاﺅ ہم نے بے تابی سے فون اس کی طرف بڑھا دیا۔ اب ایسا بھی کیا ہتھیلی پر سوسوں جمانا، ذرا میرے امتحان ختم ہو جائیں تو اگلے ہفتے سے کلاس شروع۔ ٹھیک ہے صبر کر لیتے ہیں ہم نے مایوسی سے گردن ہلائی۔ ایک ہفتے بعد بیٹے نے ہمیں بتانا شروع کیا، شروع شروع میں تو بیزاری ہوئی لیکن آہستہ آہستہ دلچسپی پیدا ہونے لگی، اگلے دو مہینے میں ہمارے فیس بک اکاﺅنٹ میں بہت سے فیس بکی فرینڈ آچکے تھے۔ چار مہینے میں تو ہم فیس بک میں ایسا گم ہوئے کہ واقعی آس پاس کا ہوش نا رہا، بس ایک بات کا قلق تھا جب ہم نوجوان لڑکے لڑکیوں کو بے باکی سے فیس بک پر باتیں کرتے نوک جھونک اشارے کنائیے کی پوسٹیں اور کامنٹس دیکھتے تو دل بڑا کڑھتا کہ یہ کم بخت فیس بک ہماری جوانی میں کیوں نا آیا۔ شاید ہمارے چہرے کی مایوسی کو بیٹا بھانپ گیا اور کہنے لگا بابا اگر آپ کو زیادہ تفریح لینا ہے اور لوگوں کی زیادہ توجہ چاہئے تو ایک اور اکاﺅنٹ بنائیں جس میں اپنا پروفائل بالکل فرضی رکھیں، اپنی عمر بھی 26 سال اور فوٹو شاہ رخ خان کا اور ابھی طالب علمی کا دور ہے، پھر دیکھئے کیا مزے آتے ہیں، اس سے کیا ہو گا ہم نے حیرانی سے پوچھا، بابا آپ بنائیں تو پھر خود ہی دیکھئے گا کیا ہوتا ہے۔ ہم نے کہا اچھا اور فوری طور پر ایک نیا اکاﺅنٹ بنا لیا، جلد ہی ایک چلبلی بے باک اور شریر قسم کی لڑکی ہماری نظروں میں آگئی، اس کی باتیں بڑی شوخ ہوتی تھیں، ہمیں بھی اپنی جوانی یاد آگئی اور ہم نے اس پر خصوصی توجہ دینا شروع کردی، جلد ہی لوگ ان باکس میں پہنچ گئے، ہم واقعی اپنے آپ کو 26 سال کا نوجوان سمجھنے لگے۔ اس کا نام رشی تھا۔ اور وہ 22 برس کی تھی، کبھی کبھی ہمیں بڑی شرمندگی محسوس ہوتی کہ میں اچھا نہیں کررہا ہوں۔ اس بے چاری نوجوان لڑکی کو دھوکہ دے رہا ہوں، جیسے جیسے ہمارے تعلقات میں اضافہ ہو رہا تھا، میری بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ جب اسے میرے بارے میں معلوم ہوگا تو کیا ہوگا۔ لیکن جلد ہی ہم نے سر جھٹک دیا، یہ سوشل میڈیا ہے، یہاں سب چلتا ہے، دیکھی جائے گی کہہ کر ہم نے دل کو مطمئن کرلیا۔
اسی دوران ہماری زندگی بھر کی جمع پونچی ہمارے دو پلاٹ کا مسئلہ کھڑا ہو گیا، کسی نے اس کے جعلی کاغذات بنا کر دعویٰ کردیا تھا لہذا ہمیں روز KDA کے چکر لگانے پڑے، جس کی وجہ سے فیس بک پر دھیان کم ہو گیا، رشی نے بھی اسے محسوس کیا اور وہ ناراض ہونے لگی، کیا بات ہے اتنی دیر کے بعد جواب آتا ہے، آخر کہاں مصروف رہتے ہو، مجھے معلوم ہے یہ بیس بک ہے ہی ایسی چیز کوئی نئی دوست بن گئی ہوگی، لہذا مجھ سے کنارہ کررہے ہو، ایسی بات نہیں ہے، میں واقعی بہت مصروف تھا، میں نے اسے یقین دلانے کی کوشش کی وہ کہنے لگی آخر ایسی کیا مصروفیت ہے جو تم مجھے بتانا نہیں چاہتے، یہ ساری بات ان باکس میں کبھی میسج میں اور کبھی وائس میسج میں ہو رہی تھی، میں نے کہا یار کیا بتاﺅں کچھ پلاٹ وغیرہ کا چکر ہے روزانہ KDA کے چکر لگا رہا ہوں، تمہیں تو معلوم ہے یہ آفس والوں کا کام تو اس نے میسج بھیجا اچھا KDA میں تو میرا کزن علیم کام کرتا ہے اور پھر فوراً ہی دوسرا میسج آیا، میں مذاق کررہی تھی، میں کسی علیم ولیم کو نہیں جانتی، نا کوئی میرا کزن KDA میں ہے۔ میں نے کہا اچھا دوسرے دن پھر KDA جانے کا اتفاق ہوا ناجانے کیوں میں نے ایک شخص سے پوچھ لیا، یہاں کوئی علیم صاحب کام کرتے ہیں۔ اس نے کہا ہاں وہ سامنے والا کمرہ ہے۔ میں بے اختیار اسی کمرے کی طرف بڑھ گیا، کمرے میں موجود ایک شخص نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا، فرمائیے کیا خدمت کر سکتا ہوں، آپ کا نام علیم ہے، اس نے کہا جی ہاں پھر میں نے پوچھا آپ کسی رشی نام کی خاتون کو جانتے ہیں، اس نے انکار میں سر ہلایا، میں نے کہا اوہ معاف کیجئے گا۔ وہ دراصل رشی نام کی ایک خاتون نے مجھے کہا تھا کہ ان کے کزن KDA میں کام کرتے ہیں، اور ان کا نام علیم ہے اس لئے میں سمجھا شاید آپ ہوں۔
ایک منٹ، علیم صاحب نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا اور یہ خاتون آپ کو کہاں ملی تھیں، وہ دراصل میری فیس بک فرینڈ ہیں، شاید وہ ایسے ہی کہہ گئیں، بعد میں انہوں نے تردید بھی کردی تھی۔ علیم صاحب کسی سوچ میں گم ہو گئے، پھر وہ بڑبڑائے ضرور زبیدہ ہو گی، میں نے چونک کر پوچھا جی آپ کچھ کہہ رہے ہیں، ہاں میں سمجھ گیا وہ میری کزن زبیدہ ہے، اسے فیس بک کا ایسا شوق لگا ہے کہ ہر وقت فیس بک پر رہتی ہے شاید اس نے اپنا نام رشی رکھ لیا ہو اور پھر علیم صاحب ہنسنے لگے، کمال کی عورت ہے، وہ تو سب صحیح ہے لیکن یہ آپ کی کزن زبیدہ کی عمر کیا ہو گی، اس بات پر علیم صاحب نے ایک قہقہہ لگایا، یہ راز بھی صرف میں جانتا ہوں، لیکن جب اس نے آپ کو میرے بارے میں بتا دیا تو میں بھی آپ کو بتا دوں، محترمہ 75 سال کی ہیں لیکن فیس بک پر ابھی تک جوان ہیں، اتنا سن کر میں تیزی سے گھوما اور باہر نکل گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں